اسلام آباد (انصار عباسی) سرکاری ملازمین کی ریٹائرڈ اشرافیہ (جرنیل، ججز اور وفاقی سیکریٹریز) یا پھر مختلف کیڈرز اور گروپس میں ان کے مساوی عہدوں پر کام کرنے والے سابقہ سرکاری ملازمین کو حکومت دوبارہ بھرتی کرکے انہیں ٹیکس دہندگان کی جیبوں سے بھاری اور مکمل تنخواہیں ادا کر رہی ہے جبکہ سرکاری خزانے سے انہیں پنشن الگ سے ملتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حاضر سروس جرنیل، سپریم کورٹ کے ججز بشمول چیف جسٹس پاکستان اور وفاقی سیکریٹریز کو نقصان ہو رہا ہے کیونکہ ان کے ریٹائر ہو جانے والے ساتھیوں کو مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد بھی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں۔
وفاق اور صوبوں میں ایسے کئی اہم عہدے ہیں جن پر ریٹائر ہو جانے والے ملازمین کو دوبارہ بھرتی کرکے ٹیکس دہندگان کی جیبوں سے ادائیگیاں کی جا رہی ہیں حالانکہ ملک کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ وزیراعظم کے ایک اہم مشیر سے جب رابطہ کیا گیا اور اُن سے معلوم کیا گیا کہ حکومت کی سرکاری ملازمین کی اشرافیہ پر اس دریا دلی کا سبب کیا ہے تو انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ پالیسی کے جائزے کی ضرورت ہے ا ور حکومت اس معاملے کو پے اینڈ پنشن کمیشن کو بھیج سکتی ہے۔
کئی معاملوں میں اعتراف کیا جاتا ہے کہ ایسے ریٹائر ملازمین ہیرا پھیری کرکے یا اپنے تعلقات استعمال کرکے دوبارہ بھرتی ہو جاتے ہیں۔ تجویز دی گئی ہے کہ سرکاری خزانے کو بچانے کیلئے اور ریٹائرمنٹ کے سرکاری ملازمین کی دوبارہ بھرتی ہو جانے کی جی توڑ کوششوں کے تدارک کیلئے اگر کسی ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو دوبارہ بھرتی کیا جائے تو اُسے صرف اسی عہدے کی تنخواہ دی جائے اور جب تک ریٹائرمنٹ کے بعد کی مدت ملازمت پوری نہیں ہو جاتی اُس کی پینشن روک دی جائے۔
سرکاری دستاویزات دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کو وفاق میں اہم عہدہ حاصل ہے اور وہ ماہانہ 24؍ لاکھ روپے سرکاری خزانے سے وصول کر رہے ہیں۔
اُن جیسے کئی لوگ وفاق اور صوبائی حکومتوں میں دوبارہ بھرتی کیے گئے ہیں اور انہیں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے مساوی تنخواہ دی جا رہی ہے اور ماہانہ پینشن الگ وصول کر رہے ہیں۔
بھاری تنخواہ اور بھرپور پینشن کے علاوہ، یہ ریٹائرڈ عہدیدار ریٹائرڈ سپریم کورٹ ججز کے عہدے کے ساتھ اپنے موجودہ عہدوں کی مراعات سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر وفاق میں اہم عہدے پر موجود سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کو جملہ 13؍ لاکھ 13؍ ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے جس میں 12؍ لاکھ 39؍ ہزار روپے بنیادی تنخواہ، 6؍ ہزار روپے ٹیلی فون الائونس جبکہ 68؍ ہزار روپے گھر کا کرایہ (ہائوس رینٹ) شامل ہے۔
