حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کرپشن پرسیپشن انڈیکس برائے سال2020میں پاکستان 180ممالک میں سے 124 ویں درجے پر آگیا ہے۔ حالاں کہ گزشتہ برس پاکستان سی پی آئی رینکنگ میں 120ویں نمبر پر تھا۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ملک کا اسکور بھی سو میں سے گزشتہ برس کےبتّیس کے مقابلے میں کم ہو کراکتّیس ہوگیا ہے ۔ یاد رہے کہ 2019میں پاکستان کا درجہ 180 ممالک کی فہرست میں 120 واںتھا۔
یہ رپورٹ آنے کے بعد حکومت اور حزبِ اختلاف کی جانب سے بیانات کی توپیں داغی جانے لگیں ۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ اس رپورٹ کی تیّاری میں پرانے اعداد و شمار استعمال کیے گئے ہیں۔حزبِ اختلاف نے اسے حکومت کی ناکامی اس کے لیے کلنک کا ٹیکہ قرار دیا۔لیکن دونوں نے یہ نہیں سوچا کہ آخر اس کی وجوہات کیاہیں،بدعنوانی سے کسی قوم پر کیا کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا سدباب کس طرح کیا جاسکتا ہے۔
نہ ہی دونوں کی جانب سے اسے روکنے کے لیے کسی موثر منصوبے،تجویزیا اقدامات کا ذکر کیا گیا۔ البتہ طنزیہ اندازمیں کہاگیا:’’کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 18-2017 کا ڈیٹا حاصل کیا،جب یہ اردو ترجمہ کروائیں گےتو انہیں پتا چل جائے گا‘‘۔ یہ بھی کہا گیا :’’ رپورٹ میں اپوزیشن کے لیڈروں کی کرپشن کی بات ہو رہی ہے۔یہ نواز شریف کے زمانے کی کرپشن کا انڈیکس ہے۔رپورٹ انگلش میں ہےلہذا پٹواری آج خوب لڈیاں ڈالیں گے‘ کل ان کی سمجھ میںآئے گی‘‘۔
لیکن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں اُن دعووں کی نفی کی گئی ہے جو موجودہ حکومت کے کرتا دھرتا کر رہے ہیں۔مزید بر آںٹر انسپیرنسی انٹرنیشنل نے برطانوی نشریاتی ادارے کو تصدیق کی ہے کہ بدعنوانی سے متعلق اس کی جاری کردہ رپورٹ کے لیے استعمال کیا گیا ڈیٹا پرانا نہیں ہے بلکہ 2019ء اور 2020ء کا ہے۔حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہاں معاملہ صرف ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پرسیپشن سےمتعلق رپورٹ کا نہیں ہے بلکہ کرپشن سے متعلق بعض وعدوں اور دعوؤں کا بھی ہے۔
تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سےپہلے اور بعد میں دو وعدے بار بارکیے تھے۔پہلا وعدہ تھا کہ نوّے روز میں ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کردیا جائے گا۔دوسرا وعدہ بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا تھا۔ اب حکومت کواُنتیس ماہ ہوچکے ہیں، مگر عالمی ادارے ، حکومتی اراکین اور اتحادی کرپشن بڑھنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ عدالتیں مسلسل اپنے فیصلوں میں بدعنوانی کے مقدمات میں سیاسی انجینئرنگ کی بات کررہی ہیں۔
سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 11ستمبر 2019ء کو کہا تھاکہ ہم بہ طور ادارہ اس تاثر کو بہت خطرناک سمجھتے ہیں کہ ملک میں جاری احتساب سیاسی انجینئرنگ ہے۔ خواجہ سعد رفیق کیس میں بھی عدالت نے یک طرفہ احتساب پر بات کی۔ اس فیصلے کے بعد حکومت کی طرف سے بھی نیب پر تنقید کی گئی۔شاہد خاقان عباسی کے کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عدالت نے محسوس کیا کہ شاہد خاقان موجودہ وفاقی حکومت پر کھلم کھلا تنقید کرتے ہیں، ہم نیب کی بدنیتی کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ نیب نے درخواست گزارپر سیاسی دباؤ بڑھایا تاکہ ان کی زبان بند کی جاسکے۔
