• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس کے ممتاز ناول نگار اور مصنف فیوڈور دوستو وسکی (Fyodor Dostoevsky)نے کہا تھا کہ ’’ وہ لوگ جن کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے،وہ جب اپنے ضمیر میں جھانکتے ہیں تو کانپ جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں اور اگلے ہی لمحے وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو، تم گناہگار اور بے شرم ہو‘‘۔2018کے سینیٹ انتخابات میں وسیع پیمانے پر ہونے والی ہارس ٹریڈنگ اور ’’ووٹ کے بدلے نوٹ‘‘ کی مبینہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد ملکی سیاست میں ایک بھونچال برپا ہو گیا ہے ۔ اس ویڈیو میں واضح طورپر دیکھا جا سکتا ہے کہ سینیٹ انتخابات کیلئے ارکانِ پارلیمنٹ کو بھاری رقوم دے کر ان کے ضمیروں کا سودا کیا جا رہا ہے۔آئندہ ماہ ہونے والے سینیٹ انتخابات سے کچھ روز قبل سامنے آنے والی اس ویڈیو کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔

حکومت کی جانب سے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کروانے کی تجویز سامنے آنے کے ساتھ ہی کچھ روز سے اپوزیشن اور حکومت دونوں جنگی زون میں داخل ہو چکے ہیں۔ حکومتی حلقوں کا موقف بڑا واضح ہے کہ سینیٹ انتخابات کو پیسے کی لت سے پاک کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اوپن بیلٹنگ کی حکومتی تجویز کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ اس مذموم کھیل کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کیا جا سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تین آئینی راستوں کا انتخاب کیا ہے۔ سب سے پہلے حکومت نے اس حوالے سے رائے لینے کے لئے عدالتِ عظمیٰ میں باضابطہ درخواست دائر کی کہ آیا سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ہی کروائے جا سکتے ہیں یا الیکشن ایکٹ 2017کے تحت بھی ایسا کرنا ممکن ہے۔ اسی تناظر میں قومی اسمبلی میں ایک آئینی ترمیم بھی پیش کی گئی ہے۔اس حوالے سے چونکہکوئی مثبت پیشرفت سامنے نہیں آئی اور اس دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے 11فروری کو سینیٹ انتخابات کے شیڈول کے اجراکو مدنظر رکھتے ہوئے سینیٹ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس کا اجرا کیا گیا تاہم اس آرڈیننس پر عمل درآمد کو سپریم کورٹ میں زیرالتوا درخواست سے متعلق مثبت مشورے سے مشروط کیا گیا ہے۔

اس اہم معاملے پر مثبت غور کرنے کی بجائے اپوزیشن نے حکومت کو پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا نہ کرنے اور اس کی ٹائمنگ پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ پی ڈی ایم میں شامل دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کروانے پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے جس کا ذکر دونوں جماعتوں کے درمیان طے پانے والے میثاقِ جمہوریت کے آرٹیکل 23 میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت اور فلورکراسنگ کی روک تھام کے لئے سینیٹ اور بالواسطہ نشستوں کے لئے انتخابی عمل اوپن رائے شماری کے ذریعے ہو گا‘‘۔

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جب سے عمران خان عملی سیاست میں آئے ہیں، انہوں نے سیاست کو کرپشن سے پاک کرنے کا عزم کر رکھا ہےجس کی واضح مثال 2018کے سینیٹ انتخابات تھے جس میں عمران خان نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں 20 ارکان کو پارٹی سے محض اس لئے نکال دیا تھا کہ انہوں نے پیسے لے کر ووٹ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو دیئے تھے جس کی بدولت اسمبلی میں پیپلزپارٹی اپنے صرف 3ارکان ہونے کے باوجود وہاں صوبائی اراکین اسمبلی خرید کر اپنے 2سینیٹرز بنوانے میں کامیاب رہی۔ پیسے کے لین دین کے معاملے کی وڈیوکے منظرعام آنے پر خیبرپختونخوا حکومت کے وزیرقانون و پارلیمانی امور سلطان محمد خان کا نام سامنے آیا تو حکومت نے ان سے بھی فوری استعفیٰ طلب کر لیا ۔ یوں تو عمران خان سیاست میں آنے کے ساتھ ہی کرپشن اور ہارس ٹریڈنگ جیسے ناسور کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کرتے چلے آرہے ہیں لیکن وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد اس عزم کو مزید تقویت ملی اور ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے اور انتخابی عمل کو صاف وشفاف بنانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو بات چیت کی دعوت بھی دی۔ لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی تجاویز پر مثبت رویہ اپنانے کی بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی تحریک شروع کرنے کو ترجیح دی۔مخالف سیاسی ٹولے کے اس منفی رویئے نے معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا کر رکھ دیا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم واقعی ملک میں حقیقی جمہوریت کا فروغ چاہتے ہیں تو پھر انتخابی عمل میں ووٹوں کی خریدوفروخت کی لعنت سے چھٹکارا پانے کے لئے حکومت کی مخلصانہ کاوشوں کا ساتھ دینے میں کسی بھی سیاسی جماعت کو کوئی عار محسوس نہیں ہونی چاہئے ، اس سے ہی جمہوریت مضبوط ہوگی۔ اس امر کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ آج ایک شخص سینیٹربننے کے لئے اتنی بڑی قیمت ایسے ہی ادا نہیں کر رہا بلکہ اسے معلوم ہے کہ وہ کل سینیٹر منتخب ہوکر نہ صرف ادا کی گئی رقم وصول کرے گا بلکہ اپنے اختیارات کے غلط استعمال سے لوٹ مار کا بازار بھی گرم کرے گا۔

ویسے تو سبھی ووٹ کی حرمت بحال کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن درحقیقت حزب اختلاف کے تمام سیاستدان ماضی کے کرپٹ طریقوں کے دفاع میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ووٹ کی حرمت تب ہی بحال ہو گی جب وہ خود ووٹ کو عزت دینے کا عملی مظاہرہ کریں گے۔ ملکی معاملات کو درست سمت کی جانب گامزن کرنا محض حکومت کی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر کرپشن کی لعنت کے خاتمے کے خلاف حکومتی عزم کا آج ساتھ نہ دیا گیا تو ایسی سرگرمیوں کا مستقبل میں بھی تدارک ممکن نہیں ہو گا۔

تازہ ترین