• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تسلیم اشرف

کرّئہ اَرض پر بسنے والے اِنسانوں کے تحفظ، فلاح و بہبود اور محدود وسائل میں آبادی کی روز بروز بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر قدرتی وسائل کی ’’بقاء‘‘ یا ‘‘تحفظ‘‘ کلیدی حیثیت رکھتی ہے، کیوں کہ اگر دیکھا جائے تو دورِ حاضر کے ترقّی یافتہ معاشرے میں ہم جو کچھ بھی اپنی زندگی گزارنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں وہ مختلف قدرتی وسائل کی بدولت ہے ۔بشمول تمام دھاتی اور بھرت (Alloys) اور ہزاروں اقسام کے ایسے ’’محاصل‘‘ جو مختلف کیمیکلز سے تیار ہوتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی حوالے سے قدرتی وسائل سے ہی دستیاب ہوتے ہیں۔ 

چناں چہ جب تک ان وسائل کے نئے ذخائر کی دریافت یا مختلف طریقہ ہائے متبادل کی ایجاد، انسانی آبادی اور قدرتی وسائل کے مابین توازن کے قیام، موجودہ اور آنے والی نسلوں کے ان وسائل سے استفادہ کے حقوق کی منصفانہ تقسیم کو فوقیت نہیں دیں گے۔ 

اس وقت تک مستقبل غیرمحفوظ ہی رہے گا۔ قدرتی وسائل سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی قدرتی وسیلہ کا جغرافیائی محدود خطّے میں ایسا غیرمعمولی ارتکاز (ذخیرہ) ہو، جس کی وجہ سے اس کا منافع حصول فی زمانہ یا مستقبل میں ممکن ہو۔ وہ قدرتی وسائل جس کا محل وقوع، مقدار، ساخت اور معیار کی بابت تمام کوائف ارضیاتی شواہد یا ضروری پیمائش موجود ہوں ’’شناخت شدہ قدرتی وسائل‘‘ کہلاتے ہیں جب کہ وہ وسائل جو ممکنہ طور پر کسی علاقے میں موجود ہوں لیکن ان کی بابت کوئی اطمینان بخش معلومات موجود نہ ہوں ’’غیرشناخت شدہ قدرتی وسائل‘‘ کہلاتے ہیں لیکن آنے والے دور میں منافع بخش ثابت ہو سکتے ہیں۔

اٹھارویں صدی میں شناخت شدہ قدرتی وسائل کی معلومات اور اہمیت کی وجہ سے انسانی تجسس بڑھتا گیا اور اسی وجہ سے وقت کے بڑے بڑے ماہرین کی فکرانگیز رہنمائی میں قدرتی وسائل کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا گیا ،تاکہ وسائل کی ہیئت اور اہمیت زیادہ سے زیادہ اُجاگر ہو جائے اور وسائل کی ’’بقاء‘‘ کے حوالے سے مطالعے کو فروغ دیا جا سکے۔ چناں چہ پہلے حصہ میں ایسے تمام قدرتی وسائل کو شامل کیا گیا جن کو اگر ایک مرتبہ استعمال کر لیا جائے تو وہ ختم نہیں ہوتے بلکہ ان کی ضروری نگہداشت اور پیداواری صلاحیت کو بڑھا کر اپنی مرضی کے مطابق بار بار استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسے تمام وسائل کو ’’قابلِ تجدید قدرتی وسائل‘‘ کہتے ہیں۔ مثلاً قابل کاشت اراضی، آبی وسائل، مویشی، جنگلات اور ماہی گیری۔ 

قابل تجدید قدرتی وسائل کے حوالے سے عام مشاہدے میں آنے والی مثال ’’پانی‘‘ کی ہے۔ اگر اس وسیلے کو محتاط طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس کی فراوانی مؤخر نہیں ہو سکتی ،کیوں کہ جس رفتار سے پانی کو استعمال کرتے ہیں ۔اس سے دُگنی رفتار سے قدرتی طور پر بارش، تقطیری عمل، گلیشیئر اور بہتے ہوئے پانی سے ازسرِ نو دستیاب ہو جاتی ہے ،جب کہ دُوسرے حصہ میں ’’ناقابلِ تجدید قدرتی وسائل‘‘ کو رکھا گیا ہے۔ ان کو اگر ایک بار استعمال کر لیا جائے تو اس جگہ خلاء پیدا ہو جاتا ہے اور دوبارہ استعمال کے لئے کسی اور جگہ تلاش کاری کی مہم کا آغاز کرنا پڑتا ہے ،کیوں کہ یہ فوری دستیاب نہیں ہوتے۔

