اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ(ن) براڈ شیٹ معاہدہ سامنے لے آئی۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے براڈ شیٹ معاملے پر سابق وزراء احسن اقبال، خرم دستگیر اور مریم اورنگزیب کے ہمراہ میڈیا بریفنگ کی۔
انہوں نے کہاکہ جون 2000 میں براڈ شیٹ معاہدے پر اس وقت کے چیئرمین نیب نے دستخط کیے، حکومت پاکستان اب تک 1ہزار کروڑ روپے براڈ شیٹ کو ادا کرچکی۔
شاہد خاقان عباسی نے استفسار کیا کہ 1 ہزار کروڑ روپے کی ادائیگی کے حوالے سے کوئی جواب دینے والا ہے؟ کیوں پیسے بھیجے؟ کس مقصد کےلیے بھیجے گئے؟
ان کا کہنا تھا کہ براڈ شیٹ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ عظمت سعید وہ شخص ہیں، جو معاہدے کے وقت پنجاب میں نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے۔
سابق وزیراعظم نے مزید کہاکہ چیئرمین نیب کے دستخط والے معاہدے میں طارق فواد ملک سمیت 2 گواہ ہیں، براڈ شیٹ ایل ایل سی وہ کمپنی ہے، جس کا کوئی وجود نہیں تھا۔
انہوں نے کہاکہ چند دن پہلے بننے والی کمپنی سے مکمل یکطرفہ معاہدہ دستخط کیا گیا، جسے اب تک 1 ہزار کروڑ روپے کی ادائیگی ہوچکی ہے، یہاں سے پیسے انگلینڈ سفارت خانے کے اکاؤنٹ میں بھیجے گئے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ جنہوں نے انگلینڈ پیسے بھیجنےکا فیصلہ کیا وہ کمیشن میں بیٹھے ہیں، وزرا اور سرکاری افسروں پر براڈ شیٹ سے حصہ مانگنے کا الزام لگا ہے۔
اُن کا کہنا تھاکہ عظمت سعید صاحب کو کمیشن کا انچارج لگایا گیا، ملک میں کمیشنوں کی تاریخ زیادہ عزت افزا نہیں، حمود الرحمان سے چینی کا کمیشن بننے تک صرف مجرموں کو چھپانے کی کوشش ہوئی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ عظمت سعید وہ شخص ہیں جو معاہدے کے وقت پنجاب میں نیب کے پٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے، وہ اس معاہدے کا حصہ ہیں، کیا اس ادارے سے حق کی بات کی توقع کی جاسکتی ہے؟