حکومت کے ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ پاناما پیپرز میں ساڑھے چار سو افراد کا نام آیا۔ نواز شریف کے خلاف کارروائی ہوئی، باقی کسی کے خلاف کچھ نہیں ہوا۔ خود عمران خان نے 3دسمبر 2018ء کو مختلف ٹی وی چینلز کے اینکرز کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ چھبّیس ممالک میں پاکستانیوں کے گیارہ ارب ڈالرز کا سراغ ملاہے۔ وزیراعظم کے اس دعوے کو بھی دو سال سے زیادہ ہوگئے ہیں،لیکن اس ڈیٹا کا کیا ہوا، کچھ پتانہیں چل سکا۔ البتہ براڈ شیٹ کیس میں جرمانے کی صورت اُنتیس ملین ڈالرز ضرور ملک سے باہر چلے گئے ۔یعنی مرے کو مارے سو دُرّے۔
اس سارے معاملے کا ایک دل چسپ پہلو یہ بھی ہے کہ چند یوم قبل ہی خود وزیراعظم نے منتخب اراکین اسمبلی کوپچاس کروڑ روپے فی کس ترقیاتی فنڈزکی مد میں دینے کی منظوری دی۔حالاں کہ ماضی میں وزیراعظم منتخب اراکین کو فنڈز دینے کی سختی سے مخالفت کرتے رہے ہیں ۔ وہ پہلے اسے بدعنوانی اور سیاسی رشوت گردانتے تھے۔
شیطانی چکّر
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے مختلف اقوام میں پائی جانے والی کرپشن اور مالی بدعنوانی کے حوالے سے جو سالانہ انڈیکس جاری کیا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ بڑھتی مالی بےضابطگیاں سماجی ناہمواری کو فروغ دے رہی ہے ۔ یہاں راقم کو مئی 2014میں اسی ادارے کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ یاد آگئ ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں بدعنوانی کے انسداد کے لیے کوشاں ادارے اختیارات کی کمی کا شکار ہیں اور انہیں بدعنوان سیاست دانوں اور اہل کاروں کے بارے میں تحقیقات کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔
یہ رپورٹ بدھ اکیس مئی 2014 کو نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے جاری کی گئی تھی۔ اس میں جنوبی ایشیا کوایسا خطّہ قرار دیا گیاتھاجہاں بدعنوانی کا راج ہے، لیکن اس کے انسدادکےلیے کوشاںبہت سے اداروں کو بدعنوانی کے واقعات کی چھان بین کے لیے حکومت کی اجازت کی ضرورت پڑتی ہے یا پھر اُنہیں اپنی تحقیقات کے دوران بڑے پیمانے پر سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر برائے ایشیااور بحرالکاہل، سریراک پلیپاٹ نے رپورٹ کے اجراء کے موقعے پر کہا تھاکہ یہ خطّہ ایک شیطانی چکر میں پھنسا ہوا ہے، جہاں سیاسی شعبے پر احتساب سے ماورا ایسے مخصوص طبقات کی اجارہ داری ہے جن کے زور کو کوئی بھی نہیں توڑ پا رہاکیوں کہ وہ خود پر انگلی اٹھانے والے عناصر کو منصوبہ بندی کے تحت خاموش کروا دیتے ہیں۔
مذکورہ رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے چھ ممالک، بنگلا دیش، بھارت، مالدیپ، نیپال، پاکستان اور سری لنکا میں بدعنوانی کے انسداد کے لیے جاری کوششوں کو جانچا گیا تھا۔ پلیپاٹ نے جنوبی ایشیائی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھاکہ جب تک کوئی بدعنوانی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لائے گا، خطرہ یہ ہے کہ مستقبل میں ہونے و الی ترقی اور خوش حالی کا فائدہ صرف اور صرف طاقت ور طبقات کو ہی ہو گا اور جنوبی ایشیا کے غربت کی چکی میں پسنے والے نصف ارب باشندے بہ دستور خالی ہاتھ رہیں گے۔
یہ کیسا سچّا اور کھرا تجزیہ تھاجو آج بھی ویسے کا ویسا ہی ہے۔اتنا ہی سچّا ،کھرا اور موثر۔پھر تقدیر کیسے بدلے گی اس خِطّے کی؟کرتے وہ ہیں،بھرتے ہم ہیں۔ مزے وہ اڑاتے ہیں، قیمت ہم ادا کرتے ہیں۔ ان کی دولت اور طاقت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جاتا ہے اور عوام ہرگزرتے دن کے ساتھ غربت کے نہ ختم ہونے والے اندھیروں میں اترتے اور کم زور تر ہوتے جاتے ہیں۔
وہ ہر بازی ہار کر بھی جیت جاتے ہیں اور عوام ہر بازی جیت کر بھی ہار جاتے ہیں۔ تاریخ کے صفحات پر ان کا نام بدعنوانوں کی فہرست میں لکھا جاتا ہے، لیکن ان کی بدعنوانیوں کی قیمت ادا کرنے والے تاریخ کے صفحات میں گُم نام رہتے ہیں۔
بدعنوانی کے لفظی معنیٰ کے مطابق بے قاعدہ (بالعموم غیر قانونی) انداز میں کی جانے والی کوئی بھی ایسی سرگرمی، جو اپنے یا کسی دوسرے کے لیے مفادات حاصل کرنے کی غرض سے کی جائے، اس زمرے میں آتی ہے، لیکن لغت سے باہر اس کی حدود لامتناہی نظر آتی ہیں، بالخصوص پاکستان جیسے ممالک میں۔ اس عمل کی تاریخ میں گہری جڑیں ہیں اور ہرگزرتے دن کے ساتھ بدعنوانی کی نت نئی اشکال سامنے آتی جارہی ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بدعنوانی نے بہت سی حکومتوں، ممالک اور عوام کو تباہ کیا اور آج بھی کر رہی ہے۔ آج عالمی بینک اسے دنیا کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتا ہے۔ اقوام متحدہ بھی اسے اقوامِ عالم کے لیے سخت مضر قرار دے چکا ہے اور اس کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کرنے اور اس کی روک تھام کے لیے لوگوں میں شعور بے دار کرنے کی غرض سے عالمی سطح پر ہر سال نو دسمبر کو انسدادِ بدعنوانی کا یوم منایا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بدعنوانی ان معاشروں میں پھلتی پھولتی ہے، جہاں عوام مختلف معاملات پر متضاد آراء رکھتے ہیں یا پھر جہاں قوانین، قواعد اور ضابطے تو موجود ہوں، مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہو۔ اس قبیح فعل کا سراغ زمانہ قبل از مسیح میں بھی ملتا ہے۔ 399قبلِ مسیح میں لوگوں میں سوال کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کے جرم میں مشہورِ زمانہ فلسفی اور اصلاح پسند مفکر سقراط کو گرفتار کرنے کے بعد اسے ایک نام نہاد عدالت نے زہر کا پیالہ پی کر اس دنیا سے رخصت ہونے کی سزا سنائی تھی۔
جس روز اس کی سزا کے حکم پر عمل درآمد ہونا تھا، اس سے ایک رات قبل اس کے چند محبین اور شاگرد جیل کے عملے سے ’’معاملہ‘‘ طے کرکے سقراط کے پاس پہنچے اور سارا ماجرا اسے سنانے کے بعد جیل سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا، مگر اس نیک طینت فلسفی نے ان کی پیش کش یہ کہہ کر ٹھکرا دی تھی کہ تم نے جیل کے عملے کے ساتھ جو ’’معاملہ‘‘ (بدعنوانی) کیا، وہ غلط کام تھا، اس طرح جیل سے نکل جانا بھی اخلاقی طور پر بہت غلط ہوگا اور میں ایسی زندگی پر موت کو ترجیح دیتا ہوں۔
بدعنوانی اور طاقت کے مراکز میں رشتہ
یہ بھی حقیقت ہے کہ بدعنوانی کے ڈانڈے طاقت کے مراکز سے کہیں نہ کہیں جاکر ضرور ملتے ہیں اور سیاسی اتار چڑھائو، جنگیں، خانہ جنگی، انارکی، اقتصادی بدحالی وغیرہ اسے مہمیز دیتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عہدِ جدید میں جنگِ عظیم اول اور دوم کے بعد ساری دنیا میں بدعنوانی نے نت نئی شکلیں اختیار کیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان دونوں جنگوں کے نتیجے میں دنیا کے ایک بڑے حصے میں نہ صرف زبردست سیاسی، اقتصادی اور سماجی تبدیلیاں آئی تھیں اور بہت سی آزاد اقوام غلام بن گئی تھیں، بلکہ طاقت کا محور بھی تیزی سے تبدیل ہوا تھا۔ ان تبدیلیوں کے بعد بدعنوانی کی بہت سے اقسام کو بہت سے لوگوں نے اپنا حق سمجھ لیا، بہت سی اقسام ادارہ جاتی لبادوں میں ملفوف ہوکر کام دکھانے لگیں اور یہ جرم منظم انداز میں بھی کیا جانے لگا۔