’’ارضیاتی وقت‘‘ کے حوالے سے یہ ’’ملین سالوں‘‘ میں تیار ہوتے ہیں۔ مثلاً تیل و گیس، معادن، کوئلہ، دھات اور قیمتی پتّھر۔ ان کو مجموعی طور پر ’’معدنی وسائل‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو ایک بار استعمال ہونے کے بعد ناپید ہو جاتے ہیں اور انہیں دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا ،تاوقت یہ کہ نیا ذخیرہ دریافت نہ کر لیا جائے۔ اسی وجہ سے معدنی وسائل کا استعمال غیرمعمولی احتیاط کا متقاضی ہے۔ 

لہٰذا زیرِ استفادہ معدن اور دریافت شُدہ معدن کی بقاء یا قومی استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 1756ء میں معاشی ارضیات نے اسی حوالے سے جرمنی کی مشہور ’’مائننگ اکیڈمی‘‘ یعنی کانکنی کی بنیاد رکھی اور یہاں ارضیات کی ایک نئی شاخ ’’مائننگ جیولوجی‘‘ نے فروغ پایا اور تقریباً 125 سال سے زیادہ عرصے تک اس اکیڈمی کی تعلیمات دُنیا پر چھائی رہیں، جس میں کانکنی کی ابتداء سے ہی وسائل کی بقاء پر فکرانگیز توجہ دی گئی ،کیوں کہ کانکنوں کی کانوں سے منافع اسی پر منحصر رہا ہے۔ ’’اکیڈمی آف مائننگ‘‘ نے اس میں مزید پیش رفت کی اور دُنیا کو آگاہ کیا کہ اس سلسلے میں ہمیں ایسے معیار یا اُصول قائم کرنے ہوں گے جو ’’بقاء‘‘ کے طریقہ کار کی موزونیت یا عدم موزونیت کے درمیان امتیاز کرنے کے لئے ضروری ہے۔ یہ معاشرے کی ضروریات کے حسبِ حال معیار پر قابلِ تجدید وسائل کو برقرار رکھنے اور ناقابل تجدید وسائل کے متبادل کے لئے ہے۔ یہ متبادل دوبارہ قابل استعمال والے وسائل کے ذریعہ عمل میں آتا ہے۔

ماہرین معاشیات کی نظر میں اشیاء کے استعمال اور وسائل کے استفادہ کی دو صورتیں ہیں یعنی ’’بقاء‘‘ یا ’’خاتمہ‘‘۔ بقاء کی صورت میں استفادہ کی سمت مستقبل کی جانب ہوتی ہے جب کہ ’’خاتمہ‘‘ میں استفادہ کی سمت حال کی جانب ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ’’بقاء‘‘ کے دو مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینا ازحد ضروری ہے۔ 

اس کا پہلا پہلو بذاتِ خود معدنی وسائل کی بقاء سے متعلق ہے ،جس کے معنی معدنی وسائل کے ضیاع کا تدارک ہے جب کہ دُوسرا پہلو دیگر متعلقہ قدرتی وسائل کی بقاء ہے، جس سے مراد کانکنی اور صنعتی پیداواری عمل سے علاقے کی سطح زمین پر جو منفی اثرات (آلودگی) مرتب ہو رہے ہوں اس پر قابو پایا جا سکے ،تا کہ زیرزمین قدرتی وسائل، ذخیرہ اندوز پانی، فضاء اور سمندر کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھا جا سکے۔ معدنی وسائل کی بقاء اور اس سے منسلک دیگر قدرتی وسائل کی ماحول سے تحفظ کے متعدد طریقے مقامی اور بین الاقوامی حوالے سے رائج کئے جا سکتے ہیں جو اپنی لاگت اور استفادیت کے اعتبار سے مختلف ہیں۔

