• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مَیں اکثر اپنے دل کو ڈھارس دیتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں شر کے مقابلے میں خیر کا جذبہ کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ مسجدیں نمازیوں سے آباد ہیں اور رَوزے رکھنے والوں کی تعداد بھی فزوں تر ہے۔ ایک مضبوط خاندانی نظام قائم ہے جس میں باہمی احترام اور دست گیری کی روایات کشتِ حیات کو ارم بنائے رکھتی ہیں۔ پاکستان کا شمار اِن ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ خیرات دی جاتی ہے۔ اِنہی خوبیوں کے باعث اہلِ پاکستان نے کورونا وبا کا مقابلہ بڑی توانائی اور حوصلہ مندی سے کیا۔ مالی وسائل سے لدے پھندے امریکہ میں کروڑوں شہری اس عالمی وبا کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ موت کی آغوش میں جانے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے اور پورے براعظم شمالی امریکہ پر ایک دہشت اور وحشت طاری ہے۔ وہاں زیادہ تر اموات ’اولڈ ہاؤسز‘ میں ہوئی ہیں جہاں سن رسیدہ لوگ تنہائی اور بےبسی کی زندگی گزارتے اور اپنی اولاد کی محبت اورقربت سے محروم رہتے ہیں۔ مغرب میں خاندانی نظام کی شکست و ریخت نے بڑے بڑے انسانی المیے جنم دیے ہیں۔

اپنے دل کو دلاسہ دینے کے باوجود، میں بعض اوقات شدتِ غم سے نڈھال ہو جاتا ہوں کہ اَن ہونے واقعات اَور دلگداز صدمات جان ہی نہیں چھوڑتے۔ ایک اسکینڈل کا شعلہ لپکتا ہے اور دل دھک دھک کرنے لگتا ہے۔ ابھی اس کی سنسناہٹ موجود ہوتی ہے، تو ایک اور اسکینڈل کے بھالے چلنے لگتے ہیں ۔ سب سے زیادہ رنج اس کیفیت سے پہنچتا ہے کہ سیاسی قیادتوں کے مابین ایک جاں لیوا کشمکش عروج پر ہے۔ اعتماد کے رشتے ٹوٹ جانے سے ہر سُو دشت کی سی ویرانی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے جب پہلی بار بھرے مجمع میں کہا کہ عمران خان کی حکومت نے کشمیر بیچ دیا ہے، تو مجھے بڑی تکلیف ہوئی تھی۔ وہ یہ کہنے میں تو حق بجانب ہو سکتے تھے کہ حکومت کی غفلت سے مسئلۂ کشمیر ہاتھ سے نکل گیا ہے، مگر سودا کرنے کا الزام ناقابلِ برداشت تھا۔ یہی الفاظ شاہد خاقان عباسی نے بھی دہرائے جو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں اور عالمی حرکیات کا گہرا اِدراک رکھتے ہیں۔ ہمارے تمام قائدین جانتے ہیں کہ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور یہ بات قوم کے تحت الشعور میں جاگزیں ہو چکی ہے کہ کشمیر ہمارے ایمان اور ہمارے عقیدے کا ایک ناگزیر حصّہ ہے جو اس امر کا متقاضی ہے کہ اس حساس مسئلے پر بات کرتے ہوئے بڑی احتیاط سے کام لیا جائے۔

مولانا کی گفتگو سے کوئی ڈیڑھ دو سال پہلے مجھے عمران خان کی ایک تقریر سے بھی بہت زیادہ تکلیف پہنچی تھی۔ 2019ء میں نریندر مودی عام انتخابات میں مصروف تھے اور ہمارے وزیراعظم نے ان کی کامیابی کی دعا مانگی تھی کہ وہ کشمیر کا تنازع حل کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اس گفتگو سے میرا پورا وجود ہل گیا تھا اور مَیں عالمِ کرب میں پکار اُٹھا تھا یااللہ! آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ اور تاریخی شعور سے گندھے ہوئے ہمارے وزیراعظم یہ بھی نہیں جانتے کہ وزیراعلیٰ مودی نے گجرات کی ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اور پاکستان کو دولخت کرنے کے لیے مکتی باہنی میں سرگرم رہے تھے۔ وہ شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والے مودی کا تعلق ہندو توا فکر سے ہے جو بھارت کو ہندو رِیاست بنانے پر یقین رکھتی ہے اور مسلمانوں کو یا تو اپنے اندر ضم کر لینا یا اُنہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتی ہے۔ ہندو عصبیت کی آگ بھڑکا کر مودی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے اور اُنہوں نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور شملہ معاہدہ کے مندرجات کے منافی مقبوضہ کشمیر بھارت میں ضم کر لیا۔ اس وقت پاکستان کو تمام عالمی طاقتوں کے دارالحکومتوں میں اس بدترین ظلم کے خلاف پوری قوت سے آواز اُٹھانی چاہیے تھی، مگر ہمارے وزیراعظم نے فقط جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے پر اکتفا کیا اور کوئی قابلِ ذکر عملی قدم نہیں اٹھایا۔ ہمیں پوری تیاری کے ساتھ سلامتی کونسل میں سفارت کاری کے جوہر دکھانا چاہئے تھے۔

ڈیڑھ دو سال سے مقبوضہ کشمیر ایک قیدخانے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ نوجوان شہید کیے جا رہے ہیں اور نسل کشی انتہائی بھیانک انداز میں جاری ہے۔ 5 فروری کو پورے مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال ہوئی اور فوجی حصار توڑ کر وہاں کے جاں بازوں نے سری نگر کی جامع مسجد پر پاکستانی پرچم لہرایا اور شہر شہر پاکستان کی عظمت کے گیت گائے گئے۔ اِسی روز ہمارے ’دَانش مند‘ وزیراعظم نے کوٹلی میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام اقوامِ متحدہ کے زیرِاہتمام استصوابِ رائے میں پاکستان کے اندر شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو ہم انہیں خودمختار کشمیر کا آپشن بھی دے سکتے ہیں۔ گویا ملفوف الفاظ میں اُنہیں یہ پیغام دیا گیا کہ آپ کی منزل پاکستان کے بجائے ایک ’خودمختار کشمیر‘ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں یہ اعلان اِس قدر خطرناک تھا کہ دفترِ خارجہ کو اُسی شام وضاحت جاری کرنا پڑی کہ پاکستان کے اصولی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کا پابند ہے۔ ’خودمختار کشمیر‘ ایک گمراہ کُن اور ناقابلِ عمل نظریہ ہے جس کی بھارت نے کشمیری قیادت میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے حوصلہ افزائی کی تھی۔ بھلا ایک دیوہیکل بھارت کی موجودگی میں خودمختار کشمیر کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ میں نے جب اپنے وزیرِاعظم کے منہ سے یہ بات سنی، تو مجھے محسوس ہوا کہ ایک برقِ تپاں نے مجھے خاکستر کر دیا ہے۔ بھارت بڑی تیزی سے کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ 5 فروری کا یہ حادثہ مستقبل میں ایک بہت بڑے خلفشار اور انہدام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بقول شاعر؎

دریا ڈوبنے والا ہے، اپنی ہی طغیانی میں

صرف بھروسہ ہی ٹوٹا ہے، ساری کھینچا تانی میں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین