• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پی ڈی ایم کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے زیر اہتمام حکومت کے خلاف چاروں صوبائی دارالحکومتوں پشاور، کوئٹہ، کراچی، لاہور سمیت ملتان میں بھرپورپاور شو کے بعد احتجاجی جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کا سلسلہ چھوٹے شہروں تک وسیع ہو گیا ہے، حکومت کے خلاف آخری مرحلہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفے باقی ہیں، اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کی قیادت اپنے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے استعفے وصول کر چکی ہے،پی ڈی ایم میں شامل اکثریتی جماعتیں استعفے دے کر اسمبلیوں سے باہر آنے پر اصرار کر رہی ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستان پیپلزپارٹی اسمبلیوں سے استعفے اور سندھ حکومت ختم کرنے سے انکاری ہے۔

پیپلزپارٹی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات اور سینیٹ کے انتخابات میں بھی بھرپور حصہ لے گی جبکہ بدستور پی ڈی ایم میں بھی شامل رہے گی،اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان،مسلم لیگ ن کی قیادت پہلےپہل پیپلزپارٹی کے فیصلوں سے ناراض تھی لیکن جاتی امرا لاہور میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کے گھر ہونے والے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے دوران پیپلزپارٹی اتحاد میں شامل جماعتوں کو اپنے موقف بارے راضی ہو چکی ہیں،پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتیں آئندہ حکومت کو ٹف ٹائم دیں گی۔ 

رواں ماہ ہونے والے ضمنی الیکشن،مارچ میں سینیٹ الیکشن میں بھی حصہ لیں گی، جلسے، جلوسوں کے بعد لانگ مارچ بھی ہو گا، اسمبلیوں کے اندر بھی حکومت سے مقابلہ کریں گی اور وزیر اعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں کرپشن ریفرنس دائر کر کے قانونی جنگ لڑی جائے گی۔ پیپلزپارٹی نے حکومت کے خلاف کرپشن سکینڈل منظر عام پر لانے کے لئے سنیئر وکلا پر مشتمل کمیٹی قائم کی ہے جس کے سربراہ سابق گورنر پنجاب اور سنیئر قانون دان لطیف کھوسہ وکلا کمیٹی میں حیدر زمان قریشی، امجد اقبال قریشی، سید مجتبی حیدر شیرازی، شکیل عباسی اور سید جرار حسین بخاری بھی شامل ہیں۔ 

وکلا کمیٹی حکومتی ارکان کی کرپشن، چور بازاری، سارکاری مالیاتی بددیانتی کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرے گی، ، لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کے لئے فارن فنڈنگ سکینڈل میں پی ٹی آئی قیادت،چینی سکینڈل میں جہانگیر ترین، آٹا سکینڈل میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار،مالم جبہ میں وزیر دفاع پرویز خٹک،پشاور میٹرو بس میں بلیک لسٹ ٹھیکدار کمپنی، این آر او کے ذریعے وزیر اعظم کی بہن علیمہ بی بی کو ریلیف دینے کے سکینڈلوں کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62,63پر پورا نہ اترنے کا ریفرنس دائر ہو گا کیونکہ انھوں نے الیکشن کے دوران ایک کروڑ نوکریاں دینے، پچاس لاکھ گھر دینے، آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بجائے خود کشی کے جھوٹے وعدے کئے تھے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف نو ماہ بعد اسد عمر کو فارغ کر کے عبدالحفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنا دیا اور آئی ایم ایف کے سامنے قرضوں کے لئے کشکول کے بجائے ڈرم لے کر چلے گئے، ڈالر کی قیمت 160روپے کی بلند ترین شرح پر پہنچ گئی، بنی گالا محل کی 300ایکڑ اراضی کو ریگولرائز کرا دیا گیا، ان تمام اقدامات کے متعلق ٹھوس ثبوت جمع کر کے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کئے جائیں گے کہ وزیر اعظم عمران خان آئین میں درج صادق و امین کے شقوں پر پورا نہیں اترتے، ماضی میں دو وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف سپریم کورٹ کے حکم پر فارغ ہو سکتے ہیں تو عمران خان کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔ 

لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ انھوں نے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو ضمنی الیکشن میں بائیکاٹ نہ کرنے کا مشورہ دیا اور قائل کیا کہ ایم آر ڈی کے ایما پر 1985میں غیر جماعتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا ناقابل تلافی نقصان ہوا اور ایسی غلطی کسی صورت دوبارہ نہیں کریں گے، ضمنی الیکشن اور سینٹ الیکشن دونوں میں حصہ لیں گے، استعفے بھی نہ دئیے جائیں گے اور سندھ اسمبلی بھی ختم نہیں کی جائے گی،اس وقت سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں سے زیادہ اکثریت حاصل ہے،استعفوں اور صوبائی اسمبلی ختم کر کے سینیٹ کے الیکشن نہیں رکیں گے بلکہ حکومت کو اکثریتی حاصل ہو جائے گی، لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ آئندہ ماہ فروری میں سینیٹ کی نصف نشستیں خالی ہو جائیں گی اور مجموعی طور پر 52نشستوں پر نئے سینیٹرز کا چنائو ہو گا، روایت کے مطابق سینیٹ الیکشن مارچ کے پہلے ہفتے ہو گے۔

سینیٹ کی نشستیں چاروں صوبوں میں برابر تقسیم ہو گی اور ہر ایک صوبہ میں 13ارکان سینیٹ کا چنائو ہو گا، سینیٹ الیکشن میں چاروں صوبوں میں پی ڈی ایم کے امیدواروں کی کامیابی کے امکانات ہیں، سندھ میں سینیٹ کی جنرل، ٹیکنو کریٹ، خواتین اور اقلیتی نشستوں پر پی پی پی کے 9امیدوار، جبکہ باقی نشستوں پر حکومت میں شامل تحریک انصاف، ایم کیو ایم، فنکشنل لیگ، پنجاب میں مسلم لیگ ن 5نشستوں جبکہ باقی نشستوں پر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق، خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کے اکثریتی جبکہ آفتاب شیر پائو کی قومی وطن پارٹی، مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی کے امیدوار، بلوچستان میں برسر اقتدار بلوچستان عوامی پارٹی کے اکثریتی جبکہ مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی ، اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی، محمود اچکزائی کی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے امیدواروں کی جیت کے امکانات ہیں، پی ڈی ایم فیصلہ کر چکی ہے کہ آئندہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات اورسینیٹ انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف امیدوار کھڑے نہیں کریں گے بلکہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے اپوزیشن امیدواروں کی جیت کے راستے ہموار کئے جائیں گے۔ 

پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی سینیٹ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی حمایت میں ووٹ دیں گے،پی ڈی ایم میں شامل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں گلگت بلتستان میں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑ کر نتیجہ دیکھ چکی ہیں جس وجہ سے تحریک انصاف کے اقتدار کی راہ ہموار ہو گئ،پی ڈی ایم کو امکان ہے کہ سینیٹ الیکشن میں حکومتی ارکان صوبائی اسمبلی اپوزیشن امیدواروں کو خفیہ ووٹ دیں گے جس سے حکومت کو اپ سیٹ ہو گا، اسی وجہ سے حکومت سینیٹ الیکشن کے دوران خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کا طریقہ اختیار کرنا چاہتی ہے جس کے لئے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کر رکھا ہے، پی ڈی ایم نے وزیر اعظم عمران خان کو 30جنوری تک وزارت عظمی سے مستعفی ہونے کی ڈیڈ لائن دی ہے جس کے اگلے ہی دن پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی میزبانی میں زرداری ہائوس اسلام آباد میں سربراہی اجلاس طلب کر کے لانگ مارچ اور استعفے دینے کی دھمکی دی گئی ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین