• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویلز میں کورونا کی دوسری لہر،انتہائی نگہداشت کے50 فیصد مریض ہلاک

لندن(پی اے ) ایک اسٹڈی سے انکشاف ہواہے کہ ویلز میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کئے گئے کم وبیش 50 فیصد ہلاک ہوگئے۔انتہائی نگہداشت کے نیشنل آڈٹ اور ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق عام طورپر 60 کی عمر کے لوگوں کو انتہائی نگہداشت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔اسٹڈی سے یہ بھی ظاہرہوا ہے کہ ایشیائی پس منظر سے تعلق رکھنے والے اورپسماندہ علاقوں کے لوگ زیادہ متاثر ہوئے ہیں لیکن ایک معروف ڈاکٹر نے دعویٰ کیاہے کہ مجموعی طورپر اب لوگ صحتیاب ہورہے ہیں ،انتہائی نگہداشت کے کنسلٹنٹ میٹ مورگن نے کہا کہ علاج کے نئے طریقہ کار کے تحت اب صرف شدید بیمار افراد ہی انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل کئے جاتے ہیں جہاں صحتیاب ہونے والوں کی شرح بہت کم ہے۔ICNARC نے پورے برطانیہ میں انتہائی نگہداشت کے مریضوں کے آڈٹ کیلئے یکم ستمبر سے 31 ستمبر کے دوران کورونا وائرس سے شدید متاثر ویلز کے431 مریضوں کی معلومات اکٹھی کی ہیں،انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل ہونے والے ان مریضوں میں 68 فیصد مرد اور32 فیصد خواتین تھیں جبکہ 91.6 مریض سفید فام تھے،ان مریضوں میں 6.3 ایشیائی تھے،آڈٹ رپورٹ کے مطابق ابھی تک زیر علاج مریضوں کے سوا یونٹ میں داخل ہونے والے 50 فیصد مریض جانبر نہیں ہوسکے،ڈاکٹر مورگن کاکہناہے کہ مریضوں کی صحتیابی کی شرح سے ہسپتالوں کی صورت حال کااندازہ لگایا جاسکتاہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم بیماری کے پہلے مرحلے کے بہت کم مریضوں کوجان بچانے میں مدد دینے والی مشینوںپر رکھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہمارے پاس اس کاعلاج ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہم ان کی مدد کرسکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اب آپ کاکوڈ سے صحتیاب ہوجانے کا امکان پہلے کے مقابلے میں بہت بڑھ گیا ہے تاہم اس کاانحصار عمر کے گروپ پر بھی ہے بعض اوقات زندہ بچنے کے امکانات 10 فیصد تک زیادہ ہوتے ہیں انھوں نے کہا کہ ہمیں اتنا معلوم ہے کہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہونے والے کم وبیش 60 فیصد امراض صحتیاب ہوکر گھر واپس جاسکتے ہیں یعنی اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہر چوتھا یعنی 40فیصد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں ،انھوں نے کہا کہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل ہونے والے 70 سال سے زیادہ عمر کے بمشکل 40 فیصد اور80سال سے زیادہ عمر کے بمشکل 20 فیصد افراد صحتیاب ہوپاتے ہیں ،ICNARC نے اس بات کو بھی اجاگر کیاہے کہ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی صحتیابی کی شرح بمشکل 20 فیصد ہے ڈاکٹر مورگن کاکہناہے کہ افسوسناک حقیقت یہ ہے یہ بیماری ہی محرومی کی بیماری ہے اور یہی وجہ ہے کہ ویلز میں جہاں ماضی کے صنعتی زخم کے اثرات اب بھی بہت زیادہ ہیں ہمیں اس کے ا ثرات زیادہ نظر آتے ہیں ۔
تازہ ترین