چناں چہ بدعنوانی کی جدید تاریخ میں 1920ء سے 1960ء تک کا عرصہ کافی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے، لیکن جب بدعنوانی کا شکنجہ بہت کس گیا، بڑے بڑے ممالک کی حکومتیں اس سے متاثر ہونے لگیں اور ان کے عوام نے اس پر صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کی، تو پھر اربابِ اقتدار کو مجبوراً اس بارے میں انسدادی قوانین بنانے کا آغاز کرنا پڑا۔ اس برائی سے 1964ء میں ریاست ہائے متحدہ بھی اس قدر متاثر ہوگیا تھا کہ اس برس وہاں کے اقتدار کے دونوں ایوانوں نے اپنے اراکین کے لیے اخلاقی معیارات اور ضابطے تشکیل دینے کی غرض سے اکثریتی رائے کے ذریعے مجلس منتخبہ تشکیل دی تھی، پھر 1971ء میں بڑے تجارتی اور صنعتی اداروں کے مالکان اور سیاست دانوں کے گٹھ جوڑ پر ضرب لگانے کے لیے فیڈرل الیکشن کمپین ایکٹ تشکیل دیا گیا۔
سابق امریکی صدر، رچرڈ نکسن کی 1972ء کی انتخابی مہم میں بڑے تجارتی اداروں اور مال دار افراد کا سرمایہ لگنے کا راز واٹر گیٹ اسکینڈل کی صورت میں 1974ء میں فاش ہوا (جس کی وجہ سے انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا) تو مذکورہ ایکٹ کو مزید موثر بنایا گیا۔ پھر 1977ء میں دونوں ایوان ہائے اقتدار نے نہ صرف اپنے اخلاقی ضوابط کو مزید سخت بنایا، بلکہ فارن کرپٹ پریکٹیسز ایکٹ بھی بنایا، جس کے تحت کسی بھی امریکی تجارتی یا صنعتی ادارے کو غیر ملکی سرکاری اہل کاروں کو کسی بھی قسم کا تحفہ یا رقوم دینے سے روکا گیا۔ اس کے بعد 1978ء میں ایتھکس ان گورنمنٹ ایکٹ منظور ہوا۔
امریکا میں بدعنوانی کابینہ تک پہنچی
امریکا میں 1970ء کی دہائی کے وسط میں سرکاری اداروں کے اہل کاروں کی بدعنوانی کا یہ عالم تھا کہ ہر برس ان پردوسو سے زائد مقدمات بنتے تھے، لیکن 1986ء میں یہ شرح سالانہ پانچ سو تک جاپہنچی تھی۔وہاں کوریا گیٹ اسکینڈل (1976ء۔1978ء) سامنے آنے کے بعد پتا چلا کہ امریکی کانگریس کے درجنوں اراکین نے جنوبی کوریا کی حکومت کے ایجنٹس سے رقوم اور تحائف وصول کیے تھے۔ 1980ء میں سامنے آنے والے ABSCAM اسکینڈل کے ذریعے پتا چلا کہ بہت سے سرکاری اہل کار امیگریشن کے محکمے سے مختلف کام کرانے کے عوض رقوم اور تحائف لینے کو تیار تھے۔ 1981ء اور 1989ء کے عرصے میں اس وقت کے امریکی صدر، رونالڈ ریگن کی جانب سے مقرر کیے گئے درجنوں اعلیٰ سرکاری عہدے داروں پرغلط کاموں میں ملوث ہونے کے الزامات لگے۔
ان افراد میں صدر کی کابینہ میں شامل وزیر محنت ریمنڈ جے ڈونوون بھی شامل تھے، جنہیں رونالڈ ریگن نے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلے اپنی کابینہ میں شامل کیا تھا۔ اس کے علاوہ صدر کے اہم ترین مشیروں میں سے ایک فرینکلن نوزیجر پر بھی اسی قسم کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ڈونوون بعد میں الزامات سے بری ہوگئے تھے، لیکن فرینکلن پر نجی پارٹیز کے لیے ایگزیکٹیو برانچ میں لابنگ کرنے کا الزام ثابت ہوگیا تھا، مگر عدالتی نظرثانی کے بعد ان کو سنائی جانے والی سزا واپس لے لی گئی تھی۔
