• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہاوت ہے کہ اس کرۂ ارض پر ایک ایسا ملک ہے جس کی سرحدیں دنیا کے ہر ملک سے ملتی ہیں اس کا نام ہے ریاست ہائے متحدہ امریکہ، امریکہ کی اہمیت کی وجہ محض اس کی دفاعی طاقت نہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اس کی آئینی، جمہوری اور تہذیبی ترقی و استحکام میں سربلندی ہے، اندرونی سسٹم کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اس کا عالمی کردار بھی اس کو سپرپاور بنانے میں کم اہم نہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک امریکہ کی آئینی، جمہوری اور تہذیبی اقدار کے حوالے سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں انسانی حقوق اور فکری آزادیوں سے بھی مستفید ہو سکتے ہیں ۔

پرامن انتقالِ اقتدار کے حوالے سے امریکہ کی طویل اور درخشاں تاریخ ہے ہمارے ہاں کئی طبقات اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی چیز ہاتھ آئے جسے بنیاد بنا کر امریکیوں پر خوب کیچڑ اچھالا جائے۔جمہوریت کی بہتر آبیاری کیلئے اوپن اور وسیع المشرب سوسائٹی کا قیام شرطِ اول ہے، اس پراسس میں بعض اوقات منفی ذہنیت والے لوگ بھی چرب زبانی یا جھوٹے سچے پروپیگنڈے کا سہارا لیتے ہوئے بہتر پوزیشن پر آ جاتے ہیں لیکن سسٹم اگر پائیدار بنیادوں پر استوار ہو تو ایسے کچرے کی ازخود تطہیر کرتا چلا جاتا ہے ۔ہم جیسے ممالک میں جمہوری ناکامی کی دیگر وجوہ کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں جمہوری تسلسل کو برقرار نہیں رہنے دیا جاتا۔

ابھی 20جنوری کو واشنگٹن میں جو انتقالِ اقتدار ہوا ہے، اس پر بہت سے دوست احباب پوچھتے ہیں کہ آپ اس تبدیلی کوکس طرح دیکھتے ہیںاور اس کے عالمی سطح پر کیا اثرات ہوںگے بالخصوص پاکستان یا مسلم ورلڈ کے حوالے سے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ میں حکومتوں کے بدلنے سے اس کی پائیدار پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ وقت کے ساتھ اس کی ترجیحات تبدیل ہوتی رہتی ہیں ۔ ریپبلکن کا زیادہ زور اگر نیشنل ایشوز پر ہوتا ہے تو ڈیموکریٹس کا انٹرنیشنل سناریو زیادہ اہم دکھتا ہے اسی لئے وہ ہیومن رائٹس جیسے ایشوز پر نسبتاً بہتر توجہ دیتے ہیں۔تازہ ترین حالات میں امریکی فارن آفس کی ترجیحات یا پالیسیاں کیسی رہیں گی؟ اس پر آنے سے قبل بہتر محسوس ہوتا ہے کہ صدر بائیڈن کی حلف اٹھانے کے بعد کی گئی افتتاحی تقریر کا تھوڑا جائزہ لے لیا جائے کیونکہ ہمارے میڈیا میں اس تقریر کے مندرجات کی بازگشت زیادہ سنائی نہیں دی ہے۔

ہماری حکومتی و سیاسی قیادت کیلئے حالانکہ اس میں سیکھنے کے لئے بہت سی باتیں ہیں، ہمارا عجیب وتیرہ ہے کہ جو حکومت سنبھالتا ہے وہ بجائے اپنی اعلیٰ کارکردگی یا گڈگورننس کے ٹھوس نقوش چھوڑنے کے سوتنوں کی طرح سابقوں پر الزام تراشی اور طعنہ زنی میں پورا حکومتی دورانیہ نکال دیتا ہے، اِس بار تو حد ہی ہو گئی ہے۔اس کے بالمقابل آپ امریکی منظرنامہ سامنے لائیے، ٹرمپ نے پیہم نہ صرف غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنائے رکھا بلکہ اس سے بھی کئی قدم آگے بڑھ کر پائیدار جمہوری سسٹم پر وار کرتے ہوئے اسے تہہ و بالا کر دینا چاہا مگر آفرین ہے نومنتخب امریکی قیادت پر کہ اپنی پوری تقریر میں اس شخص کانام تک نہیں لیا اگر غلط اقدامات پر تنقید بھی کی تو ایک شائستگی اور متانت کے ساتھ۔

’’آج میں نے وہی حلف پڑھا ہے جو پہلی بار جارج واشنگٹن نےپڑھا تھا یہ کہ امریکی آئین کی حفاظت کروں گا، جمہوریت کا دفاع کروں گا اور ہمیشہ انصاف پر کاربند رہوں گا یہ کسی امیدوار کی فتح یا شکست نہیں ہے یہ جمہوریت کی فتح ہے ہم نے اپنی قوم کیلئے بہت کچھ کرنا ہے، اقتدار کی پرامن منتقلی کے ساتھ ہم نے تعمیروترقی کے نئے سفر کا آغاز کرنا ہے، زخموں کو بھرنا ہے، کورونا سے لڑنا ہے، سیاسی انتہا پسندی اور سفید فام بالادستی کے تصورات کو توڑنا ہے۔ غصے ، ناراضی، نفرت، بیماری ، بیروزگاری اور مایوسی کے خلاف قومی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ سیاست بھڑکتی آگ جیسی نہیں ہے جو اپنے راستے کی ہر چیز کو بھسم کردے ہمیں ایسی غیر مہذب جنگ کو ختم کرنا ہو گا جو نیلے کو سرخ کے خلاف، دیہاتی کو شہری کیخلاف، قدامت پسندی کو لبرل اپروچ کے خلاف کھڑا کرتی ہے ۔1863میں اسی جگہ ابراہم لنکن نے قومی اتحاد کے حوالے سے جو کچھ کہا تھا آج میں بھی پوری روح کے ساتھ وہی کچھ کہہ رہا ہوں، مارٹن لوتھر کنگ نے بھی یہاں اپنا یہی خواب بیان کیا تھا۔تقسیم کی قوتیں نئی نہیں ہیں لیکن جس طرح ہم نے پہلے قومی اتفاق و اتحاد کے جذبے سے ان پر قابو پایا تھا اسی طرح اب بھی کامیاب رہیں گے۔ سیاست میں آگ بگولا ہونے کی نہیں تھوڑی رواداری و عاجزی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بائبل میں ہے کہ اگررات روتے ہوئے گزر جائے تب ہی خوشی کی صبح طلوع ہوتی ہے آج ہمیں تقسیم کی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے احترام کی ضرورت ہے۔ عرض ِمدعا یہ ہے کہ اس کو کہتے ہیں قومی قیادت۔اس کے بالمقابل ہم پاکستان میں جب اپنے سیاسی مخالفین کیلئے ہر روز چور چور کے نفرت انگیز الفاظ اور رویے دیکھتے ہیں تو انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ کیسی قیادت ہے جس میں شائستگی نام کی کوئی چیز نہیں۔پاپولر سیاسی قیادت بننے کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہوتی ہے کسی بھی پاپولر سیاست دان کے پیچھے لاکھوں کروڑوں عوام کی محبتیں ہوتی ہیں اور جب آپ انہی مقبول سیاست دانوں کے خلاف ایسی باتیں کرتے ہیں تو سوچیں، کتنے اہل وطن کی دل آزاریہوتی ہو گی، ایسے میں قومی ایکتا یا اتفاق و اتحاد کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے؟(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین