پی ڈی ایم کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کی ڈیڈ لائن گزر گئی لیکن کچھ نہ ہوا درحقیقت کچھ ہونا بھی نہ تھا تاہم اس دوران پی ڈی ایم بحیثیت مجموعی کمزور ہوئی دوسری طرف مہنگائی،بیروزگاری اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن میں اضافے کی رپورٹ کے بعد حکومت مزید کمزور ہو گی اس دوران پٹرول مسلسل تیسری بار ، بجلی دو بار اور سوئی گیس کے نرخوں میں اضافے نے بدحال اور بے حال عوام کا کچومر نکال دیا ایسا لگتا ہے کہ مظلوم عوام کا پرسان حال اور والی وارث کوئی نہیں ہے ایسے حالات میں وزیر اعظم کا یہ بیان کہ مہنگائی کم ہوئی ہے حکومت سنبھالتے وقت مہنگائی جس شرح پر تھی اس سے نیچے آگئی یہ بیان مہنگائی میں کچلے ہوئے عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق کے مترادف ہے۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل رپورٹ کے کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے جو ردعمل آنا چاہئے تھا وہ نظر نہیں آیا شاید اپوزیشن اس معاملے پر خود کو بھی زیادہ صاف شفاف محسوس نہ کرتی ہولیکن یہ ضرور ہے کہ اداروں نے اس رپورٹ کی سنگینی اور اثرات کو آسان نہیں لیا ہوگا۔تحریک انصاف کو تو حکومت ہی کرپشن کے معاملے پر ملی تھی سوال یہ ہے کہ اب اس حکومت کے قائم رہنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے ؟پی ڈی ایم گزشتہ ایک ماہ سے روایتی سیاست میں الجھ کررہ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے زیادہ الجھائو پیدا کیا ہے جب اس نے اسمبلیوں سے استعفوں اور لانگ مارچ کے بعد دھرنے سے انحراف کیا تو پی ڈی ایم یکدم کمزور نظر آئی پیپلز پارٹی ایسا تاثر دے رہی ہے کہ شاید اس کو وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے حوالے سے کسی جانب سے یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں اب اگر پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں پیپلز پارٹی سے کھلا اختلاف کرتی ہیں تو پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اب فی الحال تو پی ڈی ایم کسی انہونی یا غیبی امداد کی منتظر نظر آتی ہے ۔
اس اثنا میں عمران خان نے اپوزیشن پر سخت ہاتھ رکھا ہوا ہے ۔پیپلز پارٹی کا سرے محل اور دیگر کرپشن منی لانڈرنگ کے کیس دوبارہ فعال ہو رہے ہیں مطلب یہ ہے کہ ڈیل اور ڈھیل کہیں نظر نہیں آ رہی کہیں پیپلز پارٹی سراب کے پیچھے نہ دوڑ رہی ہو ایسا نہ ہو کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے کے مصداق اور خسارہ میں چلی جائے تحریک عدم اعتماد آسان بھی ہے اور مشکل بھی ہے نمبر گیم بڑی طاقتوں کیلئے بہت سہولت فراہم کرتے ہیں وہ جدھر کو چاہیں رخ موڑ دیں ایسے حالات میں پرویز خٹک کا بیان بہت معنی خیز معلوم دیتا ہے کہ چاہوں تو عمران حکومت ایک دن نہ چلےانہوں نے بعض قوتوں کو اپنی جانب نہ صرف متوجہ کیا ہے بلکہ راستہ بھی دکھلایا ہے اب راستہ دکھانے والے اور کھلاڑی بھی آئیں گے آئندہ دو تین ماہ نہ صرف ملکی سیاست کے حوالے سے اہم ہیں بلکہ ملک ریاست کے استحکام اور سسٹم کے حوالے سے بھی بے حد اہمیت کے حامل ہیں اس عرصہ میں بہت کچھ ہونے کی گنجائش موجود ہے تحریک عدم اعتماد اپنی جگہ کام دکھا سکتی ہے پھر سینٹ کے انتخابات آ رہے ہیں اس میں فریقین کے ساتھ ساتھ ان کے مددگاروں کے رویے کا بھی انداز ہو گا۔
اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کا حال اس سفر کی مانند ہے کہ نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پائوں رکاب پر باگ کسی اور کے ہاتھ میں ہے دونوں کی خرابیاں اپنی جگہ موجود ہیں پھر ضمنی انتخاب آ رہے ہیں یہ بھی ہوا کا رخ تعین کرنے میں مددگار ثابت ہونگے فارن فنڈنگ کیس ایسی دو دھاری تلوار ہے جو کسی کا بھی گلاکاٹ سکتی ہے بلکہ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ تینوں بڑی جماعتیں تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اس کی زد میں آسکتی ہیں ۔ جمعیت علمائے اسلام پر بھی الزام ہے اگر ایسا ہو گیا تو ملکی نظام اور سیاست کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا مگر اس میں انتشار و افتراق کے خطرات زیادہ ہیں پھر ساری گیم مقتدر قوتوں کے ہاتھ آ جائے گی یعنی مسلم لیگ (ن) کو اس حوالے سے زیادہ صدمہ پہنچے گا ویسے تو مسلم لیگ (ن)کا نظریہ اور موقف اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے گوجرانوالہ جلسے کے کچھ عرصہ بعد ہی ماند اور کمزور ہو گیا تھا جب اس نے اسٹیبلشمنٹ کے بجائے زیادہ ہدف عمران خان کو بنانا شروع کر دیا تھا اس میں پیپلز پارٹی کے رویے اور پالیسیوں کا بھی بہت عمل دخل رہا ہے ۔
اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ابھی اس نے ’’امید‘‘ کا دامن چھوڑا نہیں وہ سمجھتی ہے کہ اسے اسی تنخواہ پر کام کرنے کی اجازت دی جائے گی لیکن ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اسے سمجھنا ہو گا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو اس میں اس جماعت کی تباہی کے سوا اسے کچھ حاصل نہ ہو گا ایک معاملہ براڈ شیٹ کا ہے اس میں کون کون زیر عتاب آ سکتا ہے ؟فی الحال کہنا مشکل ہے لیکن ریٹائرڈ جسٹس عظمت سعید کے فیصلوں کو مسلم لیگ (ن) کبھی تسلیم نہیں کرے گی براڈ شیٹ کی انکوائری بہتر ہے کہ زیادہ منصفانہ اور شفاف انداز میں ہونا چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ ایسے بہت سے معاملات ہیں جو ملک کی سالمیت اور عوام کی فلاح کے حوالے سے زیادہ شفاف منصفانہ انداز میں تفتیش اور تحقیق کے متقاضی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کون کرے گا اس وقت وطن عزیز گرداب میں گھرا ہوا ہے حقیقت اور سچائی کا اندازہ لگانا مشکل ہے ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کےلئے سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔پی ڈی ایم اگر ناکام یا کمزور ہوتی ہے تو بھی یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ ملکی مسائل موجود نہیں حالات ابتر ہیں۔
پی ڈی ایم اگر مطلوبہ نتائج فی الحال حاصل کرنے میں کامیاب نہیں بھی ہوتی تو بھی مسائل اپنی جگہ موجود رہیں گے اب سسٹم اور حالات کو درست کرنا لازمی ہو گیا ہے یہ ملک اور سسٹم اس طرح نہیں چل سکتا پی ڈی ایم کا مطلوبہ ہدف حاصل نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سٹیٹس کو اور خرابیاں اپنی جگہ موجود رہینگی عوام کی حاکمیت اور بالادستی کا خواب اور اس کی تعبیر زیر التوا رہے گی یہ آگ جلتی رہے گی۔ سینٹ کے بعد پی ڈی ایم کو صحیح صورتحال کا ادراک ہو گا عین ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر اپنے موجودہ رویے اور پالیسی پر نظر ثانی کرے سسٹم کی اصلاح کے لئے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے جس طرح ہر جماعت اس مرحلے اور واقعات کے بعد کمزور اور قابل احتساب نظر آ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر اس ملک پر کس کی حکومت اور حاکمیت ہونی چاہئے ؟ اگر سب ہی بے وقعت اور قابل گرفت قرار پائے تو ملک کیسے چلے گا؟