نئے ذخائر کی دریافت سے بقا ء

ارضی طبیعیات (Geophysics) کے اُصولوں کی مدد سے سطح زمین کے نیچے موجود چٹانوں کی ساخت اور ان کی نوعیت کو بلواسطہ معلوم کر سکتے ہیں۔ ان اُصولوں کو ہم انتہائی مؤثر طریقہ سے زیرِ زمین واقع ارضیاتی ساخت، معدنی ذخائر اور تیل و گیس کی دریافت میں کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں لیکن ابھی تک ’’ارضی نباتات‘‘ (Geobotany) سروے کو یکسر نظرانداز کیا ہوا ہے۔ حالاں کہ دنیا کے بعض ممالک نے ’’نباتاتی سروے‘‘ کے ذریعےمعدنی وسائل کا کھوج لگا لیا ہے، کیوں کہ بعض پودے میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جو محلول ان کی جڑیں ان کو مہیا کر رہی ہیں وہ اس محلول میں سے بعض عناصر کو ضرورتاً زمین سے حاصل کرتے ہیں اور محلول پودے کے جسم میں جمع ہونے لگتا ہے۔ 

ان پودوں کے تجزیہ سے یہ بات معلوم کی جا سکتی ہے کہ اس علاقے میں کس قسم کے معدنی ذخائر کی موجودگی ممکن ہے یعنی سلفر، میگنیشیم اور پوٹاشیم وغیرہ کی ارتکازی نوعیت کیا ہے۔ ’’ارضی نباتاتی‘‘ طریقہ کار جس کا تمام تر تعلق نباتات کی تفصیل سے منسلک ہے۔ تراب (Soil) یا زمین میں بعض قسم کے عناصر کی موجودگی پودوں کی غیرمعمولی نشو و نما میں مہلک یا معاون ثابت ہوتی ہیں۔ 

یعنی پوٹاشیم پودوں کو بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔جن علاقوں میں پوٹاشیم کی کشیر مقدار موجود ہوتی ہے وہاں کے پودے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ گھنے اور تناور نظر آئیں گے ۔اس کے برعکس ایسے عناصر یا دھاتیں جن کا زمین میں موجود ہونا پودے کے لئے انتہائی مہلک ہوتا ہے ۔مثلاً نکل، آرسینک یا دُوسرے عناصر جب وہاں موجود ہوں گے تو اس علاقے میں قطعاً کوئی پودا یا گھاس پھونس نہیں ملے گا۔ 

اس کی مثال ’’کینیڈا‘‘ میں ’’کاپر‘‘ اور ’’نکل‘‘ کے ذخائر کا سب سے بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ یہاں میلوں کے رقبہ میں کوئی پودا، درخت یا سبزہ نظر نہیں آتا، کیوں کہ اس میں موجود ’’سلفائیڈ‘‘ اس کے سطحی اور زیرِ زمین پانی کو متاثر کرتے ہیں ،جس کی وجہ سے سبزہ کے آثار نظر نہیں آتے۔ پودوں کی غیررسمی نایابی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پورے علاقے میں یقیناً ایسا کوئی ذخیرہ موجود ہے جو پودوں کی ہلاکت کا باعث ہے۔ چناں چہ شجرنگار (Vegetation) کی نوعیت، اس کی موجودگی، اس کی پیداواری رفتار یا غیرموجودگی تمام شواہد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہاں کوئی معاشی معدنی ذخائر کا غیرمعمولی ارتکاز موجود ہے۔

متبادل ذرائع سے بقاء

جب ایک معدنی وسیلے کو بکثرت استعمال کیا جاتا ہے تو اس کی ’’بقاء‘‘ خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ مثلاً امریکا ’’ایلمونیم‘‘ حاصل کرنے کے لئے کچدھات باکسائیٹ (Bauxite) کو اس وقت متبادل کے طور پر استعمال کرنے لگا جب کاپر (تانبہ) کے محفوظات کم ہونے لگیں۔ 1900ء میں ’’کاپر‘‘ کے منافع کی شرح 5.0 فی صدتھی جب کہ 1980ء میں یہ منافع کم ہو کر 0.5 فی صد ہوگیا۔ ایسی صورت حال میں ’’باکسائیٹ‘‘ کو اس وقت ’’کاپر‘‘ کی جگہ متبادل کے طور پر استعمال کیا جانے لگا خصوصی طور پر بجلی کی صنعتوں میں جس کے نتیجے میں 2001ء میں ’’کاپر‘‘ کے محفوظات 150 ملین ٹن سے بڑھ کر 650 ملین ٹن ہوگئی لیکن ’’باکسائیٹ‘‘ کے بکثرت استعمال سے اس کی بقاء کے لئے اس کے متبادل کی ضرورت پیش آنے لگی۔ اسی وجہ سے ماہرین اب ’’ایلمونیم‘‘ کے حصول کے لئے ’’باکسائیٹ‘‘ کی جگہ کیولین (Kaoline) کی طرف مائل نظر آتے ہیں جو ایمونیناکلے ہے ،تا کہ باکسائیٹ کو بھی تحفظ مل جائے۔ اب گلاس انڈسٹری والے بھی اَبرق (Mica) کا بھی متبادل دریافت کر چکے ہیں۔ یہ حرارت کی زیادہ سے زیادہ مقدار کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

