• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے منصوبے کی تفصیلات طلب

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان اسٹیل ملز ملازمین کی پروموشن سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے منصوبے کی تفصیلات طلب کر لیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت وفاقی وزیرِ نج کاری محمد میاں سومرو اور وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر عدالت میں پیش ہوئے۔

سپریم کورٹ نے پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے منصوبےکی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ تحریری طور پر بتایا جائے کہ پاکستان اسٹیل کے معاملے کے حل کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے۔

عدالتِ عظمیٰ نے ملازمین اور ملز انتظامیہ کے درمیان تصفیے کے لیے ایڈووکیٹ رشید اے رضوی کو ثالث مقرر کر دیا اور ہدایت کی کہ ایڈووکیٹ رشید اے رضوی پاکستان اسٹیل کے ملازمین سے بات کر کے تحریری حل پیش کریں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پاکستان اسٹیل انتظامیہ صرف سی بی اے سے مذکرات کی پابند ہے، مل بند پڑی ہے تو ملازمین کو پیسے کس بات کے دیں؟ پاکستان اسٹیل مل ملازمین نے کہا کہ مل بند پڑی ہے تو ذمے دار انتظامیہ ہے۔

محمد میاں سومرو نے عدالت سے دریافت کیا کہ کیا ہم پاکستان اسٹیل مل کی نج کاری نہ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نہیں کہہ رہے کہ نج کاری نہ کریں لیکن عدالتی فیصلہ مدِ نظر رکھیں۔

اسد عمر نے بتایا کہ بنیادی طور پر پاکستان اسٹیل مل کو لیز پر دیا جائے گا، مگر پاکستان اسٹیل کی ملکیت حکومت کے پاس ہی رہے گی۔

محمد میاں سومرو نے بتایا کہ پاکستان اسٹیل مل کے اثاثوں کی مالیت 100 ملین ڈالر ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ پھر کوئی غیر ملکی ثالثی ٹربیونل جائے اور جرمانہ ہو جائے۔

میاں محمد سومرو نے کہا کہ واجبات ادا کر کے پاکستان اسٹیل کو پرکشش بنائیں گے۔

عدالتِ عظمیٰ نے کہا کہ پاکستان اسٹیل سے متعلق جو منصوبہ ہے وہ تحریری طور پر پیش کریں۔

میاں محمد سومرو نے بتایا کہ ستمبر یا اکتوبر میں پاکستان اسٹیل کی بولی لگنے کا امکان ہے، شپ یارڈ کے لیے پیسہ چاہیئے جو نہیں ہے۔

اسد عمر نے بتایا کہ گوادر میں نیا شپ یارڈ بن رہا ہے، کراچی شپ یارڈ میں توسیع ہو رہی ہے، اسے بند نہیں کیا گیا ہے، 2008 ء میں پاکستان اسٹیل مل منافع میں تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں صنعتی انقلاب لائیں کس نے روکا ہے؟ پاکستان اسٹیل مل میں 40 تو کیا 5 افسر بھی نہیں رہنے دیں گے، ملازمین کی اصل تنظیم سی بی اے ہوتی ہے، سی بی اے کے علاوہ باقی تنظیموں کی حیثیت نہیں۔

وفاقی وزیر اسد عمر نے استدعا کی کہ کابینہ کا اجلاس جاری ہے عدالت مجھے اجازت دے۔

اسد عمر اور محمد میاں سومرو عدالتی اجازت سے کابینہ اجلاس کے لیے روانہ ہو گئے۔

چیف جسٹس نے سیکریٹری نج کاری اور سیکریٹری منصوبہ بندی کی سخت سر زنش کرتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری صاحب! آپ کو معلوم بھی ہے کہ روزانہ پاکستان اسٹیل پر کتنا خرچ ہو رہا ہے؟ آپ کو کوئی درد نہیں کہ ملک کا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟


چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اگر آپ پاکستان اسٹیل چلانے کے اہل نہیں تو کسی اور کو آنے دیں، آپ لوگوں نے تماشہ بنایا ہوا ہے، پاکستان اسٹیل مل کے ساتھ کراچی شپ یارڈ، ہیوی مکینکل کمپلیکس اور پی آئی اے سب بند پڑے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ قوم کا پیسہ بے دریغ خرچ ہونے پر کیا وجوہات دیں گے؟ آپ کے جہاز چین اور ترکی میں بن رہے ہیں، آپ کے پاس اتنا بڑا شپ یارڈ ہے، یہاں جہاز کیوں نہیں بناتے؟ پوری دنیا میں اسٹیل انڈسٹری کو عروج حاصل ہے، آپ سے مل نہیں چل رہی۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ پاکستان اسٹیل کا 400 ارب کا قرض کون اتارے گا؟ پاکستان اسٹیل پر روزانہ 20 ملین کا خرچ ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ لوگ پاکستان اسٹیل کا سارا سامان بیچ دیں گے اور فارغ ہو کر بیٹھ جائیں گے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ ملک کا پیسہ ضائع ہو رہا ہے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ افسران کو بس پروموشن کی پڑی ہوئی ہے۔

اس موقع پر سپریم کورٹ نے پاکستان اسٹیل کی نج کاری کے منصوبے کی تفصیلات طلب کر لیں اور حکم دیا کہ تحریری طور پر بتایا جائے کہ اسٹیل ملز کے معاملے کے حل کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟

عدالتِ عظمیٰ نے ملازمین اور ملز انتظامیہ کے درمیان تصفیے کے لیے ایڈووکیٹ رشید اے رضوی کو ثالث مقرر کرتے ہوئے کہا کہ ایڈووکیٹ رشید اے رضوی اسٹیل مل کے ملازمین سے بات کر کے تحریری حل پیش کریں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

تازہ ترین