• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حادثے اچانک ہوتے ہیں اور سب سے بڑا غیرمتوقع حادثہ امریکہ میں رونما ہوا ہے جو گزشتہ صدی سے مغربی تہذیب کا امام تصور کیا جاتا تھا۔ اِس کالم کے شائع ہونے سے پہلے امریکہ کے چھیالیسویں صدر جوبائیڈن پچیس ہزار فوج کے حصار میں حلف اٹھا چکے ہوں گے اور زخمی امریکہ کی مرہم پٹی میں دن رات مصروف ہوں گے۔ اقتدار کے لالچی اور تنگ نظر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016کے انتخابات میں اپنے وطن کو نسلی طور پر تقسیم کر کے نفرت اور تشدد کے شعلے بھڑکا دیے تھے۔ اُنہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ ہم پاکستان کو اِس کی وعدہ خلافیوں کا انتہائی عبرتناک سبق سکھائیں گے۔ اُن کی طرف سے یہ حکم بھی جاری ہوا تھا کہ مسلم ملکوں سے آنے والے شہریوں کے لیے امیگریشن کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں کہ اُن کے آنے سے ہمارے امریکی ہم وطن بےروزگار ہو جاتے ہیں۔ اُن کے زیادہ تر اقدامات آزادیِ اظہار پر پابندی لگانے اور جمہوری روایات کا گلا گھونٹ دینے والے تھے۔ 2020میں انتخابات ہارنے کے بعد اُنہوں نے جس خونخوار انداز میں سفید فام امریکیوں کے جذبات بھڑکائے اور وہ جس وحشیانہ طریقوں سے کیپٹل ہِل پر حملہ آور ہوئے، اِس واقعے نے پوری دُنیا کو ہلا ڈالا۔ ریاست کے لیے قانون بنانے والے بڑی مشکل سے اپنی جانیں بچا سکے۔ اِس ہولناک غارت گری میں چار محافظ موت کی آغوش میں چلے گئے، جمہوریت کا عَلم سرنگوں ہو گیا اور قانون کا پتوار ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔

اِس لرزہ خیز واقعے سے تاہم یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئی ہے کہ امریکہ میں ریاستی ادارے مستحکم ہیں جو صدر ٹرمپ کی غیرقانونی اور غیرانسانی خواہشات کی راہ میں مضبوط رکاوٹ ثابت ہوئے۔ اُنہی کے نائب صدر نے اُن کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی صدارتی چیرہ دستیوں کے آگے ڈٹ گئیں اور ایوان نے واضح اکثریت سے صدر کے مواخذے کی دوسری بار قرارداد منظور کی جس کے حق میں صدر کی پارٹی کے دس ارکان نے بھی ووٹ دیے۔ میڈیا نے ملکی وقار کے تحفظ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور عوام کے وسیع حلقے نے انسانی قدروں سے وابستہ رہنے کا عہد کیا۔ یورپ اِس صدمے سے ابھی تک جانبر نہیں ہو سکا۔ اِس کے بیشتر ممالک میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ عالمی برادری کا ہمارے نظامِ حکومت پر سے اعتبار اُٹھ جائے گا اور طاقت کا توازن یکسر بگڑ جائے گا۔ وہ اِس امر کا بھی برملا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکی نظامِ سیاست اور طریقِ انتخاب میں بنیادی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ جوبائیڈن جو سب سے زیادہ عمر رسیدہ صدر ہیں، اُن کے بارے میں فوری طور پر قطعیت کے ساتھ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے فوری طور پر کیا کیا اقدامات کریں گے اور پاکستان کے ساتھ اُن کا طرزِعمل کیسا ہو گا، تاہم یہ امر یقینی ہے کہ وہ محبت اور وحدت کا پیغام دیں گے اور تعصب پر مبنی پالیسیوں پر خطِ تنسیخ پھیر دیں گے۔ دراصل صدارتی پالیسیوں کی تشکیل میں کئی اہم ادارے کام کرتے ہیں اور بیرونی لابیاں بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی فیصلہ سازی میں اسرائیل کی لابی بڑی مؤثر تھی۔ اُس کے زیرِاثر امریکہ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بلاچوں و چرا تسلیم کر لیا اور نصف درجن کے لگ بھگ عرب اور مسلم ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی رابطے قائم کرنے پر مجبور کر دیا۔

