• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں ملک میں ہر طرف براڈ شیٹ اسکینڈل کا چرچا ہےاور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس سے بڑا کوئی مسئلہ اب رہا ہی نہیں ہے۔کوئی کہہ رہا ہے کہ بس اب ہاتھی کی دُم ہاتھ لگ گئی ہے،جلد ہی پورا ہاتھی بھی پکڑ میں آجائے گا۔کسی کا کہنا ہے کہ یہ اسکینڈل پناما ٹُو ثابت ہوگا۔کوئی کسی پر الزام لگا رہا ہے تو کوئی کسی اور پر۔لیکن ریاستِ پاکستان کے بارے میںکوئی نہیں سوچ رہا کہ پوری دنیا میں اس کی کِس کِس طرح جگ ہنسائی ہورہی ہے۔کبھی ریکوڈک کیس میں عالمی عدالتِ ثالثی میں شکست،کبھی عالمی عدالت کے حکم پر امریکا اور فرانس میں ریاست کی ملکیت والے اثاثوں کا پاکستان کی تحویل سے نکل جانا،کبھی مشکوک پائلٹس کے شوشے کی وجہ سے دنیا بھر میں تمام پاکستانی پائلٹس کامشکوک ہوجاناتوکبھی ملکی ایئر لائن کے طیارے کوروک لیا جانا،وغیرہ وغیرہ۔

اب مرے کو مارے سو دُرّے کے مصداق براڈ شیٹ اسکینڈل سامنے آگیا ہے۔اس سے کس کو کیا حاصل ہوگا،یہ تو وقت ہی بتائے گا،لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس سے ریاستِ پاکستان کو کیا حاصل ہوا؟کیا بدعنوانی اور بد عنوانوں کا خاتمہ ہوگیا یا محض ملک بدنام ہوا؟ آئیے اس کہانی کا مختصراجائزہ لیتے ہیں:

وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ براڈ شیٹ کے معاملے میں جو بھی ادائیگی کی گئی وہ ماضی کی حکومتوں نے کی۔ان کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے ایون فیلڈ کی مدمیں براڈ شیٹ کوڈیڑھ ملین ڈالرز دیے گئے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر براڈشیٹ سے متعلق دونوں فیصلوں کی دستاویز ات عوام کے سامنے لائی گئیں۔ شہزاد اکبر کا موقف ہے کہ جون 2000 ء میں قومی احتساب بیورواور براڈ شیٹ کے مابین اثاثوں کی کھوج لگانے اور برآمدگی کے ضمن میں پہلا معاہدہ ہوا ۔ پھربعد جولائی 2000میں ایک اور ادارے انٹرنیشنل اسیٹ ریکوری کے ساتھ ایک اور معاہدہ ہوا۔ دسمبر 2000میں جب نواز شریف سعودی عرب چلے گئے تو ایک اور معاہدہ ہوا جو چلتا رہا اور اس میں اس کمپنی کو مختلف اہداف دیے گئےتھے۔ 28اکتوبر 2003 کونیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ یہ معاہدہ منسوخ کردیا، جس کے بعد دونوں اداروں نے 2007میں حکومت پاکستان کو نوٹس دے دیا تھا کہ ہماری رقم واجب الادا ہے۔ 

یوں تو میرا علاج کیا نہ ہوا
جاوید اقبال

ان نوٹسز کے تناظر میں آئی اے آر کے ساتھ جنوری 2008میں تصفیہ کیا گیا ۔اسے 22لاکھ 50ہزار ڈالرز ادا کیے جانےتھے ۔یہ اب بھی نافذ عمل ہے۔ 20مئی 2008کو براڈ شیٹ کے ساتھ بھی تصفیے کے معاہدے پردست خط ہوئے جس کے تحت اسے پندرہ لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اکتوبر 2009کو براڈ شیٹ نے واجب الادا رقم کی ادائیگی کے لیے ایک مرتبہ پھر حکومت پاکستان کو نوٹس بھیجاتو اس دور میں دوبارہ ثالثی کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ ثالثی کی کوشش جاری رہی ۔ 2016میںیہ معاملہ اختتام کوپہنچا جس کے تحت اگست 2016میں پاکستان کے خلاف واجب الادا رقم کا دعویٰ منظور ہوگیا۔پھر دو برس تک رقم کے تعین کا سلسلہ چلا ۔

