• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی پنجاب کے دوسرے بڑے شہر بہاول پورمیں پی ڈی ایم ایک بڑا عوامی شو کرنے میں کامیاب رہی ، جلسہ کی بجائےوہاں ریلی کا اعلان کیا گیاتھا اور اسی ریلی میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ، مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز ،پیپلزپارٹی کے وائس چئیرمین سید یوسف رضا گیلانی اپنے اپنے قافلوں کے ساتھ بہاول پور پہنچے ،انتظامیہ کی طرف سے ریلی کی اجازت نہ دینے کا وہی گھساپٹا اعلان کیا گیا تھا ،لیکن ریلی رکی اور نہ ہی انتظامیہ اسے کسی جگہ روکنے میں کامیاب رہی ،یہ شاید بہاول پور میں اپنی نوعیت کی ایک بڑی ریلی تھی ،کیونکہ اس سے پہلے بہاول پور کو کبھی ایک مرکزی سیاسی شہر کے طور پر نہیں لیا گیا ،مگر اس بار پی ڈی ایم نے ریلی کے لئے بہاول پور کو منتخب کرکے ایک ایسا کارڈ کھیلا ہے کہ جس سے اس تاثرنے بھی جنم لیا کہ جنوبی پنجاب میں پی ڈی ایم کی نہ صرف عوامی مقبولیت موجود ہے بلکہ اسے کسی وقت بھی ایک بڑے لانگ مارچ کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

جس طرح ملتان، ڈیرہ غازی خان سے ریلیاںبہاول پور پہنچیں اور وہاں سرائیکی چوک پر ایک بہت بڑا اجتماع دیکھنے میں آیا ،وہ اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ پی ڈی ایم عوام کو اس سرد موسم میں بھی سٹرکوں پر لانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور مریم نواز کی سیاسی قیادت پر مسلم لیگ ن کے کارکن خاص طور پر بڑی تعداد میں سامنے آتے ہیں ،مولانا فضل الرحمن کا چونکہ ملتان میں ایک بڑا مدرسہ بھی ہے اور بہاول پور میں بھی وہ ایک بڑی دینی درس گاہ کی سربراہی کرتے ہیں ،اس لئے ان کی ملتان سے بہاول پور پہنچنے والی ریلی ایک بڑا قافلہ تھا اور بہاول پور میں جمعیت علمائے اسلام کے جھنڈے ہرطرف نظر آرہے تھے ،سیاسی طور پرپی ڈی ایم کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی ہے کہ ریلیوں اور جلسوں کے ذریعے عوام کو متحرک رکھا جاسکے اور تحریک کا وہ ٹیمپو برقرار رہے ،جو اس شیڈول کو بناتے وقت سوچا گیا تھا،جب تحریک کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے حکومت کو مستعفی ہونے کی تنبیہ کی گئی تھی ،حکومت کی طرف سے اگرچہ مسلسل یہی کہا جارہا ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے اور اختلافات کی وجہ سے اب اس کا کوئی سیاسی وجود نہیں رہا ،مگر بہاول پور کی ریلی نے اس تاثر کو غلط ثابت کردیا۔

اگرچہ بلاول بھٹو زرداری اس ریلی میں شریک نہیں ہوئے ،مگر پیپلزپارٹی کی بھرپور نمائندگی اس طرح نظر آئی کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ اس عوامی شو میں موجود تھے جبکہ کنٹینر پر بھی پیپلزپارٹی کی نمائندگی سید یوسف رضا گیلانی نے کی ،اس طرح یہ کہنا غلط ہوگا کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کی سیاسی تحریک سے کنارہ کشی اختیار کرچکی ہے ،سیاسی طور پر اس وقت پورے ملک کا ماحول خاصہ گرم ہے ،خصوصاً یکم جنوری کو پی ڈی ایم کے لاہور میں ہونے والے اجلاس کے بعد کہ جس میں مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ واضح اعلان کیا کہ فروری میں شروع ہونے والا لانگ مارچ اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی بھی جاسکتا ہے ،ایک بڑی چونکا دینے والی پیشرفت ہے کیونکہ اس قسم کا اعلان کرکے پی ڈی ایم نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے موجودہ حکومت کو بچانے کی کوشش کی ،تو تحریک کا رخ دوسری طرف بھی جاسکتا ہے ،جو ایک خطرناک بات ہوگی، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست لڑائی سیاسی قوتوں کے لئے کئی مشکلات پید ا کرسکتی ہے ،نہ صرف یہ بلکہ خود جمہوری سسٹم کے لئے بھی اس میں کئی خدشات موجود ہیں۔

