• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کیلئے بائیڈن رویہ کیا ہوگا، نئےامریکی صدر کے اردگرد بھارتی نژاد افراد پاکستانیوں سے زیادہ، نئی ٹیم کےاہم ارکان کی پاکستان کیلئے مثبت رائے

پاکستان کیلئے بائیڈن رویہ کیا ہوگا


لاہور (صابر شاہ) نئے امریکی صدر جو بائیڈن کا پاکستان کیلئے رویہ کیا ہوگا ، نئے امریکی صدر کے اردگرد بھارتی نژاد افراد پاکستانیوں سے زیادہ ہیں ، نئی انتظامیہ میں 20بھارتیوں کو اہم عہدے ملے ہیں جن میں 2کشمیری بھی شامل ہیں۔

ان عہدیداروں میں 17وائٹ ہاؤس کمپلیکس کا حصہ ہوں گے اور 3نیشنل سیکورٹی کونسل میں شامل ہوں گے ، تاہم براک اوباما دور کے وہ عہدیدار جو بائیڈن نے نظر انداز کردیئے ہیں جو جن کے متعلق شبہ تھا کہ ان کے بھارتی انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگ (آر ایس ایس) یا پھر بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلقات ہیں۔ 

بھارتیوں کا خیال ہے کہ بھارتی تارکین وطن کے یہ بیٹے بیٹیاں دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی سوچ بھارت کے حق میں کرنے کیلئے کردار ادا کریں گے۔ تاہم بائیڈن کی نئی ٹیم کے اہم ارکان کی پاکستان کیلئے رائے مثبت ہے اور بائیڈن کی ٹیم میں 2پاکستانی بھی شامل ہیں پاکستانی نژاد علی زیدی ماحولیات کے مشیر ہوں گے جبکہ سلمان احمد فارن پالیسی ٹیم کا حصہ ہوں گے ۔ جبکہ پاکستانی امریکیوں نے بھارتیوں کے مقابلے پاکستانی نژاد افراد کی تعداد کم رکھنے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ 

دوسری جانب نئی دہلی اور سری نگر کے ایوانوں میں یہ بات زور وشور سے کی جانے لگی کہ ڈیموکریٹک حکومت کے تحت عالمی انسانی حقوق کے گروپس مقبوضہ کشمیر میں متحرک ہوسکتے ہیں۔ جب کہ کشمیری نژاد دو خواتین ماہرین کو جوبائڈن کی ٹیم میں شامل کیا جانا اس کی جانب اشارہ ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق کملا ہیرس کے امریکا کی نائب صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے پر ہی سرحد پار کے میڈیا ہاؤسز بہت خوش تھے کہ کم از کم بیس بھارتی امریکیوں کو صدر بائیڈن کی انتظامیہ میں اہم عہدے ملے۔

 بھارتی نسل کے27لاکھ 57ہزار امریکی بھی اس پر شاداں ہیں اور انہیں امید ہے کہ کملاہیرس کے ہوتے ہوئے بھارت امریکا تجارت میں، جس کا حجم اس وقت 70 ارب 90 کروڑ ڈالر ہے، بہت اضافہ ہوگا۔

بھارتی ان ہم خیال ہمدردوں کی حالیہ تقرریوں سے بھی بہت امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے بھارتی تارکین وطن کے یہ بیٹے بیٹیاں دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی سوچ بھارت کے حق میں کرنے کیلئے کردار ادا کریں گے۔ 

بھارتی خبر ایجنسی نے کہا تھا کہ یہ ایک چھوٹی سی نسلی برادری کیلئے ایک نیا ریکارڈ ہے جس کی تعداد ملک کی آبادی کا صرف ایک فیصد ہے۔ ان میں سے سترہ تو وائٹ ہاؤس کمپلیکس کا حصہ ہوں گے۔ یہ بھی پہلی بار ہوا کہ اتنی تعداد میں بھارتی امریکی صدارتی حلف برداری سے پہلے انتظامیہ کے لیے منتخب کر لئے گئے۔ 

بائیڈن کو تمام عہدوں کیلئے نامزدگی میں ابھی کافی وقت لگے گا۔غیر ملکی میڈیا نے امریکی انتظامیہ میں شامل کئے جانے والوں کے یہ نام بھی دئیے تھے۔