اس کا فیصلہ جولائی 2018میں ہوا ۔اگست 2018 میں ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور جولائی 2019میں اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی جس کا فیصلہ پاکستان کے خلاف آیا۔ شہزاد اکبر کے بہ قول فیصلے میں 2007کے این آر او کے بارے میں بھی لکھاگیاہے اور اس فیصلے کے مطابق بعض سیاست دانو ں کی چوری کا تخمینہ سولہ ارب روپے لگایاگیاہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب کے مطابق نوازشریف 2000 تک ایون فیلڈ کو اپنی ملکیت مانتے ہی نہیں تھے۔

اکیس اعشاریہ پانچ ملین ڈالرزمیںسے بیس ملین ڈالرز کی ادائیگی نوازشریف کے دیگر اثاثوں پر ہوئی۔ جون 2020میں براڈ شیٹ نے ثالثی کا عبوری حکم حاصل کیا کہ پاکستان کو رقم کی ادائیگی کرنی ہے، لہذااس کے جہاں بھی اثاثے ہوں ان کے بارے میں ضمنی حکم جاری کیا جائے۔یہ حکم ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور بینک اکائونٹس کے ضمن میں لیا گیا۔31دسمبر 2020کو براڈ شیٹ کو واجب الادا رقم کی ادائیگی کی گئی جس کے بعد اس نے عبوری حکم پر عمل درآمد رکوادیا۔

براڈ شیٹ، جعلی کمپنی اور دھوکے بازافراد

اب تک سامنے آنے والی تفصیلات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ براڈ شیٹ ایک جعلی کمپنی تھی اور نیب کے ساتھ اس کے معاہدے میں حصہ لینے والے کردار دھوکے باز تھے۔ اب ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ جنرل مشرف کے دور میں براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت پیپرا رولزپر عمل درآمد نہیں کیا گیا تھااور اس وقت کے اٹارنی جنرل اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو اعتماد میں نہیںلیا گیا تھا جس کا خمیازہ آج پاکستانی قوم سے ٹیکسوں کی مد میں وصول کیے جانے والے لاکھوں پائونڈز لٹانے کی شکل میں بھگتنا پڑاہے۔

اب وزیراعظم عمران خان نے براڈ شیٹ کے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی ہے۔لیکن اسی نوعیت کا ایک تحقیقاتی کمیشن لگ بھگ سوا برس پہلے ریکوڈک معاملے کی انکوائری کے لیے بھی بنایا گیا تھا، مگر تاحال اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ہے۔

یوں تو میرا علاج کیا نہ ہوا
محمد امجد

بتایا جاتا ہے کہ پرویز مشرف کے دورپاکستان کے بدہنوان سیاست دانوں کی بیرون ملک جائیدادوں اور اکائونٹس کا پتہ لگانے کے لیے جب نیب کے پہلے چیئرمین جنرل محمد امجد نے برطانوی کمیشن ٹتھیان سے معاہدہ کیا تونہ صرف پیپرا رولز کو نظر انداز کیا گیابلکہ اس وقت کے اٹارنی جنرل اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھاکیوں کہ پرویز مشرف اس معاہدے کو خفیہ رکھنا چاہتے تھے۔ 