اس کے علاوہ، انہیں پنشن کی مد میں 9؍ لاکھ 28؍ ہزار روپے ملتے ہیں جس میں 8؍ لاکھ 15؍ ہزار 133؍ روپے پنشن جبکہ 56؍ ہزار 465؍ روپے خصوصی اضافی پنشن، میڈیکل الائونس برائے پنشنر کی مد میں 45؍ ہزار 799؍ روپے جبکہ 11؍ ہزار 450؍ روپے کا میڈیکل الائونس برائے 2015ء بھی شامل ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ریٹائرڈ ججز اور ان کے اہل خانہ کو دوبارہ بھرتی کیے جانے کے بعد ان کی موجودہ ملازمتوں میں بھی طبی سہولتیں حاصل ہیں لیکن اس کے بعد بھی پنشنر کی حیثیت سے انہیں بھاری بھر کم میڈیکل الائونس ملتا ہے۔
ریٹائرڈ ججوں کو ڈرائیور کی سہولت حاصل ہے اور انہیں پیٹرول کی مد میں بھی ماہانہ رقم اور دیگر مراعات وغیرہ بھی حاصل ہیں لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ بھرتی کیے جانے پر بھی انہیں ان مراعات سے زیادہ ہی مل رہا ہے۔ انہیں سرکاری رہائش گاہ حاصل ہے اور اگر کوئی یہ سہولت حاصل نہ کرنا چاہے تو اسے ہائوس رینٹ (گھر کا کرایہ) دیا جاتا ہے۔
لیکن دونوں معاملات میں انہیں یہ حق حاصل ہے کہ گھر کی تزئین و آرائش کیلئے سرکاری خزانے سے پیسے وصول کریں اور ساتھ ہی ان گھروں کے بل (یوٹیلیٹی) بھی حکومت ہی ادا کرتی ہے۔
ٹرانسپورٹ کی مد میں ریٹائرڈ جج کو سرکاری یا نجی استمعال کیلئے 1800؍ سی سی کار بمعہ ڈرائیور اور 600؍ لٹر پٹرول ماہانہ دیا جاتا ہے اور یہ خرچہ بھی حکومت ادا کرتی ہے۔
سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو ٹیلی فون کی سہولت حاصل ہے جس کیلئے انہیں ماہانہ دو ہزار فون کالز کی سہولت حاصل ہے، ان کے گھر کا بجلی اور گیس کا بل حکومت ادا کرتی ہے، انہیں دو سو لٹر پٹرول ماہانہ دیا جاتا ہے، مفت پانی، ایک گارڈ، ایک ڈرائیور اور ایک اردلی کی سہولت حاصل ہے اور اگر وہ یہ سہولت حاصل نہ کرنا چاہیں تو انہیں ڈرائیور اور اردلی کی تنخواہ اور الائونسز کے مساوی رقم ادا کی جائے گی۔
ریٹائرڈ سیکریٹریز اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے معاملے میں دیکھیں تو اگرچہ ان کی پنشن ریٹائرڈ ججوں کے مقابلے میں کم ہے لیکن زیادہ تر کیسز میں یہ ریٹائرڈ جرنیل اور ریٹائرڈ سیکریٹریز اہم عہدوں پر نظر رکھے ہوتے ہیں تاکہ دوبارہ بھرتی ہو کر بھاری تنخواہیں بھی وصول کر سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت میں اہم ترین سرکاری اداروں جن میں ریگولیٹری اتھارٹیز، خود مختار اور نیم خود مختار ادارے، وفاقی و صوبائی پبلک سروس کمیشنز، پلاننگ کمیشنز، نیب، سی پیک اتھارٹی، ایسے کمرشل اداروں جو دفاعی شعبہ جات وغیرہ میں آتے ہیں، ان میں اکثر و بیشتر ریٹارڈ سرکاری ملازمین کو دوبارہ بھرتی کیا جاتا ہے حتیٰ کہ ایسے عہدوں کی تنخواہیں اور مراعات اس قدر شاندار کر دی جاتی ہیں جو حاضر سروس سیکریٹری یا پھر جرنیل کو ملنے والی مراعات سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔
یہ ریٹائرڈ لوگ نہ صرف اپنے حاضر سروس ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں بلکہ پنشن کے بھی مزے لیتے ہیں۔