بدلتے ہوئے حالات سے یہ واضح اشارے ملتے ہیں کہ صدر جوبائیڈن کی پالیسی، صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے یقیناً مختلف ہو گی۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ پہلی فرصت میں مسلم ممالک پر سے امریکی سفری پابندیاں ختم کر دیں گے۔ ایک مسلم خاتون خوشی سے سرشار کہہ رہی تھیں کہ اب مَیں امریکہ جا کر اپنے بیٹے سے مل سکوں گی۔ امریکہ جہاں تین لاکھ کے لگ بھگ افراد صدر ٹرمپ کی بےپروائی اور نااہلی سے لقمۂ اجل بن چکے ہیں، وہاں بڑے پیمانے پرلوگ یہ توقع کیے بیٹھے ہیں کہ صدر جوبائیڈن عوام کی صحت پر بھی پوری توجہ دیں گے اور نفرت اور تقسیم کی لعنت پر قابو پانے کی سرتوڑ کوشش کریں گے۔ پیو (Pew) ریسرچ سنٹر کے جاری شدہ سروے کے مطابق جرمنی میں 79فیصد، فرانس میں 72فیصد اور برطانیہ میں 65فیصد افراد پُراعتماد ہیں کہ نئے امریکی صدر عالمی امور کے حوالے سے درست فیصلے کریں گے۔ اِس امید بھرے ماحول میں اِس خوش گمانی کا سہارا لیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے بارے میں صدر جوبائیڈن حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ایک متوازن حکمتِ عملی اختیار کریں گے اور علاقائی اور عالمی امن کے تحفظ میں ایک فعال کردار ادا کریں گے۔

میری خوش فہمی کی ایک بنیاد موجود ہے۔ جوبائیڈن بہت کم عمری میں امریکی سینیٹ کے رکن منتخب ہو گئے تھے۔ وہ اِس حیثیت میں کئی بار پاکستان آئے اور حالات سے آگاہی حاصل کرتے رہے۔ وہ پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت کا پورا اِدراک رکھتے ہیں اور اُن کے اہم پاکستانی شخصیتوں سے تعلقات بھی قائم ہیں۔ وہ اپنے قریبی دوستوں سے یہ بھی کہتے آئے ہیں کہ ہمیں پاکستان سے تعلقات قائم رکھنے کی زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ اِس کی سرحدیں شرقِ اوسط کے ساتھ ساتھ روس اور چین سے بھی ملتی ہیں۔ اِسی اہمیت کے پیشِ نظر جوبائیڈن امریکی نژاد پاکستانی شخصیات سے رابطے میں رہتے ہیں۔ عہدہ سنبھالنے سے پہلے اُنہوں نے علی زیدی سے خود بات کی اور اُنہیں ماحولیات کا ڈپٹی ڈائریکٹر بنانے کی پیشکش کی۔ اِسی طرح سلمان احمد وزارتِ خارجہ میں ڈائریکٹر نامزد کر دیے گئے ہیں۔ یہ صاحب صدر اوباما کے ساتھ بھی کام کرتے رہے ہیں جب جوبائیڈن اُن کے نائب صدر تھے۔ سلمان احمد نے کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اور آج کل پریسٹن یونیورسٹی میں تنازعات حل کرنے کا مضمون پڑھاتے ہیں۔ اِن تقرریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ پاکستان سے اچھے روابط رکھنے کی پالیسی اپنائے گی۔ اب خوف پاکستان کے ٹرمپوں سے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اس کے طور طریق اختیار کیے ہوئے ہیں اور قوم کو تقسیم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ڈر ہے کہ وہ ایک ڈنڈے سے ٹوکری کے تمام انڈے ہی نہ توڑ ڈالیں۔

تازہ ترین