لہٰذا ماورائے آئین و قانون خاموشی کے ساتھ ایک غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ کرلیا گیا۔لیکن پھر جب انہیں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے ان ہی’’ بدعنوان سیاست دانوں‘‘ کی ضرورت پڑی توان میں سے بعض کو شریک اقتدار کرنے کےلیےبراڈ شیٹ سے یک لخت معاہدہ ختم کردیا گیا جس پر برطانوی کمپنی عدالت چلی گئی تھی۔مختلف ممالک کے قوانین پر نظر رکھنے والے ماہرینِ قانون کے مطابق اگر براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ ختم کرتے وقت ہائی کمیشن کو قانونی رائے دینے والے وکلا کےپینل سے ہی مشاورت کرلی جاتی تو شاید کوئی راستہ نکل آتا یا کم از کم اتنا مالی نقصان نہ ہوتا، جس کا سامنا آج پاکستان کو کرنا پڑا ہے۔ 

لیکن پاکستانی ہائی کمیشن کے لوگوں کو بھی اس معاملے کا اس وقت علم ہوا ، جب یہ معاہدہ ختم ہوچکا تھا اور براڈ شیٹ نے عدالت جانے کا اعلان کیا۔پھر بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی اس معاملے کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیااور کیس کو لٹکایا جاتا رہا۔ اس کے نتیجے میں براڈ شیٹ کے سود کا پیسہ بڑھتا گیا۔ موجودہ حکومت کا وطیرہ بھی یہی رہا۔ نتیجتاً پاکستان قوم کی خون پسینے کی کمائی ضایع کردی گئی۔ اگر اسی روش کو برقرار رکھا گیا تو پھر ریکوڈک کیس میں بھی قوم کے اربوں روپے ضایع ہوسکتے ہیں۔ یہ کیس اہم مرحلے میں پہنچ چکا ہے۔ لیکن اس کے لیے جس سطح کی قانونی اور دیگر کوششیں کی جانی چاہئیں، اس کا فقدان دکھائے دے رہا ہے۔ ریکوڈک کیس ہارنے کی صورت میں پاکستان کو براڈ شیٹ کیس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔

واضح رہے کہ براڈ شیٹ کیس میں بھاری جرمانے کی ادائیگی سے تقریباً تین ہفتے پہلے پاکستان کو بین الاقوامی محاذ پر ایک بڑا دھچکا لگا تھا، جب برٹش ورجن آئی لینڈز ہائی کورٹ نے ریکوڈک کیس میں کسی بین الاقوامی ثالث کو بینک گارنٹی فراہم کرنے میں ناکامی کے سبب بیرون ملک بعض پاکستانی اثاثے منسلک کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس حکم کے تحت پاکستان، برطانیہ کے اس جزیرے میں رجسٹرڈ اپنی آف شور کمپنیوں کے زیر انتظام اثاثے فروخت نہیں کرسکتا۔ٹتھیان کاپر کمپنی نے اپنے جرمانے کی وصولی کے لیے ان اثاثوں کو ضبط کرنے کی استدعا کی تھی۔ تاہم بعد میں ورجن آئی لینڈ ہائی کورٹ نے جرمانے کی ادائیگی پر عمل درآمد مشروط طور پر روک دیا تھا۔ اور اپنے حکم میں کہا تھا کہ جرمانے کی پچیس فی صد مالیت کی گارنٹی اور فیصلے کی تاریخ تک کی سود کی رقم جمع کرائی جائے۔ تاہم ڈیڈ لائن تک حکومت پاکستان یہ بینک گارنٹی جمع کرانے میں ناکام رہی تھی۔ 

ٹتھیان نے ابتدا میں تقریباً ساڑھے گیارہ ارب ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن پاکستان اس رقم کو لگ بھگ چار ارب روپے تک محدود کرنے میں کام یاب رہا۔بتایاجاتا ہے کہ پاکستان اس وقت ٹتھیان کمپنی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ تاہم عدالت کے باہر کوئی تصفیہ ہو گیا تو بھی پاکستان کو دو، تین ارب ڈالرز تک ادائیگی کرنا پڑے گی۔یادرہے کہ موجودہ حکومت اس معاملے میں قانونی اخراجات کی مد میں پہلے ہی ایک کروڑ ڈالرز خرچ کرچکی ہے۔ اس کیس میں ایک پاکستانی فرم کے علاوہ ارجنٹائن اور امریکہ کے وکلا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

