لفظ ’’طالب ‘‘کی جمع عربی میں ’’طُلّاب ‘‘ بھی ہے اور ’’طُلَباء‘‘ بھی۔ شاگردوں یا طالب علموں (students) کے معنی میں ’’طَلَبہ‘‘ بھی مستعمل ہے۔ البتہ اردو میں جب شاگرد کے معنوں میں طالب کی جمع استعمال کی جاتی ہے تو بعض لوگ اس کا غلط تلفظ کرکے ہم جیسوں کو ذہنی خلجان میں مبتلا کردیتے ہیں۔
پہلی قباحت تو یہ ہے کہ دونوں لفظوں یعنی طلبہ (طَ ۔لَ ۔ب َ۔ ہ ) اور طلبا (طُ۔لَ۔ب۔ا۔ء) میں لام (ل)ساکن ہرگز نہیں ہے اوردونوں لفظوں میں لام پر زبر ہے لیکن اردو والے اکثر اسے ساکن پڑھ کر اس کے صَرفی وزن سے اپنی ناواقفیت کا ثبوت دیتے ہیں ۔دوسری قباحت یہ ہے کہ طلبہ میں تو طوے (ط) پر زبر ہے لیکن طُلبا ء میں طوے (ط) پر پیش ہے۔
یعنی ایک لفظ میں تلفظ کی دو غلطیاں کی جاتی ہیں اور ہم جیسے طالب علم اردو کے بعض اساتذہ کے منھ سے ’’طَلبا‘‘ (طَل با)یا ’’طُلبہ‘‘ (طُل با)سن کر سر پیٹ لیتے ہیں۔ یاد رکھیے درست تلفظ طَلَبَہ( طَ لَ بَ ہ )ہے یا طُلَباء(طُ لَ ب اء)، گویا دونوں الفاظ کے تلفظ میں لام پر زبر پڑھنا لازم ہے۔
دراصل عربی الفاظ کی جمع کے مخصوص صَرفی اوزان ہیں اور الفاظ کی جمع انہی خاص اوزان پر بنائی جاسکتی ہے۔یاد رہے کہ صرفی وزن اورعروضی وزن (جوشاعری کی بحر میں استعمال ہوتا ہے )دو مختلف باتیں ہیں اور یہاں صِرف صَرفی وزن کی بات ہورہی ہے۔ لفظ ’’طَلَبَہ‘‘دراصل ’’فَعَلَہ‘‘(فَ ۔عَ ۔ل۔َ ہ)کے وزن پر ہے اور’’طُلَباء‘‘ کا وزن ’’فُعَلاء‘‘(فُ۔ عَ۔لَ۔ا۔ء) ہے۔
دوسری بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ طالب علموں (students) کے مفہوم میں ’’طلبہ‘‘ کہنا کافی ہے کیونکہ اس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں لیکن بعض لوگوں کی اس سے تسلی نہیں ہوتی لہٰذا وہ اس کے ساتھ طالبات کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں اور’’طَلبہ و طالبات ‘‘ یا ’’طُلبا و طالبات‘‘ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں۔یہ درست ہے کہ طالب کی مونث طالِبہ (لام کے نیچے زیر) ہے اور طالِبہ کی جمع طالِبات ہے لیکن اردو میں طالِبات میں لام کے نیچے زیربالعموم نہیں پڑھاجاتا اور یہاں بھی لام کو ساکن کردیا جاتا ہے جس سے تلفظ غلط ہوجاتا ہے ۔
لگے ہاتھوں ایک اور مسئلے کا ذکر بھی کردیا جائے ۔یہ مسئلہ اردو املا سے متعلق ہے اور اس کا تعلق لفظ طُلَباء سے بھی ہے ۔ عربی میں ’’فُعَلاء‘‘ (فُ۔ عَ ۔لَ۔ا۔ء) کے وزن پر بنائے گئے الفاظ (مثلاً عُلماء، طُلباء،اُمَراء،شُعرا،اُدَبا ء، وُزَراء،سُفراء، غُرَباء، شُرَفاء، جُہلاء،رُء َساء ،وغیرہ) کے آخر میں ہمزہ (ء) لکھنا لازمی ہے کیونکہ یہ نہ صرف اس کے وزن بلکہ درست عربی تلفظ کا بھی تقاضا ہے۔ لیکن اردو میں اب ان الفاظ کے آخری جزو کا تلفظ عربی سے مختلف ہوچلا ہے اور اب کوئی بھی ان الفاظ کو اردو میں اس طرح نہیں بولتا کہ ان کے آخر میں ہمزہ (ء) کی آواز سنائی دے۔
اسی لیے کئی اہلِ علم اس بات کے حامی ہیں کہ اب ان الفاظ کے اردو املا سے بھی ہمزہ(ء) کو خارج کردینا چاہیے بلکہ اب عام طور پر اردو میں ان الفاظ کو ہمزہ کے بغیر ہی لکھا جاتا ہے۔