دھاتی تیل (Slag) کی صورت میں بقاء

عام طور پر دھاتوں کا نقطۂ پگھلائو کافی حد تک بلند ہوتا ہے ،جس کی صورت میں ’’دھاتی میل‘‘ کی شکل میں معدنی وسیلے کی کافی مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس میں اگر ’’فلکس میٹریل‘‘ شامل کر دیا جائے تو ’’سلیگ‘‘ کی صورت میں معدنی وسیلے کا ضیاع کم ہو جاتا ہے ،کیوں کہ اس شمولیت کی صورت میں دھاتوں کا نقطۂ پگھلائو کافی حد تک گر جاتا ہے ،جس سے دُہرا فائدہ حاصل ہو گا ۔یعنی توانائی کی صورت میں ضیاع سے بچائو اور دھاتی تیل (سلیگ) کی شکل میں معدنی وسیلے کے ضیاع سے بچائو ممکن ہوگا۔ لہٰذا مرتکز شدہ کچدھات کے پگھلائو کے دوران ’’سلیگ‘‘ کے ذریعہ ہونے والے دھات کے نقصان میں پہلے کی نسبت نمایاں طور پر کمی کا رجحان پیدا ہو تا ہے۔

آلودگی سے دیگر قدرتی وسائل کی بقاء

ہر قسم کے صنعتی پیداواری عمل عموماً معدنی پیداوار بالخصوص ماحول یعنی دیگر قدرتی وسائل (ہوا، پانی، مٹی) پراثرانداز ہوتے ہیں۔ کانکنی کے عمل سے علاقے کی زمین پر ناگزیر تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ وہاں کے زیرِ زمین آبی نظام اور قدرتی نکاس متاثر ہوتے ہیں۔ 

پیٹرو کیمیکل صنعت میں ادویات کے استعمال اور معدن کی مرحلہ وار تیاری کے دوران فضاء میں بہت ساری گیسز خارج ہوتی ہیں، جس سے زمین کی فضاء بیرونی اور اندرونی آلودگی کی زَد میںآ جاتی ہے۔ لہٰذا کرّئہ اَرض پر موجود دیگر قدرتی وسائل کو آلودگی سے بچانے کے لئے سب سے پہلے استعمال شدہ معدنی اجزاء کو ٹھکانے لگانے کے لئے ’’حفظانِ صحت‘‘ کے اُصولوں کو مدّ نظر رکھنا ہوگا جو مقامی طور پر دُنیا بھر میں استعمال کیا جا رہا ہے لیکن اس سلسلے میں کئی چیزیں ضروری ہیں لیکن اوّلین شرط یہ ہے کہ زیر زمین چٹانوں کی بناوٹ ایسی ہونی چاہئے کہ وہ چٹانی تہیں اپنے اندر باہر سے کسی مائع کو جذب کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہوں ،تاکہ فضلات زیرِ زمین پانی سے گھل مل نہ سکیں۔

کرّئہ اَرض کو سب سے زیادہ نقصان تابکار عناصر کے فضلات سے پہنچ رہا ہے جو نہ صرف سمندر کے حیاتیاتی نظام کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ ان سے زمین کی فضاء بھی کثیف ہوتی جا رہی ہے، کیوں کہ جب تابکار عناصر کے استعمال شدہ اشیاء کو بڑے بڑے مخصوص برتنوں میں ڈال کر سمندر کی اَتھاہ گہرائیوں میں ڈبو دیا جاتا ہے تو لہروں اور پانی کے دبائو کے تحت آگے بڑھتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پانی کے کیمیائی اثرات کی وجہ سے اُن برتنوں میں دراڑیں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں ۔

تازہ ترین
تازہ ترین