• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست کو چھوڑیں، آئیں چند اعلیٰ کتب کا مطالعہ اور ان پر تبصرہ کرتے ہیں۔

(1)پہلی اعلیٰ کتاب میرے پیارے دوست ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کی تحریر کردہ ’’مولانا گلزار احمد مظاہری۔ زندگی اور جیل کہانی‘‘ ہے۔ پراچہ بھائی سے سرگودھا میں طویل رابطہ رہا ہے میں اکثر وہاں وی سی پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری کے پاس جایا کرتا تھا۔ وہاں یونیورسٹی میں ڈاکٹر حسین احمد پراچہ صاحب سے ملاقاتیں رہتی تھیں۔ عالم ہیں اور دینی، بین الاقوامی اور قومی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فون کیا کہ ایک نہایت اعلیٰ ہستی کی ایک کتاب روانہ کررہا ہوں، آپ کی نظر و قلمِ خاص کا متمنی ہوں۔ کتاب مل گئی، بہت ہی دلچسپ اور بہت ہی اعلیٰ ہستی کی زندگی کی کہانی ہے۔ ڈاکٹر پراچہ نے مولانا گلزار احمد کے بارے میں فرمایا کہ نام ہی گلزار نہیں بلکہ طبیعت بھی باغ و بہار تھی۔ خوش گفتاری، سلیقے سے گفت و شنید کرنا، بہت نرمی و متانت سے اختلافِ رائے سننا ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ مولانا گلزار احمد تحریکِ اسلامی کے ایک مثالی کارکن تھے۔ آپ جماعت اسلامی کی مجلسِ شوریٰ کے ممبر تھے۔ ان کی سب سے بڑی خدمت جمعیت اتحاد العلما کا قیام تھا۔ آپ نے یہ کام نہایت ہی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ مولانا گلزار احمد 10فروری 1922کو مشہور شہر بھیرہ میں پیدا ہوئے اور 10ستمبر 1986کو لاہور میں انتقال فرما گئے۔

گلزار احمد صاحب کے بارے میں کئی جیّد، علما، سیاست دانوں وغیرہ نے نہایت اعلیٰ تبصرے کئے ہیں لیکن مجھے بھائی مجیب الرحمٰن کی تحریر بہت پسند آئی، وہ ان کی اجازت سے آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں: گلزار کہانی بقلم مجیب الرحمن شامی صاحب ’’یہ اس بچے کی کہانی ہے جو بھیرہ کے ایک متمول تاجر گھرانے میں پیدا ہوا لیکن دولت کے حصول کو اپنا مقصدِ حیات نہ بنایا۔ یہ اس قاری کی کہانی ہے جو بخاری کے لہجے میں قرآن سنتا اور سناتا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے سیّد مودودی کے رنگ میں قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے لگا۔ یہ اس خطیب کی کہانی ہے جو اہلِ اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگا، منصب سے ہاتھ دھونا پڑے، زنداں کے دروازے کھل گئے لیکن اس نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ یہ اس عالمِ دین کی کہانی ہے جو مسلمانوں کے مختلف مسالک اور فقہی مکاتب فکرکے درمیان پل بن گیا تھا۔ یہ اس مولوی کی کہانی ہے جو طلبہ کو جدید و قدیم علوم سے آراستہ کرنے، مسٹر اور مولوی کے درمیان فاصلہ مٹانے کی سعی کرتا رہا۔ یہ اس باپ کی کہانی ہے جس نے اپنے بچوں کے لئے اپنے آپ کو مثال بنایا۔ علم، حلم، قناعت اور کفایت کے سبق یاد کرائے۔ اب اس ’گلزار کہانی‘ کی روداد ڈاکٹر حسین احمد پراچہ جنہوں نے ڈاکٹر احمد پراچہ کے سائے میں پرورش پائی، آپ کو سنا رہے ہیں۔