بتایا جاتا ہے کہ ابتدا میں ہی عدالت سے باہر براڈ شیٹ سے کم رقم میں معاملات طے کرنے کے امکانات روشن تھے۔ اس سے کہا جاسکتا تھا کہ مشرف سے غلطی ہوئی تھی،اس کی سزا پاکستانی قوم کو نہ دیں۔ لیکن بالخصوص موجودہ حکومت نے ایون فیلڈ پراپرٹی کو براڈ شیٹ کےمعاہدے سے جوڑنے کی کوشش کی۔تاہم یہ کوشش ناکام رہی اور بیرون ملک جگ ہنسائی بھی ہوئی۔

قومی احتساب بیورو کو نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر فوجی حکومت قائم کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے قائم کیا تھا، لہذا فطری طور سے نیب کے براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدے میں بنیادی دل چسپی یہی تھی کہ یہ کمپنی اور اس کے’ ’ماہرین‘‘ نواز شریف کی چوری ثابت کریں اوریوں اربوں ڈالرز کے اثاثے پاکستان واپس لائے جا سکیں۔ یہ معاہدہ کرتے ہوئے البتہ نیب نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ غیر قانونی اثاثوں کا سراغ لگانے کے لیے اس کمپنی اور اس سے وابستہ افراد کے پاس کیا مہارت ہے۔

نیب ملکی قانون کے تحت کام کرنے والا ادارہ تھا جسے ملک کے اعلیٰ ترین قانونی ماہرین کا تعاون حاصل تھا۔لیکن عجیب بات ہے کہ یہ معاہدہ کرتے وقت یہ نہیں دیکھا گیا کہ براڈ شیٹ اور اس کے نمائندوں کو مغربی ممالک میں نجی املاک،بینک اکاؤنٹس اور دیگر نجی معلومات اکٹھاکرنے کا کتنا قانونی اختیار حاصل ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ سوال اس وقت اٹھایا گیا اور نہ ہی اب اس کا جواب تلاش کرنا ضروری خیال کیا جا رہا ہے۔

براڈ شیٹ کے نام سے یہ کمپنی مئی 2000 میں ایک آف شور کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ ہوئی تھی اور ایک ماہ بعد ہی اسے نیب جیسا ادارہ ’’گاہک‘‘ کے طور پر مل گیاتھا۔ ہے نا حیرت کی بات۔گزشتہ دنوں برطانوی ہائی کورٹ کے حکم پر زبردستی پاکستان کے ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ سے 28اعشاریہ 7ملین ڈالرز وصول کرنے کے بعد اب براڈ شیٹ کے کرتا دھرتانیب کو سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھنے میں حق بہ جانب ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کمپنی کا مالک مختلف چینلز پر انٹرویوز کے ذریعے کسی بھی طرح حکومت پاکستان اور نیب کو ایک بار پھر تعاون پر آمادہ کرنے کی خواہش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ 

یاد رہے کہ نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ جو معاہدہ کیا ، اس میں وقت کا تعین تھا اور نہ ہی اس معاہدے کو ختم کرنے کی کوئی گنجایش رکھی گئی تھی۔ معاہدے کی دستاویز کو پڑھ کر یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک پرائیویٹ کمپنی اور کسی خود مختار ملک کے طاقت ور ادارے کے درمیان معاملات کی دستاویز ہے۔ بلکہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے دو خود مختار ملکوں نے باہمی مفادات کے تحفظ کےلیے معاہدہ کیا ہے جسے دوسرے کی مرضی و منشا کے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ معاہدے میں درج ہے: ’’اس معاہدے کے تحت فریقین ایک دوسرے کے ساتھ غیر معینہ مدت تک تعاون جاری رکھنے کے پابند رہیں گے اور یک طرفہ طور سے معاہدہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ معاہدے کو صرف باہمی رضامندی سے ہی ختم یا منتقل کیا جاسکے گا‘‘ ۔