اس وقت سیاسی سطح پر ایک ایسا ڈیڈ لاک نظر آتا ہے جسے ختم کرنے کی کوئی کوشش بھی دیکھنے میں نہیں آرہی ،محمد علی درانی جیسے کمزور کرداروں کے ذریعے اگرچہ اس ڈیڈ لاک کو توڑنے کی نیم دلانہ کوشش ضرور ہوئی ہیں ،مگران کا کوئی نتیجہ اس لئے نہیں نکل سکتا کہ جب تک حکومت واضح طور پر اپوزیشن کے لئے مذاکرات کے لئے دروازے کھولنے کی پیشکش نہیں کرتی اور پی ڈی ایم کا بنیادی ایجنڈہ کہ اس حکومت کو گھر بھیجا جائے اور شفاف انتخابات کی تاریخ متعین کرکے حقیقی جمہوریت بحال کی جائے ،زیربحث نہیں لایا جاتا ،تو مذاکرات کا آغاز بھی نہیں ہوسکے گا ،بظاہر حکومت یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسے کوئی خطرہ نہں ہے ،مگر پی ڈی ایم کی تحریک اور اس سے پیدا ہونے والی بے یقینی ایک ایسا عمل ہےکہ جس نے ملک میں بحران سا پیدا کررکھا ہے ،اس بحران سے نکلنے کےلئے سیاسی قوتوں میں ڈائیلاگ ضروری ہے ،مگر یہ ڈائیلاگ کیسے ہو ؟ کن شرائط پر ہو ؟ اور اس کی پہل کون کرے ؟ اس حوالے سے ایک بڑی گہری خاموشی اور نہ ختم ہونے والا ابہام نظر آتا ہے۔

جس دن یہ ریلی بہاول پور میں نکل رہی تھی ،اس دن ملتان میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ،وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک عامرڈوگر اور دیگر تحریک انصاف کے رہنما مدنی چوک پر فلائی اوور بنانے کے افتتاح کی ایک بڑی تقریب سے خطاب کررہے تھے ،ایک طرف حکومتی حلقے پی ڈی ایم پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ کورونا ایس او پیز کا خیال نہیں رکھ رہیں ،جس کے نتیجہ میں کورونا بری طرح پھیل رہا ہے اور دوسری طرف اس کے وزیر ،وزراء ،مشیر خود ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے کہ جب کو رونا کو بھلا کر سیکڑوں لوگوں کو ایک اجتماع کی صورت اکھٹا کریں ،نہ کسی نے ماسک پہناہو اور نہ ہی سماجی فاصلے کا کوئی دھیان رکھا گیا ہو،تو یہ خیال ضرور ذہن میں ابھرتا ہے کہ کورونا پر صرف سیاست کی جارہی ہے،درحقیقت حکومت بھی اس کے حوالے سے غیر سنجیدہ ہے اور اس کے اپنے لوگ کورونا کے تمام تر احتیاطی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی سیاسی دکانداری چمکا رہے ہیں، سیاستدانوں کی بات تو رہی ایک طرف خود انتظامی افسران بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں اورانہوں نے بھی صرف عوام کو کورونا سے ڈرا کر اپنا کام چلا رکھا ہے۔

اس کی مثال اس وقت سامنے آئی ،جب ملتان میں کمشنر الیون اور ڈپٹی کمشنر الیون کے درمیان ایک کرکٹ میچ کھیلا گیا ،اس کے لئے نہ تو کورونا کے ایس او پیز پر دھیان دیا گیا اور نہ ہی اس سماجی فاصلے کی پاسداری کی گئی ،جس کی یہی انتظامی افسر آئے روز تلقین کرتے ہیں ،انہیں افسران کے حکم پر ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والے تاجروں اور عام لوگوں کو جرمانے کئے جاتے ہیں اور درجنوں مقدمات بھی آئے روز درج کئے جاتے ہیں ،کیا اس دوعملی سے عوام میں کورونا کے خلاف سنجیدگی پید ا ہوسکتی ہے ؟ کیا ملک کے سیاستدان و افسران اپنے لئے کورونا کی تمام پابندیوں کو بالائے طاق رکھ کر یہ کام کریں اور عوام سے یہ توقع رکھیں کہ وہ پابندیوں پر عملدرآمد کریں گے ،کیونکہ نہ کرنے کی صورت میں کورونا پھیل جائے گا ؟

ملتان میں تحریک انصاف کوئی بڑا کام تو نہیں کرسکی ،لیکن چھوٹے چھوٹے کاموں کا کریڈٹ لینے کے لئے وزیر،مشیر اس طرح ٹوٹے پڑتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کرلیا ہو،اس کی ایک حالیہ مثال مدنی چوک پر فلائی اوور بنانے کی افتتاحی تقریب ہے ،جسے اس طرح ایک بڑے جشن کی صورت منایا گیا ،جیسے ملتان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی تھا ،اس تقریب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خظاب کرتے ہوئے یہ کریڈٹ بھی لیا کہ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کے عوام سے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے اور یہاں سیکرٹریٹ قائم ہوچکا ہے۔

انہوں نے یہ خوش خبری بھی سنائی کی وزیراعظم عمران خان جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے ملتان آرہے ہیں ،ان سے اس موقع پر ملتان کے لئے ایک بڑے پیکیج کا مطالبہ بھی کیا جائے گا ،کیونکہ ملتان شہرسے تحریک انصاف کے 6 ایم این اے منتخب ہوئے اور کلین سویپ کیا ،سیوریج ،سٹرکوں او رصاف پانی کے لئے وزیر اعظم سے ملتان کے لئے میگا پیکیج لینے کی درخواست کی جائے گی اورہمیں یقین ہے کہ وہ بڑے پیکیج کا اعلان بھی کریں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین