امریکہ کو عظیم جمہوری روایات کا امین سمجھا جاتا ہے جہاں رواداری، برداشت، برابری اور آزادیٔ اظہار کو معاشرے کی بےمثال خاصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ تاریخ چند دہائیوں نہیں، سوا دو سو سال پر محیط ہے تاہم پوری دنیا نے دیکھا کہ گزشتہ محض چار برسوں میں امریکہ کی اِس سنہری تاریخ کو اعلیٰ ترین منصب پر براجمان شخصیت نے داغدار کرنے میں کوئی تامل نہیں برتا، تبھی تو کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی سوا دو سو سالہ جمہوری تاریخ میں ٹرمپ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہمیشہ یاد رکھے جائینگے۔مسٹر ٹرمپ نے ایک غیرروایتی اور غیرسیاسی شخصیت کے باوجود نعروں اور دعوئوں سے پاپولر لیڈر کی حیثیت اور اقتدار حاصل کر لیا، یوں امریکی تاریخ بدل گئی۔ ٹرمپ کے حامی گزشتہ چار برسوں میں معاشی استحکام، روزگار میں اضافے، اقتصادی ترقی اور بیرونی ملکوں سے فوجیوں کی واپسی سمیت نئی جنگ نہ چھیڑنے اور بالخصوص پاکستان و دیگر اسلامی ملکوں پر ڈرون حملے بند کرانے کو تاریخی کارنامہ گردانتے ہیں تاہم نقاد ٹرمپ کی سفارتی سطح پر یکطرفہ و غیرمنصفانہ تباہ کن پالیسیوں کو امریکہ کے متعلق عالمی سطح پر نفرت انگیز جذبات بھڑکانے کا مؤجب سمجھتے ہیں۔ صدرٹرمپ نہ صرف 30سال بعد دوسری مدت کا صدارتی انتخاب ہارے بلکہ ڈیڑھ سو سال بعد نومنتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے انکار کرنیوالے مجموعی طور پر چوتھے صدر کا اعزاز بھی اپنے نام کیا ہے۔ غیرپائیدار جمہوریتوں اور تیسری دنیا کے ممالک میں پارلیمنٹ کی بےتوقیری کے واقعات معمول کا حصہ ہیں مگر 1814میں دشمن فوج کے حملے کے دو سو سال بعد یہ کارنامہ بھی صدر ٹرمپ کے حصے میں آیا، جنہوں نے اپنے مسلح حامیوں کو اکسا کر پارلیمنٹ کے وقار کو تباہ کرکے انجام دیا، یہ امریکی جمہوری روایت کا وہ اہم ترین اور تاریخی دن ہوتا ہے (6جنوری) جب امریکی کانگریس نومنتخب صدر کے حاصل کردہ الیکٹورول ووٹوں کی تصدیق کرکے منتخب صدر کی توثیق کرتی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ پاکستان و بھارت سمیت کئی ترقی پذیر ملکوں میں سیاستدانوں کو ان کے نظریات اور طریق سیاست پر عتاب کا نشانہ بننے کے مظاہرے عوامی مقامات پر نظر آتے ہیں مگر اب یہ نئی روایت امریکی تاریخ کے اضافی باب کے طور پر شامل ہو چکی ہے جہاں ٹرمپ کے حامی حکومتی اور اپوزیشن کے منتخب ارکانِ پارلیمنٹ کو راستوں میں روک کر بدتمیزی کا نشانہ بنا رہے ہیں اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔امریکی سیاست کے تجربہ کار پارلیمنٹرینز موجودہ سیاسی بدحالی کی صورت حال اچانک پیدا ہونے کا دعوی بھی سچ تسلیم نہیں کرتے، اُنکےخیال میں جمہوریت کے لبادے میں لپٹی امریکی معاشرے اور سیاست کی خامیاں اچانک عریاں نہیں ہوئیں بلکہ ایک غیرروایتی و غیرسیاسی کردار نے اپنی غیردانشمندانہ حکمت سے انہیں بےنقاب کر دیا ہے۔ یہ نقطہ بھی بہت اہم ہے کہ پہلی مرتبہ طاقتور امریکی اسٹیبلشمنٹ نے جمہوری نظام کی بقا اور اقتدار کی پُرامن منتقلی کے نام پر مقتدر شخص کی بجائے نومنتخب صدر کی پشت پر کھڑے ہونیکا غیرمعمولی فیصلہ کیا ہے اور 20جنوری کو نئے صدر کی تقریب حلف برداری کو انتہا پسند مسلح نسل پرست جتھوں سے بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی ہے۔ بعض ہم وطنوں کی جانب سے امریکی کی سیاسی صورتحال کا تقابلی جائزہ 73سالہ پاکستان کی چند سالہ جمہوری سیاسی تاریخ اور موجودہ اقتدار کی رسہ کشی سے کرنا شاید اتنا مناسب نہیں تاہم گزشتہ انتخابات کے انتخاب اور انداز حکمرانی کے نئے تجربے نے عوام سمیت ہر طبقے کو پریشان اور ہیجان کا شکار کر رکھا ہے تاہم وطن عزیز کے دشمن ہمسایہ کا مودی ٹرمپ کے نقش قدم پر چل کر انتہا پسندانہ عزائم کی انجام دہی میں مصروف ہے جس کا انجام اس کے امریکی Mentorسے مختلف نہیں ہوگا۔ تجزیہ کاروں کی نظر میں چار دہائیوں سے امریکی سیاست کے اہم کردار نومنتخب صدر جوبائیڈن سے امریکی عوام کو بلاشبہ بہت توقعات ہیں اور وہ بہت کچھ کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں، ٹرمپ کے سیاہ دور میں نفرتوں کے جو بیج بوئے گئے انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا شاید جلدی ممکن نہیں ہوگا، عالمی سطح پر امریکہ کی بطور طاقتور لیڈر کے طور پر کھوئی ہوئی ساکھ کی بحالی ایک بڑا مشکل ٹاسک ہے، ان کے خیال میں جمہوری، سیاسی اور معاشرتی تاریخ کے روشن و دمکتے امریکی چہرے کے داغدار ہو جانے کے گہرے گھائو کو بھرنے کے لئے امریکی قوم کو خود اٹھ کھڑا ہونا ہوگا ورنہ ٹرمپ نظریہ کی شدت پورے معاشرے کو لپیٹ میں لےکر معاشی چیلنجز میں گھرے امریکہ کو بدترین انتہا پسند ملک میں تبدیل کر سکتی ہے۔ شاید امریکیوں کو بھی ایک نئے جذباتی نعرے کی اشد ضرورت ہے، جاگ امریکی جاگ، تیری پگ کو نوں لگ گیا داغ!