کیا اس وقت کے نیب کے چیئر مین سے اس مجرمانہ غفلت کے بارے میں کوئی سوال کیا جائے گا؟

کاوے موسوی کے مطابق اس نے لاکھوں ڈالرز کی رقم تین برس میں ان اکاؤنٹس اور اثاثہ جات کا سراغ لگانے پر خرچ کی تھی، تاہم نیب نے اس سے معاہدہ ختم کرنے کے بعد اسے کسی قسم کی ادائیگی نہیں کی۔چناں چہ 2004 میں اس نے معاوضے کی رقم حاصل کرنے کے لیے مصالحتی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد نیب کے ایک نمائندے نے اسے پانچ لاکھ پاؤنڈزلے کرچلے جانے کی پیشکش کی جسے لینے سے اس نے انکار کر دیا۔کاوے کے بہ قول :’’میں نے ان سے کہا کہ جنرل صاحب اس میں دو صفر اور بھی لگا لیں کیوں کہ جتنی رقم کا ہم نے آپ کو سراغ لگا کر دیا تھا اس کا بیس فی صد اتنا ہی بنتا ہے۔ وہ اس پر راضی نہیں ہوئے اور عدالتی کارروائی چلتی رہی‘‘۔

یہاں بھی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کاوے موسوی نے پچاس لاکھ پاؤنڈزمالیت کی لوٹی ہوئی ملکی دولت کا سراغ لگالیاتھا تو اسے وطن لانے کے بجائے معاہدہ کیوں منسوخ کیا گیا ،کس کے حکم پر ایسا ہوا، ملک کو اس خطیر رقم سے کیوں محروم رکھا گیااور یہ دولت لوٹنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کیوں نہیں لایا گیا؟

برطانوی نشریاتی ادارے نےجب کاوے موسوی سے دریافت کیا کہ شریف خاندان کے خلاف مبینہ شواہد کی معلومات جب صرف ان کے اور نیب کے درمیان تھیں تو شریف خاندان کو کیسے پتا چلا کہ وہ شواہد کیا تھے اور کس نوعیت کے تھے جس کے لیے وہ اتنی بڑی رقم دینے کو تیار ہو جاتے۔اس کے جواب میں اس کا کہنا تھا کہ 'یہ معلومات نیب ہی میں سے کسی نے شریف خاندان کو خفیہ طور پر فراہم کی ہوں گی، کیوںکہ جب شریف خاندان کے شخص نے اس سے رابطہ کیا توکاوے نے سوچا کہ کیا یہ محض اتفاق ہو سکتا ہے؟کاوے کے بہ قول یہ اتفاق نہیں ہو سکتا تھا۔ نیب اور پاکستانی حکومت کی 'بدنیتی شروع دن سے ہی واضح تھی۔جب وہ نواز شریف کی بیرونِ ملک رکھی گئی دولت کا کھوج لگا رہاتھا تو اسی دوران جنرل مشرف نے انہیں طیارے پر بٹھا کر سعودی عرب بھیج دیاتھا۔

کیا نیب کے اس وقت کے چیئرمین ،پرویز مشرف اور دیگر متعلقہ حکّام سے اس بارے میں بھی سوال ہوگا یا محض ملک اور سیاست داں ہی بدنام ہونے کے لیے رہ گئے ہیں؟

یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اصل مسئلے،یعنی منی لانڈرنگ کی روک تھام میں کیا ہم کام یاب ہوچکے ہیں؟یا بس طرح طرح کے تجربات اور طریقِ علاج آزمائے جارہے ہیں؟ اس صورت حال میں مرزا غالب بے طرح یاد آرہے ہیں:

یوں تو میرا علاج کیا نہ ہوا

کم مرض، مگر ذرا نہ ہوا

درد منت کشِ دوا نہ ہوا

میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

 نیب پر الزامات کی بھی تحقیق ہوگی؟

کاوے کے بہ قول ابتدائی بات چیت کے بعد نیب اور پاکستانی حکومت کے ساتھ ان کا معائدہ طے پایا۔ انہیں ان تین شخصیات سمیت دوسواہداف کی فہرست فراہم کی گئی تھی۔اس کا کہنا ہے کہ حقیقت میں اس نے نیب کو لاکھوں ڈالرز مالیت کے بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگا کر ثبوت فراہم کیے اور اس سے کہا کہ وہ اس رقم کو واپس لانے کے لیے متعلقہ حکومتوں کو قانونی چارہ جوئی کے لیے درخواست دے اور درخواست تحریر کر کے فراہم بھی کی ۔ 

لیکن نیب نے نہ صرف اس پر عمل نہیں کیا بلکہ 'اگلے ہی روز نیب کی طرف سے ان سے کہا جاتا تھا کہ آپ اس ہدف کا نام فہرست سے نکال دیں۔وہ الزام لگاتا ہے کہ 'نیب نے اہداف کے بارے خفیہ معلومات لیک کیں۔وہ اس ضمن میں مثال دیتے ہوئے سابق وزیرِ داخلہ آفتاب خان شیرپاؤ کا نام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ شیر پاؤ کے ایک لاکھوں ڈالرز مالیت کے اکاؤنٹ کا سراغ نیو جرسی میں لگایا ۔ نیب کو آگاہ کیا گیا اور اس سے کہا گیا کہ آپ نیو جرسی میں حکام کو لکھیں تاکہ یہ رقم پاکستان لائی جا سکے۔لیکن نیب نے اسے اعتماد میںلیے بغیرحکام کو لکھا کہ ہمیں اس اکاؤنٹ سےکوئی مسئلہ نہیں ہے لہذا اسے کھول دیا جائے۔ اس کے بعد اس میں سے رقم نکلوا لی گئی اور ساتھ ہی شیر پاؤ کو وزیرِ داخلہ بنا دیا گیا۔

یہاں سوال یہ ہے کہ آفتاب شیر پاؤ اگر اتنے بد عنوان تھے تویک دم اتنے پاک کیسے ہوگئے کہ انہیں کوئی اور نہیں بلکہ وزارتِ داخلہ کا قلم دان دےدیا گیا؟کیا پرویز مشرف سے اس بارے میں کوئی سوال کرے گا؟

کاوے موسوی یہ بھی الزام لگاتا ہے کہ 'نیب نے اہداف کے پیچھے جانے کے بارے میں فراہم کی جانے والی خفیہ معلومات بھی لیک کیں۔وہ بتاتا ہے کہ 'ہم ایک ہدف کے پیچھے جاتےتو پتا چلتا تھا کہ وہ پہلے ہی اکاؤنٹ سے پیسے نکلوا کر اکاؤنٹ بند کر کے نکل گیا ہے، کیوں کہ نیب کے اندر سے کوئی انہیں پہلے ہی خبردار کر دیتا تھا کہ ہم اس کے پیچھے آ رہے ہیں۔

پھرجب اس حوالے سے نیب سے سوال کیا جاتا تواس کے لوگ انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اس کی تردید نہیں کرتے تھے بلکہ کاوے سے کہا جاتا تھا کہ آپ اس شخص کا نام اہداف کی فہرست سےنکال دیں۔

