• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم یہ بات جانتے ہیں کہ چوتھے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ اکیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں ٹیکنالوجی میں جتنی جدت دیکھی گئی، وہ پوری بیسویں صدی میں نہیں دیکھی گئی تھی۔ اور یہ جدت اور ترقی چوتھے صنعتی انقلاب کی مرہونِ منت ہے۔

چوتھا صنعتی انقلاب کیا ہے؟

آئیے سب سے پہلے یہ اصطلاح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اصطلاح، عالمی اقتصادی ادارے (ورلڈ اکنامک فورم) کے چیئرمین ڈاکٹر کلاؤس شواب نے ڈیجیٹل، طبیعیاتی اور حیاتیاتی شعبہ جات کے امتزاج سے وابستہ ٹیکنالوجیکل تبدیلیوں کو بیان کرنے کے لیےایجاد کی تھی، جس کے بعد اس کے استعمال میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور آج یہ تعلیم یافتہ طبقے میں زبان زدِ عام ہوچکا ہے۔ 

چوتھے صنعتی انقلاب کے باعث ہمارے کام کرنے، زندگی گزارنے اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کے طریقوں میں انقلاب آئے گا، اسی لیے ہم پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا ایک بار پھر دوراہے پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ دنیا کو چوتھے صنعتی انقلاب کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے اور وہ خود کو اس کے لیے تیار کررہی ہے۔

کیا پاکستان تیار ہے؟

بدقسمتی سے پاکستان میں چوتھے صنعتی انقلاب کو اپنی معیشت کا حصہ بنانے یا معیشت کو اس کے مطابق ڈھالنے کے حوالے سے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا جارہا اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جس کی دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، یہ نہایت پریشان کن صورتِ حال ہے۔

آٹومیشن اور اس کے اگلے مرحلے میں مشین لرننگ سے ہمارے کام کرنے کا طریقہ تبدیل ہوتا جارہا ہے اور آنے والے وقتوں میں اس میں مزید تبدیلیاں آنے کی توقع ہے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میںملازمت کے لیے درکار صلاحیتوں میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ ان تبدیلیوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بقول ماہرین، آج کے بچے جب زمانہ طالب علمی سے گزر کرعملی زندگی میں قدم رکھیں گے تو اس وقت ایسے پیشے مانگ میں ہوں گے، جو فی الحال کوئی وجود ہی نہیں رکھتے۔ 

ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس وقت تعلیمی اداروں میں جو پڑھایا جاتا ہے، اس میں اور مستقبل کے لیے درکار ضروری صلاحیتوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جس رفتار سے کام کی نوعیت میں تبدیلی آرہی ہے، موجودہ نصاب اور پالیسیوں کی اس رفتار سے تجدید نہیں ہورہی۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں کوئی پیشرفت بھی نظر نہیں آتی۔

یہ بات تو ٹھیک ہے کہ ملک بھر کی جامعات میں طلبا کو آہستہ آہستہ مستقبل کے لیے ضروری ہنروں جیسے بگ ڈیٹا، انٹرنیٹ آف تھنگز، مشین لرننگ، مصنوعی ذہانت وغیرہ سے آراستہ کیا جارہا ہے مگر چوتھے صنعتی انقلاب کے دور میں کامیاب ہونے کے لیے کلیدی ’انسانی‘ صلاحیتوں پر توجہ نہیں دی جارہی۔

پاکستان میں موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ معلومات کی منتقلی اور ’تکنیکی‘ صلاحیتوں پر ضرور توجہ دی جاتی ہے لیکن ان غیرتکنیکی صلاحیتوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے جو مستقبل میں بہت فائدہ مند ثابت ہونے والی ہیں۔ یہ غیرتکنیکی صلاحیتیں پیشہ ورانہ کامیابی کے لیے مزید ضروری ہوتی جارہی ہیں۔ کئی ماہرین بشمول ڈارٹ ماؤتھ کالج کے صدر ہینلن کی تجویز کے مطابق، ان صلاحیتوں کا نام تبدیل کرکے ’پاور اسکلز‘ رکھ دینا چاہیے۔ 

ان صلاحیتوں میں باہمی تعاون سے کام کرنے کا جذبہ، دوسروں کی بات سُننے، لوگوں کا مؤثر انتظام کرنے اور فیصلہ سازی کی صلاحیتیں، تجزیہ کرنے اور پیچیدہ مسائل حل کرنے کی صلاحیتیں، اور جذباتی ذہانت شامل ہے۔ عالمی اقتصادی ادارہ (ڈبلیو ای ایف )کی گزشتہ سال جاری ہونے والی رپورٹ میں ان تمام صلاحیتوں کا شمار 2020ء کی دس اہم ترین صلاحیتوں میں کیا گيا تھا۔

چوتھے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر ماہرین مختلف آراء رکھتے ہیں۔ ایک طرف ایلن مُسک جیسے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں انسانوں کے کرنے کے لیے بہت کم کام رہ جائے گا تو دوسری طرف روزگار کی مارکیٹ کا مطالعہ کرنے والی ماہر معاشیات ہائيڈی شیئرہوٹزکا خیال ہے کہ روزگار اور بے روزگاری کی سطحوں میں کچھ خاص تبدیلی نہیں آئے گی، تاہم انسانوں کے لیے دستیاب ملازمتوں کی نوعیت میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ مستقبل کی اس صورتِ حال کا تیسرا رُخ ایرون بسٹانی اپنی کتاب میں پیش کرتے ہیں، جس میں انھوں نے پیشگوئی کی ہے کہ مستقبل میں انسان نوکری کی فکر سے آزاد ہوجائے گا۔

ہمیں پاکستان میں تعلیم کے بنیادی فلسفہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں کو ایسے گریجویٹس پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو زیادہ لچکدار اور ہوش مند ہونے کے ساتھ ساتھ مناظراتی سوچ کے بھی حامل ہوں۔ ایسے گریجویٹس پیدا کرنے کے لیے ان میں ’پاور اسکلز ‘ پیدا کرنی ہوں گی۔ آج کے گریجویٹس میں ایسے رویے پروان چڑھانے ہوں گے کہ ان میں زندگی بھر نت نئے ہنر سیکھنے کی جستجو زندہ رہے بصورتِ دیگر ٹیکنالوجیکل جدت کی دوڑ میں وہ پیچھے رہ جائیں گے۔

تازہ ترین