(2)دوسری بہت ہی اعلیٰ معلوماتی سائنس پر مبنی کتاب میرے نہایت عزیز و قابل دوست، ملتان کے رہنے والے، ڈاکٹر عبدالرشید سیال کی تحریر کردہ ’’رَموزِ تخلیق‘‘ ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر سیال نے تمام جواب نہایت منطقی طور پر دیے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ کلامِ مجید کلام اِلٰہی ہے۔ آئیے اس پر کچھ تبصرہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے طبی شعبے میں اپنی تحقیق کا آغاز 1980کے اوائل میں کیا، اُن کی یہ ریسرچ کہ مصنوعی ریشے کا لباس انسانی اعصاب اور دل کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟ ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے، انہوں نے اس موضوع پر کئی تحقیقی مقالے لکھے جو دنیا کے مختلف ممالک میں پڑھے گئے اور متعدد سائنٹفک جرنلز میں شائع ہوئے۔ انہوں نے قرآن کریم کے سائنسی موضوعات پر تحقیق کا آغاز 9/11کے بعد اس وقت کیا جب وہ اسی دن امریکہ میں موجود تھے۔ میڈیا پر اسلام سے متعلق نفرت نے ڈاکٹر سیال کے ذہن کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ انہوں نے دعا کی کہ ’’رب العزت مجھے توفیق دے کہ میں قرآن کا پیغام مغرب تک اُن کے معیار کے مطابق سائنس اور فلسفے کی روشنی میں پیش کر سکوں‘‘۔

زیر نظر کتاب ڈاکٹر سیال کی منتخب تحاریر و تحقیقات کا اردو ایڈیشن ہے جسے ’’رموز تخلیق‘‘ کے خوبصورت اور جامع نام سے شائع کیا گیا ہے۔ رَموز تخلیق میں قرآن حکیم کو آج کے دور کے سائنسی نظریات کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور مسلم امہ کے مفکرین کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ اس مقدس کتاب کی حقانیت کو آج کے سائنسی انکشافات کے تناظر میں دیکھیں۔ آج بھی تخلیقِ کائنات کا عمل جاری و ساری ہے۔ ہماری کائنات ہر سیکنڈ میں تین لاکھ کلو میٹر کی رفتار سے پھیل رہی ہے۔ کائنات کی ان محیرالعقول وسعتوں میں ہم محض ایک تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے بلکہ جدید اور اہم سائنسی انکشافات کو ہم قرآن کی روشنی میں پرکھ کر اپنے لئے ایک سمت کا تعین کرسکتے ہیں، قرآن جو روشنی اور حکمت کا سرچشمہ ہے، ہمہ وقت ہماری رہنمائی کرسکتا ہے۔ مصنف نے اپنے وسیع مطالعے کی بدولت قارئین کو انتہائی اہم معلومات فراہم کی ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ آج کے جدید دور میں کئی سائنسی انکشافات ایسے ہیں جن کی وضاحت قرآن کی تعلیمات و معلومات کی روشنی میں ضروری ہو گئی ہے، تاکہ یہ حقیقت دورِ جدید کے سائنسدانوں پر واضح ہو جائے کہ آج وہ جن حقائق سے پردہ اٹھا رہے ہیں، کتاب الٰہی چودہ سو برس پہلے ان کا بڑی صراحت سے اظہار کر چکی ہے۔ ڈاکٹر سیال نے قرآن کریم کے مندرجات کی روشنی میں سائنس کی حقیقت نیز مختلف سائنسی موضوعات مثلاً ’’وقت‘‘، ’’تخلیق آدم‘‘، ’’تخلیق کائنات‘‘ وغیرہ پر انتہائی مؤثر اور مدلّل انداز میں گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر سیال نے دورِ جدید کے سائنسدانوں کو قرآن حکیم کے حوالے سے بعض ایسے امور کی طرف دعوتِ فکر بھی دی ہے جو اس سے پہلے نظروں سے اوجھل تھے۔ میرے نزدیک قرآن پاک پر اس طرح کا کام اس سے پہلے سامنے نہیں ہوا۔ اللہ پاک ڈاکٹر عبدالرشید سیال اور ان کے اہل و عیال کو حفظ و امان میں رکھے۔ ہر شر و وبا سے محفوظ رکھے، اور عمر دراز کرے۔ آمین

تازہ ترین