کاوے کےدعوے کی پرکھ کون کرے گا؟

 براڈ شیٹ کمپنی کے سربراہ کاوے موسوی نے نیب پردھوکہ دہی کا الزام عایدکیا ہے۔اس نے دعوٰی کیا ہے کہ اس نےسابق وزیرِاعظم نواز شریف کے خاندان سمیت کئی پاکستانی سیاست دانوں کے بیرونی ممالک میں بنائے گئے لاکھوں ڈالرز مالیت کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثہ جات کا سراغ لگا لیا تھا۔چناں چہ نواز شریف کےخاندان نے اپنے اثاثہ جات کے حوالے سے ان کی تحقیقات کو سامنے نہ لانے کے عوض انہیں پچّیس ملین ڈالرز رشوت کی پیش کش کی تھی۔تاہم مذکورہ خاندان کی طرف سے ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔

کاوے موسوی کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی شخصیات کے بیرونِ ملک اثاثہ جات کا سراغ لگانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کے ضمن میںموجودہ پاکستانی حکومت کے ساتھ ان کی بات چیت جاری ہے اور وہ پہلے ہی 'رضاکارانہ طور پر موجودہ حکومت کو برطانیہ میں ایک ارب ڈالرز مالیت کے ایک مشکوک بینک اکاؤنٹ کی نشان دہی کر چکے ہیں۔ تاہم پاکستانی حکومت نے تاحال اس کا کھوج لگانے میں دل چسپی ظاہر نہیں کی ہے۔وہ اکاؤنٹ کس کا ہے؟ اس بارے میں موسوی کاکہنا تھا کہ 'یہ پاکستانی حکومت سے پوچھا جائے، اسے معلوم ہے۔

یہاں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں مثلاکیا بیرونِ ملک غیر قانونی اثاثے صرف سیاست دانوں ہی کے ہوسکتے ہیں؟کیا باقی سب دودھ کے دھلے ہوئے ہیں؟تو پھر مشرف کے دور سے اب تک صرف سیاست داں ہی کیوں؟موجودہ حکومت سے بھی بات چیت جاری ہے اور برطانیہ میں ایک ارب ڈالرز مالیت کے ایک مشکوک بینک اکاؤنٹ کی وہ نشان دہی کر چکے ہیں تو اس بات سے قوم کو لا علم کیوں رکھا گیا ہے؟

یہاں دل چسپ امر یہ ہے کہ تیرہ جنوری کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ براڈ شیٹ کے انکشاف کے مطابق ایک پاکستانی سیاسی شخصیت نے ایک ارب ڈالر برطانیہ منتقل کیے تھے، تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ براڈ شیٹ نے تاحال حکومت کو اس اکاؤنٹ ہولڈرکا نام نہیں بتایاہے۔دوسری جانب کاوےموسوی نے الزام عاید کیا ہےکہ اس اکاؤنٹ کی نشان دہی کرنے پر موجودہ حکومت کے ایک نمائندے نے ان سےاپنے لیے اس میں سے کمیشن کی بات بھی کی تھی۔

کاوے موسوی کے مطابق حکومت کے ساتھ معاہدہ ہو جانے کی صورت میں وہ 'شریف خاندان کے خلاف جمع کیے گئے شواہد پاکستانی حکومت کے حوالے کر سکتے ہیں ۔ اگر ایسا ہے توپھر اس سے شواہد حاصل کیوں نہیں کیے جارہے؟

کاوے موسوی کے مطابق جنرل پرویز مشرف خاص طور پر نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے بیرونِ ملک اثاثہ جات کا سراغ لگا کر مبینہ طور پر لوٹی گئی رقم پاکستان واپس لانے میں دل چسپی رکھتے تھے۔ لیکن کاوے کسی سیاسی انتقامی کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے جو اس وقت ظاہر ہو رہا تھا کہ مشرف کرنا چا ہ رہے تھے۔ 

اس لیے انہوں نےواضح کر دیاتھا کہ وہ صرف ان تین شخصیات کے پیچھے نہیں جائیں گے۔ یہ دعوی خود بتارہا ہے کہ پرویز مشرف کی نیت کیا تھی اور وہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے بارے میں کتنے’’ فکر مند ‘‘تھے ۔

تازہ ترین