• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبہ سندھ میں ایک ایسا گاؤں موجود ہے ، جس کےباسیوں کا رہن سہن قدیم دور کے باشندوں جیسا ہے۔ یہ گاؤں جوسطح آب پر تیرتی ہوئی کشتیوںپر آباد ہے، سیہون شریف سے 18 اور کراچی سے 280 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے۔قدیم آثار کے ماہرین کے مطابق منچھرجھیل موئن جو دڑوسے بھی زیادہ قدیم ہے اور اس کے کھنڈرات سے ملنے والی کشتی کی شبیہہ بالکل ایسی ہے جیسی کشتیاںآج منچھر جھیل میں تیر رہی ہیں۔ جب موئن جو دڑو کی تہذیب زوال پذیر تھی اور اسے قدرتی آفات کا سامنا تھا، تو اس کے باشندوں نے منچھر جھیل کی طرف ہجرت کی ۔ 

اسے ایشیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل کہا جاتا ہے اوریہ پاکستان کے بڑے آبی ذخائر میں سے ایک ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ 1930ء میں سکھر بیراج کی تعمیر کے وقت یہ جھیل بھی بنائی گئی تھی۔چند عشرے قبل تک اس کے نیلگوں پانی کی سطح پر کشتیوں پر بنے ہزاروں گھر تیرتے تھےجن میں سے اب بہت کم رہ گئے ہیں۔ا س میں پانی کا منبع بلوچستان کی کیرتھر پہاڑیوں سے بہہ کر آنے والا پانی ہے لیکن بارش کا پانی بھی سطح آب میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس کا رقبہ موسم کے اعتبار سے گھٹتا بڑھتا رہتاہے، جو عموماً 350سے 520رقبے پر مشتمل رہتا ہے

منچھر جھیل، جھانگارہ سے شاہ حسن بوبک تک پھیلی ہوئی ہےاور اس کا شمار سندھ کے دلکش تفریحی مقامات میں ہوتا ہے ۔ ملک اور بیرونی ممالک سے سیاح دشوار گزار سفر طے کرکے اس کا دل فریب حسن دیکھنے لیے پہنچتے ہیں۔ویسے تو قدرتی مناظر اور جنگلی حیات کی وجہ سے یہ جھیل دنیا بھر میں معروف ہے لیکن اس کا اصل حسن سطح آب پرتیرتا ہوا لکڑیوں کی کشتیوں پر آبادگاؤںہے، جسے دیکھنے کے لیے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے۔وہ منچھر جھیل کے کنارےبنے گھاٹ سےکشتی کرائے پر لے کر اس بستی میں جاتے ہیں،اور اس کے باسیوں کی طرز زندگی اوربودوباش کا قریب سےمشاہدہ کرتے ہیں۔ یہاں ’’موہانا‘‘ قبیلے کے افراد رہتے ہیں، جنہیں’’ میر بحر ‘‘بھی کہا جاتا ہےاور انہیں ’’دریاکے بادشاہ‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

یہ لوگ کئی نسلوں سے کشتیوں پربنی جھونپڑیوں میں خالص قدرتی ماحو ل میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان کی کشتیوں پر نہ تو برقی روشنی کا نظام ہے ، نہ پینے کے صاف پانی کی سہولت موجود ہے اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی کی آسانی ہے، لیکن وہ ہ پھر بھی اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔ ان جھونپڑیوں کےاندرکمروں کی صورت میں بانس اور چٹائیوں کی مدد سے کمپارٹمنٹ بنے ہوتے ہیں، جن میں چارپائیاں بچھی ہوتی ہیں۔ ایک حصے میںجھولہے ڈالے ہوتے ہیں، جن میں کشتیوں کے باسی اپنے بچوں کو سلاتے ہیں یا خود ان پر جھولتے ہوئے محظوظ ہوتے ہیں۔ پانی کی ٹنکیاں،برتن،باہر رسی پر لٹکےرنگ برنگے کپڑے،اس تیرتی ہوئی بستی کے رہائشیوں کا کل اثاثہ ہے۔دن کے اوقات میں ان رلیوں کو کشتی کے چھپرو ں پر ڈال دیا جاتا ہے جس سے اس تیرتے گاؤں کا منظر اور بھی زیادہ دل فریب نظر آتا ہے۔ ہر تیرتےہوئے گھر میں آٹھ سے دس افراد رہتے ہیں۔ 