 نیرا ٹنڈن (ڈائریکٹر وائٹ ہاؤس آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ) ، ڈاکٹر ویوک مورتھی( یو ایس سرجن جنرل)، ونیتا گپتا (ایسوسی ایٹ اٹارنی جنرل) عذرا ضیا(انڈر سیکرٹری آف اسٹیٹ فار سویلین سیکورٹی، ڈیموکریسی اینڈ ہیومن رائٹس ) مالا اڈیجا (پالیسی ڈائریکٹر ٹو دی فرسٹ لیڈی ڈاکٹر جل بائیڈن) جیریما ورما( ڈیجیٹل ڈائرکٹر فرسٹ لیڈی آفس)، سبرینا سنگھ( ڈپٹی پریس سیکرٹری) ، عائشہ شاہ( پارٹنر شپ منیجر وائٹ ہاؤس آفس ڈیجیٹل سیکورٹی) ، سمیرہ فاضلی( ڈپٹی ڈائریکٹر نیشنل اکنامک کونسل وائٹ ہاؤس) ، گوتم راگھون( جو اوباما حکومت میں بھی وائٹ ہاؤس میں رہے، اب ڈپٹی ڈائریکٹر پریزیڈنشل پرسنیل) ، ونے ریڈی( ڈائریکٹر سپیچ رائٹنگ) ، ویدانت پٹیل( اسسٹنٹ پریس سیکرٹری پریزیڈنٹ) ، سونیا اگروال (سینئر ایڈوائزر فار کلائمیٹ پالیسی اینڈ انوویشن وائٹ ہاؤس) ، ونود شرما( پالیسی ایڈوائزر ٹیسٹنگ فار دی وائٹ ہاؤس کووڈ 19 رسپانس ٹیم) ، نیہا گپتا (ایسوسی ایٹ کونسل وائٹ ہاؤس) ، ریما شاہ (ڈپٹی ایسوسی ایٹ کونسل وائٹ ہاؤس) ۔ تین بھارتی امریکی وائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکورٹی کونسل میں بھی شامل کئے گئے ہیں۔

 ان میں ترون چھابرا سینئر ڈائریکٹر ٹیکنالوجی اینڈ نیشنل سیکورٹی، سمونا گوہا سینئر ڈائریکٹر جنوبی ایشیاء، شانتی کلاتھل کوآرڈنیٹر فار ڈیموکریسی اینڈ ہیومن رائٹس شامل ہیں۔ 

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بالا دو خواتین عائشہ شاہ اور سمیرا فاضلی کے خاندان بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ہیں۔ عائشہ شاہ پیدا بھی وہیں ہوئی تھیں۔ 

البتہ بائیڈن کی مہم میں شریک دو بھارتی امریکیوں سونل شاہ اور امیت جانی کے نام اس فہرست میں شامل نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ ان کے بی جے پی اور آر ایس ایس سے روابط ہوسکتے ہیں۔ 

سونل شاہ کے والد اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی امریکا کے صدر اور آر ایس ایس کی قائم کردہ اکال ودیالہ کے بانی ہیں۔

 امیت جانی کے خاندان کے بھی مودی اور بی جے پی لیڈروں سے تعلقات ہیں۔ سیکولر بھارتی امریکی تنظیموں کا مطالبہ تھا کہ ایسے عناصر کو دور ہی رکھا جائے۔ انتظامیہ میں شامل کئے جانے والے پاکستانی امریکیوں کی تعداد بھارتیوں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ 

پاکستان سے تعلق رکھنے والے 508200؍ امریکی توقع رکھتے تھے کہ وائٹ ہاؤس میں تبدیلی سے پاک امریکا تجارت میں اضافہ ہوگا جو اس وقت 5؍ ارب 98؍ کروڑ ہے لیکن انہیں مایوسی ہوئی ہے کہ اب تک صرف دو پاکستانی امریکیوں کو نئی انتظامیہ میں شامل کیا گیا ہے۔ 

17؍ جنوری کو صدر بائیڈن نے ایک تیسرے پاکستانی امریکن سلمان شاہ کو اپنی فارن پالیسی ٹیم میں شامل کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وہ دفتر خارجہ میں ڈائریکٹر پالیسی پلاننگ ہوں گے۔

سلمان اس سے پہلے اوباما انتظامیہ کی نیشنل سیکورٹی کونسل میں اقوام متحدہ کیلئے امریکی مشن کے چیف آف سٹاف رہ چکے ہیں۔اس سے پہلے 18 جنوری 2020 کو ایک اور پاکستانی امریکی علی زیدی کو ڈپٹی نیشنل کلائمیٹ ایڈوائزر چنا گیا تھا۔ 

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ایک سری لنکن امریکی روہینی کوسوگلو کو نائب صدر کا ڈومیسٹک پالیسی ایڈوائزر اور ایک بنگلہ دیشی امریکن زین صدیقی کو وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی چیف آف سٹاف کا سینئر ایڈوائزر چنا گیا ہے۔ 

ادھر امریکی صدر جوبائیڈن، نائب صدر کمالا ہیرس، سیکرٹری اسٹیٹ انتونی بلنکن اور سیکرٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ لائڈ آسٹن نے اب تک پاکستان، بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق مثبت بیانات دیئے ہیں۔

 ان میں سے کچھ بیانات جوبائیڈن کے صدر منتخب ہونے سے پہلے دیئے گئے اور کچھ صدر منتخب ہونے کے بعد دیئے گئے، جس پر سیاسی مبصرین کو امید کی کرن نظر آرہی ہے۔ 

