• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمسایہ ملک بھارت سے خبر آئی ہے کہ ہائی کورٹ کے مسلمان جج نے ایک مقدمہ کی کارروائی کے دوران سگریٹ نوشی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ریماکس دئیے ہیں کہ ’’ سگریٹ نوشی سے متعلق اسلامی تعلیمات خاموش ہیں‘‘۔فاضل جج کے فرمان پر غور کیاجائے توسوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں تمباکو نوشی کس زمرے میں آتی ہے؟ اور کیا سگریٹ نوشی کیلئے اجہتاد کی گنجائش ہے؟ میری رائے میں ہم یہ بحث علمادین پر چھوڑتے ہیں اور سگریٹ نوشی کے نقصانات کا جائزہ لیتے ہیں۔

میڈیکل تجرباتی لیبارٹری میں جب مینڈک کو زندہ لیاجاتا ہے تو چیرپھاڑ کرنے سے پہلے اسے بے ہوشی کے عمل سے گزارہ جاتا ہے جس کیلئے مینڈک کے منہ میں سگریٹ کا تمباکو بھرا جاتا ہے اس سے وہ بے ہوش ہوجاتا ہے اور پھر میڈیکل تجربات کرنے والے سرجن بہ آسانی اسکی چیرپھاڑ کرکے اس کے اندورنی نظاموں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق دنیا میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد تقریباً ایک ارب 15کروڑ ہے جن میں45فیصد مرد اور15فیصد عورتیں شامل ہیں۔ اسی تناسب سے دنیا میں ہر روز تقریباً گیارہ ہزار افراد تمباکو نوشی کے سبب سے موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخرتمباکو کیا ہےجس سے لوگ موت خریدتے ہیں؟ اس کا آغاز کب کہاں اور کیسے ہوا میں اپنے حساب سے عرض کرتا ہوں۔

کہتے ہیں1492میں جب کولمبس کیوبا کے ساحل پر اترا تو وہاں کے باشندوں کواس نے کچھ پتوں کو سونگھتے اور چباتے دیکھا پھر اس کے ردعمل پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ ایسا کرنے والوں پر ان پتوں کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ 1560میں فرانس کے سفیر برائے پرتگال نے قیدی جہاز رانوں سے یہ پتیاں حاصل کیں کیونکہ اسے بتایا گیاتھا کہ ان پتیوں کے لگانے سے زخم مندمل ہوجاتے ہیں اور اس سے السر کا علاج بھی کیا جاتا ہے اس کے علاوہ ان کو وبائی امراض جیسے طاعون وغیرہ سے بچنے کیلئے بھی موثر خیال کیا جاتا تھا ۔ اس وقت ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ یہ نظام ہاضمہ کو درست کرتی ہیں اور خون کی صفائی میں معاون ہیں کیوبا میں جو اسپین سے ملاح اور جہازی آئے وہ اسپین لوٹتے ہوئے اپنے ساتھ تمباکو کے پتے بھی لے آئے اسکی وجہ سے اسپین، فرانس اور جرمنی میں سگار بننے شروع ہوگئے یہ1788کی بات ہے ادھر امریکہ کی سرزمین پر سگار بنانے کا پہلا کارخانہ1821میں قائم ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمباکو کی وبا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ،اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تمباکو چین میں استعمال ہوتا ہے اس کے بعد امریکہ اور تیسرے نمبر پر بھارت ہے۔ دنیا بھر میں تمباکو نوشی جوں جوں بڑھی اس کے مضر اثرات بھی عیاں ہوتے گئے چونکہ میڈیکل سائنس اتنی ترقی یافتہ ہوچکی ہے کہ تمباکو کے مضمرات کا تفصیلی جائزہ لے سکے اس لئے انگلستان میں سب سے پہلے (غالباً اٹھارویں صدی میں) ایک گروپ نے اسکی مخالفت کی ۔بادشاہ نے تمباکو کیخلاف فرمان جاری کیا ۔ امریکہ نے 1960میں سگریٹ کے مہلک اثرات کو دیکھتے ہوئے سگریٹ کے پیکٹوں پر’’ سگریٹ پینا صحت کے لئے نقصان دہ ہے‘‘ لکھنا لازمی قرار دیا۔ عالمی ادارہ صحت نے1980سے ہی تمباکو نوشی کے خلاف عالم گیر پیمانے پر مہم شروع کردی1987میں اس نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے دفاتر میں سگریٹ پینے پر پابندی عائد کردی۔ امریکہ ہی میں1971میں ریڈیو اور ٹی وی پر سگریٹ کے اشتہارات پرپابندی لگادی گئی کینیڈا نے1988ء میں یہی قانون نافذ کیا ۔ آسڑیلیا نے1987ءمیں اپنی تمام ہوائی کمپنیوں میں دوران سفر ہر قسم کا تمباکو پینے پر پابندی عائد کردی ۔ تمباکو نوشی کے نقصانات میں سب سے بڑا خطرہ کینسر کے موذی مرض کا ہے۔ ایک خبر کے مطابق تمباکو نوشی کرنے والے افراد خانہ کو اسموک فری مکان میں رہنے والوں کی نسبت 4گنا زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تمباکو نوشی نہ کرنے والے اپنے گھر میں کسی فرد کے تمباکو نوشی کرنے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جو افراد یومیہ دس سے پندرہ سگریٹ پیتے ہیں ان کے افراد خانہ کو نہ پینے والوں کی نسبت4گنا زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں ۔آخر یہ میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک تازہ تحقیق کے مطابق کسی قسم کے آپریشن سے آٹھ ہفتے قبل سگریٹ سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے ۔یہ انکشاف ڈنمارک میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کی تحقیق کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ تمباکو نوشی جاری رکھنے والے 52%افراد آپریشن کے بعد مختلف پیچیدگیوں سے دوچار ہوئے جبکہ تمباکو نوشی ترک کرنے والے صرف18فیصد افراد مختلف مسائل سے دوچار ہوئے۔

چلو یہ مانا کہ ادنیٰ سا اک چراغ ہوں میں

مگر ہوائوں کو الجھن میں ڈال رکھا ہے

تازہ ترین