یہاں کے رہائشیوں کا پیشہ ماہی گیری ہے اوربڑی کشتی کے ساتھ گاؤں کے ہر خاندان کے پاس ایک چھوٹی کشتی بھی ہوتی ہے جس پر بیٹھ کر یہ لوگ جھیل میں مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ راتمیں یہاں ہر سو گھپ اندھیرا ہوتا ہے، یہ لوگ موم بتی یا لالٹین جلا کرگھر میں اجالا کرتے ہیں، رہائش کے ایک حصےمیںانہوں نے مٹی کے چولہے بنائے ہوئے ہیں ۔ زیادہ تر افراد، کنول کے بیج، کلیوں اور اس کی جڑوں کو بطور سبزی پکا کر کھاتے ہیں، جو ان کی پسندیدہ خوراک ہے۔ ان کی خواتین کشتیوں پر ہی کپڑے دھوتی ہیں اور بانسوں پر بندھی رسیوں پر سکھاتی ہیں۔اکثر گھروں کی لمبائی 45 فٹ اور چوڑائی 32 فٹ ہوتی ہے۔ 

کشتی کی تیاری میں دیارکی لکڑی استعمال ہوتی ہے۔ا ن لوگوں کا کھانا پینا، سونا، حتیٰ کہ شادی بیاہ کی تقریبات بھی انہی کشتیوں پرمنعقد ہوتی تھیں۔ دو کشتیاں ملا کر ان پر چھپر ڈال دیاجاتا ہے، جو جھونپڑے کی مانند معلوم ہوتا ، یہ سطح آب پر رہنے والے باسیوں کو دھوپ، سردیوں کی یخ بستہ ہواؤں اور بارش سے محفوظ رکھتا ہے۔ برسات کے دنوں میں جب جھیل میں سیلابی کیفیت ہوتی ہے توان کشتیوں کو کنارے پر لگادیا جاتا ہے۔میر بحر قبیلے کے رواج کے مطابق نئے جوڑے کو شادی کے لیے اپنا علیحدہ کشتی گھر بنانا ہوتا ہے جو لڑکے کی ذمے داری ہوتی ہےاور وہ اس کے لیے رقم پس انداز کرتا ہے۔

دو عشرے قبل تک اس گاؤں کے باسی بہت خوش حال تھے۔ جھیل میں 400 اقسام کی مچھلیاں اور دیگر آبی حیات موجود تھیں، جن کی فروخت سے انہیں خاصی آمدنی ہوتی تھی۔ اس زمانے میں مرغابیاں سفید سرخاب ، سلیٹی راج ہنس، چپکو بطخ، نیل سر، پھاراؤ بطخ، ہنجر بطخ، آری جل مرغی، جھیل کی سطح پر رہتی تھیں ۔ مقامی پرندے جن میں کلغی والے ہنس شامل ہیں، طویل پرواز کے بعدتھک کران کشتیوں پر آکر بیٹھ جاتے جنہیں کشتی پر رہنے والے لوگ ہاتھ سے پکڑلیتے ۔ بعد ازاں انہیںبازار میں فروخت کردیتے جن سے انہیں زائد آمدنی حاصل ہوتی تھی۔

اب یہاں کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور پاکستان کا یہ تیرتا ہوا گاؤں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ 1974 میں حکومت نے رائٹ بینک آؤٹ فال یا مین نارا ویلی ڈرین کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں اس منصوبےکے تحت دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع زرعی زمینوں کو سیم و تھور سے بچانے کے لیے ان کا شور زدہ پانی ٹیوب ویلوں سے کھیچ کر نالے کے ذریعے سیہون کے قریب دریائے سندھ میں بہا دیا جانا تھا لیکن 1990 کے عشرے سے یہ منچھر جھیل میں پھینکا جانے لگا۔رہی سہی کسر اس کے قریب صنعتی علاقے کے قیام نے پوری کردی ۔ 

فیکٹریوں کا سارا فضلا اور کیمیائی مادہ بہہ کر جھیل میں آتا ہے جس کی وجہ سے اس کا پانی زہریلا ہوگیا ہے اور مچھلیوں کی صرف 40 اقسام باقی رہ گئی ہیں جبکہ پرندوں کی آمد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے ۔دوسری طرف بستی کے لوگ جو مچھلی پکڑتے ہیں، انھیں ایجنٹ کم قیمت میں خریدتا ہے اور خود بازار میں چار گنا زیادہ نرخ پر فروخت کردیتا ہے۔

معاشی مسائل درپیش ہونے کے باعث یہاں کےزیادہ تر باسی نقل مکانی کرچکے ہیں ۔اس گاؤں میں موہانہ قبیلے کے افراد کی انتہائی قلیل تعداد بچی ہے ، جو روزگار نہ ہونے کے باعث یہاں سے کوچ کرسکتے ہیں، جس کے بعد پاکستان کے اس واحد ’’تیرتے ہوئے گاؤں‘‘ کا نام و نشان مٹ جائے گا۔پہلے یہ تیرتا ہوا گاؤں کشتیوں پر بنے ہزاروں جھونپڑوں پر مشتمل تھا لیکن اب اس میں صرف پچاس گھر باقی بچے ہیں ۔ اگر حکومت نے اس صورت حال کا تدارک نہیں کیا تو خدشہ کہ اس گاؤں کا نام و نشان صرف تاریخ کے صفحات پر رہ جائے گا۔

تازہ ترین