امریکا کی سپریم کورٹ نے بھی انسداد بدعنوانی کے ضمن میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں 1976ء اور 78ء کے سال اہم گردانے جاتے ہیں، جب بکلے بہ نام والیو اور فرسٹ نیشنل بینک آف بوسٹن بہ نام بیلوتی کے مقدمات میں تاریخ ساز فیصلے سنائے گئے۔ اسی طرح 1985ء اور 87ء میں انتخابی مہم کے دوران ہونے والے اخراجات اور اس ضمن میں بدعنوانیوں کی راہ مسدود کرنے والے فیصلے بھی سنائے گئے۔
یورپ، بدعنوانی اور کلیسا
یورپ بھی کسی زمانے میں بدعنوانیوں کی وجہ سے کافی متاثر رہ چکا ہے۔ اس ضمن میں کئی وجوہ بیان کی جاتی ہیں، مثلاً کلیسا کا معاشرے اور نظامِ حکومت میں کلیدی کردار، عیسائیوں کے پروٹسٹنٹ فرقے کی بعض مذہبی روایات، اسپین، فرانس اور برطانیہ کی بڑی بڑی نو آبادیاں اور نوکر شاہی کا کردار وغیرہ۔ یورپ میں دو تین صدی قبل تک کلیساکے نام پر کیا جانے والا عوام کا استحصال وہاں بہت سی تبدیلیوں کی وجہ بنا۔
برطانوی، فرانسیسی اور ہسپانوی نو آبادیات میں مقرر کیے جانے والے برطانوی اور ہسپانوی سرکاری عہدے دار ان نو آبادیات کو لوٹ کا مال سمجھتے تھے اور وطن واپس لوٹنے سے پہلے ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ جس قدر لوٹ مار کرسکتے ہوں، کرلیں۔ اس فکرکےنتیجے میں ان نو آبادیات کے مقامی لوگ بھی بدعنوانی کی طرف راغب ہوگئے تھے۔
مثلاً،جب امریکا خود ایک نو آبادی تھا، تو وہاں 1617ء سے 1619ء تک ورجینیا کے نائب گورنر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے والا کیپٹن سیموئیل ارگل اس ضمن میں بہت بدنام ہوا۔ نوآبادیات میں مقرر کیے جانے والے دیگر سرکاری اہل کاروں کی طرح وہ بھی نو آبادیات میں ہر طرح کی بدعنوانی اور غلط کام کرنا اپنا حق سمجھتا تھا۔ اس فکر کے اثرات خود یورپی معاشروں پر بھی پڑے۔ نوآبادیات قائم ہونے کے بعد یورپ کے اثرات دنیا بھر میں بڑھے اور تجارتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں بدعنوانی کے نئے در وا ہوئے۔
اسی طرح صنعتی انقلاب آنے کے بعد بھی یورپ اورامریکا کی تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع ہوا اور بدعنوانی کی مزید اشکال سامنے آئیں۔ 1765ء تک صورت حال یہ ہوچکی تھی کہ اس وقت کے اندازے کے مطابق منظم انداز میں اسمگلنگ، تاوان اور رشوت کے ذریعے برطانوی خزانے کو سالانہ 7 لاکھ پونڈ کا نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔
اس وقت بدعنوان سرمایہ داروں، اعلیٰ سرکاری عہدے داروں، سیاست دانوں اور عدلیہ کا ایسا گٹھ جوڑ بن چکا تھا کہ اس نے یورپ کے بہت سے ممالک میں عدلیہ اور پارلیمان کو مفلوج اور غیر موثر کردیا تھا۔ اس صورت حال میں یورپ کے معاشرے میں بے چینی کی جو لہر پیدا ہوئی، اس نے وہاں بہت کچھ تبدیل کردیا۔ یورپ میں ان تبدیلیوں کا آغاز برطانیہ سے ہوا اور وہاں جمہوریت نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا۔
ہم جس خطۂ ارض میں رہتے ہیں، وہ تقریباً پون صدی قبل برطانوی نو آبادی تھا۔ لہٰذا انگریزوں سے بہت سی برائیوں کی طرح بدعنوانی بھی ہمیں ورثے میں ملی، لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہاں برطانیہ کے قبضے سے قبل یہ لعنت موجود نہیں تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ برصغیر پر برطانیہ کے قبضے کو ممکن بنانے میں اس لعنت کا بھی اہم کردار تھا۔ مغلیہ سلطنت اور برصغیر کی بہت سی ریاستوں اور رجواڑوں کے بہت سے عہدے دار بھی اس برائی کا شکار تھے، جنہوں نے اپنی مٹی اور اپنے لوگوں سے مال و دولت اور عہدوں کے لالچ میں غداری کی اور انگریزوں سے مل گئے۔ ان میں سے بنگال کا میر جعفر اور حیدرآباد دکن کا میر صادق بہت بدنام ہوا۔
پاکستان میں بدعنوانی کا آغاز آزادی کے بعد ہی ہوگیا تھا۔ بانیٔ پاکستان کو اس بات کا احساس تھا، لہٰذا انہوں نے اپنی تقاریرمیں سرکاری اہل کاروں کو اس سے بچنے کی تلقین کی تھی۔ بعد میں پاکستان کے سیاسی اور حکومتی مناظر میں تیزی سے تبدیلیوں کی وجہ سے بدعنوانی نے شدت اختیار کی۔خود ان تبدیلیوں میں بھی بد عنوانیوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ آج ہمارا یہ حال ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کہتا ہے کہحکومت کی کرپشن کے خلاف مہم کے دوران نیب اورپبلک اکائونٹس کمیٹی کے متحرک کردارکے دعوئوںکے باوجود پاکستان عالمی کرپشن انڈیکس میں چار درجے اوپر (120سے 124) آگیا ہے۔
بدعنوانی کا سب سے برا اثر یہ ہوتا ہے کہ بدعنوان ممالک کی دنیا بھر میں ساکھ خراب ہوجاتی ہے۔ اس برائی سے سب سے زیادہ عوام متاثر ہوتے ہیں، کیوں کہ اس جرم کا خمیازہ انہیں ہی بھگتنا ہوتا ہے۔ ایک جانب بدعنوانیوں کے نتیجے میں ملک کا نظام چوپٹ ہوجاتا ہے، تو دوسری جانب کوئی بھی ملک بدعنوان ملک پر اعتبار کرنے اور وہاں سرمایہ کاری کو تیار نہیں ہوتا۔ یہاں ہر سال کئی سو ارب روپے بدعنوانی کی نذر ہوجاتے ہیں اور بڑے بڑے لوگ بدعنوانی کی دوسری شکل کے ذریعے اپنے اربوں روپے کے قرضے معاف کرالیتے ہیں۔ دوسری جانب یہ صورت حال ہے کہ ہم نے اپنی پوری تاریخ میں کبھی بھی تعلیم اور صحت کے شعبوں پر ہر سال اپنے کل جی ڈی پی کا ایک یا ڈیڑھ فی صد سے زاید حصہ خرچ نہیں کیا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ آج ہم غربت، بے روزگاری، امراض، جرائم اور بدامنی کا بری طرح شکار بنے ہوئے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی میں صرف با اثر اور مال دار افراد ہی شامل ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق اس میں سول اور ملٹری بیوروکریسی اور سیاست دانوں کے ساتھ ہر طرح کے سرکاری اور غیر سرکاری عہدے دار بھی شامل ہیں۔ یہاں ادنیٰ کلرک اور پولیس کا سپاہی تک اس قبیح فعل میں ملوث نظر آتا ہے۔ انصاف فراہم کرنے اور قانون نافذ کرنے کے ذمے دار ادارے بھی بدعنوانی میں شریک ہیں۔
ہمارے معاشرے میں سدھار کی کلید کس کے پاس ہے اور سدھار کا نسخہ کیا ہے؟ آج کل ملک میں بڑی تعداد میں لوگ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں۔ تاریخ اس کا سادہ سا جواب دیتی ہے: ’’تمہارے سامنے ایسے معاشروں کی مثالیں بکھری پڑی ہیں، جو کبھی بری طرح اس لعنت کا شکار تھے، لیکن آج ترقی یافتہ کہلاتے ہیں‘‘۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہمیں من حیث القوم اس برائی کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی، بالکل اسی طرح جس طرح کولمبیا کے عوام نے ڈرگ مافیا کے خلاف کی تھی، جس طرح یورپ اور امریکا میں عوام بدعنوانی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ہمیں صرف یہ سمجھنا ہوگا کہ خدا کے بعد زمین پر طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، لہٰذا ہم اپنے حالات تبدیل کرنے کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