2020 کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل امریکی بزنس کے مقامی ایڈیشن کوارٹز انڈیا نے لکھا کہ جوبائیڈن کی صدارتی مہم مسئلہ کشمیر سے متعلق واضح ہے۔

 انہوں نے اپنی مہم میں دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم فہرست کو مرتب کیا اور اس میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر ، بنگلادیش میں روہنگیا اور چین میں ایغور کے ساتھ ہونے والے مظالم کو مہم کے ایجنڈے میں شامل رکھا۔ جب کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کو کشمیری عوام کے حقوق بحال کرنے کے لیے تمام اقدامات پر زور دیا۔

 2 اگست، 2020 کو جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی کے مشیر انتونی بلنکن نے کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کو موقع ملا تو وہ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو اٹھائے گا اور مسلمانوں کے خلاف حالیہ بھارتی قوانین پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جائے گا۔ 

انہوں نے یہ بات واشنگٹن ڈی سی کے ہڈسن انسٹیٹیوٹ میں کہی تھی۔ جبکہ جولائی 2020ء میں انہوں نے ہڈسن انسٹیٹیوٹ کو بتایا تھا کہ انہیں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی اور اظہار رائے کی آزادی اور شہری قوانین کے حوالے سے سخت تحفظات ہیں۔

 اسی طرح جوبائڈن نے بھارت کے شہریت ترمیمی ایکٹ اور شہریوں کے نیشنل رجسٹر کو مسترد کیا تھا۔ جب کہ کمالا ہیرس نے آرٹیکل 370 منسوخ کرنے پر کہا تھا کہ ہم کشمیری عوام کو یاد کروانا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں تنہا نہیں ہیں۔ ہم صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ 

اگر صورت حال یہی رہی تو مداخلت کرنا پڑسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بھارتی جوبائڈن کی جگہ ٹرمپ کو دوبارہ امریکی صدر دیکھنے کے خواہاں تھے۔ جوبائڈن نے پنٹاگون کی سربراہی جنرل ریٹائرڈ لائڈ آسٹن کو دی ہے۔

 جن کا ماننا ہے کہ امریکا کے پاکستان کی فوج سے بہتر تعلقات سے دونوں ممالک کے اہم مسائل میں تعاون کی راہ ہموار ہوگی۔ انہوں نے اس بات کو سراہا کہ اسلام آباد کا افغانستان میں کسی بھی سیاسی تصفیے میں اہم کردار ہوگا۔ 

انہوں نے گزشتہ منگل کو بھی افغان امن عمل میں پاکستان کو لازمی شراکت دار کی حیثیت دی۔ دریں اثنا جوبائڈن نے کشمیری نژاد دو خواتین سمیرا فاضلی اور عائشہ شاہ کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا ہے۔ جس پر بھارت کے کچھ معروف میڈیا آئوٹ لیٹس نے بھی اقرار کیا ہے کہ ان تقرریوں سے یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 70 سال سے نئی دہلی جس انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے، اس کا حل نکالا جائے۔ 

اگست، 2020 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے متعدد سینیٹرز نے اس حوالے سے بھارت پر سخت تنقید کی تھی۔ 22 اکتوبر، 2019 میں امریکی کانگریس پینل نے مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کا جائزہ لیا اور ان میں سے اکثر نے نئی دہلی کے مقبوضہ کشمیر پر کیے گئے اقدامات پر کڑی تنقید کی۔ 

15 جنوری، 2021 میں بھارت کے ایک میڈیا ہائوس فرنٹ لائن کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو انسانی المیہ قرار دینا، وہاں کی سیاسی قیادت کو جیل میں ڈالنے کو بھارتی حکومت کا ایجنڈہ قرار دیا۔ بھارت پر تنقید کرنے والوں میں الہان عمر کا نام بہت اہم ہے، جنہوں نےبی جے پی کے ہندو قوم پرست منصوبے پر کڑی تنقید کی۔ 

میگزین رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ الہان عمر کو اس بات پر حیرت تھی کہ امریکا اور بھارت کے درمیان مشترکہ اقدار پر کس طرح شراکت داری ہوسکتی ہے۔

 انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم اب بھی مسلمانوں کو ان کیمپوں میں رکھے جانے کے منتظر ہیں۔

 نئی دہلی اور سری نگر کے ایوانوں میں یہ بات زور وشور سے کی جانے لگی کہ ڈیموکریٹک حکومت کے تحت عالمی انسانی حقوق کے گروپس مقبوضہ کشمیر میں متحرک ہوسکتے ہیں۔ جب کہ کشمیری نژاد دو خواتین ماہرین کو جوبائڈن کی ٹیم میں شامل کیا جانا اس کی جانب اشارہ ہے۔

kk

تازہ ترین