• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی میں انسان کبھی ایسے منفرد اذیت ناک حالات کا شکار ہو جاتاہے ،جن سے اس کے خاندان اور دوست احباب میں سے کوئی بھی نہیں گزر رہا ہوتا۔ایسے میں خدا سے وہ یہ پوچھنے پر مجبور ہو جاتاہے کہ میرے ساتھ ہی کیوں ایسا ہو رہا ہے ؟ Why me?۔ ایک نوجوان کے سب دوست اورہم عمر رشتے دار اچھی ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں ، وہ اکیلا بے روزگار ہے ۔ایسے میں خدا سےایک سوالیہ فریاد دل میں پیدا ہوتی ہےWhy Me?۔ سب دوستوں کی بیویاں فرمانبردار ہیں ،اس کی بیوی بلا کی جھگڑالو ہے ۔ Why Me?۔ ایک لڑکی کی سب سہیلیوں کی شادی ہو چکی ہے ۔ دوسری طرف خوش شکل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس کی شادی نہیں ہو رہی ۔ لوگ آتے ہیں ، دیکھ کر مسترد کر جاتے ہیں ۔ عمر بڑھتی جا رہی ہےWhy Me?۔ دنیا میں کروڑوں مرد ایسے ہیں ، جن میں کوئی خاص وصف نہیں ، پھر بھی ان کی بیویاں اور بیٹیاں ان کے پائوں دھودھو کر پیتی ہیں ۔ لافانی عظمت کے باوجود پہلے قائدِ اعظمؒ کی بیوی نے ان سے علیحدگی اختیار کی۔ پھر بیٹی نے ایک پارسی سے شادی کرتے ہوئے ، انہیں عمر بھر رستے رہنے والا زخم دیا۔ اپنی پیاری بیٹی سے انہیں اپنے مراسم انتہائی محدود کرنا پڑے۔ محمد علی جناحؒ وہ تھے، کروڑوں خواتین ، جن کی ہمسفر بننے کا خواب دیکھتی تھیں ۔ ایک طرف لافانی عظمت اور دوسری طرف عائلی زندگی میں ایسے خوفناک دکھ۔قائدِ اعظمؒ ہی کیوں؟

ایک نوجوان کے دماغ میں نادر منصوبے موجو د ہیں لیکن جیب میں ایک روپیہ نہیں، جس سے انہیں عملی جامہ پہنا سکے۔ دوسری طرف ایک سنار کا بیٹا کسی خاص ذہنی صلاحیت کے بغیر ہی دولت میں کھیل رہا ہے ۔ ایساکیوں ہے ؟

ایک انتہائی ایماندار ، قابل اور فرض شناس سرکاری افسر کے گھر ایک ایب نارمل بچّہ پیدا ہوتاہے۔ یہ ان بچّوں میں سے ہے، جنہیں ہر لمحہ سنبھالنا ہوتاہے اور جو ساری زندگی اپنے پیروں پر کھڑے ہونا تو درکنار رفع حاجت بھی خود نہیں کر سکتے ۔ بخاری صاحب سوچتے ہیں Why Me?کیا یہ صلہ ملا انہیں اپنی خدمات کا ؟

سب سے بڑی مثال مشہور طبیعیات دان اور ماہرِ فلکیات سٹیفن ہاکنگ کی ہے۔مغرب اس کے لیے ''Master of Universe''کا خطاب استعمال کرتا ہے۔ اس ماسٹر کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی ایک انگلی ہلانے پر بھی قادر نہ تھا۔ ''آخر کیوں؟‘‘دنیا میں کروڑوں ایسے لوگ موجود ہیں ، جو ساری زندگی اپنی عقل کا ذرہ برابر استعمال بھی نہیں کرتے۔ ان میں سے کسی کو اگر سٹیفن ہاکنگ کی جگہ وہیل چئیر پہ بٹھا دیا جاتا تو کیا حرج تھا؟

اس ’’کیوں‘‘ کا جواب تلاش کرنا آساں نہیں‘ کم از کم جذباتی کیفیت میں تو ہرگز نہیں۔ اس کا جواب علم و عقل میں پوشیدہ ہے۔ وہ عقل، جس پہ خدا ناز کرتا ہے۔ وہ علم، جس کے بارے میں خدا یہ کہتاہے کہ اس کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ اگر آپ زندگی پر غور نہیں کرتے، دنیا کو سمجھتے نہیں تو صبر ممکن نہیں۔ایمان کی طرح صبر بھی علم کے ساتھ ہے۔ اگر اپنی اولاد کا منفی رویہ آپ کو متواتر تکلیف پہنچا رہا ہے توآپ کو اس کی وجوہات کو سمجھنا ہوگا۔ ہر نفس میں خدا نے اپنی شدید ترین محبت پیدا کی ہے۔ زندگی بچانے سے لے کر ہر قسم کی خودغرضی کی بنیاد یہی محبت ہے۔ کچھ چیزوں میں خدا نے بہت لذت اور کشش پیدا کی ہے اور پھر انہیں ممنوع قرار دیا ہے۔بہر صورت نفس نے یہ کشش محسوس کرنی اور اس پر ردّعمل ظاہر کرنا ہے۔

انسانی و حیوانی جبلّتیں بڑی خوفناک ہیں۔ یہ جو ہزاروں ایٹم بم کرّئہ ارض پہ دھرے ہیں او رجو اسے مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کی بنیاد یہی جبلّتیں ہیں۔ انسان میںیہ زیادہ خوفناک نتائج کی حامل اس لیے ہیں کہ یہ عقل کو بطور ہتھیار استعمال کر سکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خدا ایسا کیوں کرتاہے؟ کیوں وہ کچھ چیزوں کو سجاتا اور پھر ان سے روکتا ہے۔ کیوں وہ آپ کی تمام تر نیکی کے باوجود انتہائی نافرمان اور نالائق اولاد دیتا ہے ؟

جواب یہ ہے کہ یہ دنیا اس نے آزمائش کے لیے بنائی ہے۔ اگر 87 ملین بے عقل مخلوقات کو دیکھیں تو ان میں ایسی آزمائش آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ جذبات بذاتِ خود ایک بہت بڑی آزمائش ہیں۔ انسان ایک دوسرے کے اور اپنے جذبات سے جیسا اور جس قدر آزمایا جاتاہے، کسی دوسری چیز سے نہیں۔ آزمائش وہیں نظر آتی ہے، جہاں عقل ہے۔ جانور آزمائے نہیں جاتے۔ آزمائش عقل کے ساتھ ہے۔ اس بارے میں ایک اصول خدا نے وضع کیا ہے او روہ قرآن کریم میں درج ہے۔ ''اللہ کسی جان کو اس کی استطاعت سے زیادہ نہیں آزماتا‘‘ایسے بھی لوگ دنیا میں موجود ہیں ، جو اپنی تمام اولادوں کے ایب نارمل ہونے کا غم آسانی سے برداشت کرتے رہتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں ، جو صرف رنگت گہری ہونے کاغم ساری زندگی دماغ سے نکال نہیں پاتے ۔

ہر انسان آزمایا جارہا ہے۔ اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق۔ زندگی کے اس سفر میں صرف دعا، علم اور عقل ہی آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ شریف خاندان ہو یا سیاسی و عسکری قیادت کا کوئی طاقتور ترین فرد،دولت جذباتی حادثات سے آپ کو بچا نہیں سکتی ۔

تازہ ترین