آج سےدو برس قبل 27فروری کو پاک فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کو ایسی دھول چٹائی کہ اب جب جب 27فروری آئے گا ، اُس کے زخم پھرسے ہرے ہو جائیں گے۔ پرچمِ ستارہ و ہلال کی سربلندی کے لیے پاک فضائیہ کے شاہینوں نے جس عزم و ہمّت کا مظاہرہ کیا ،وہ داستانِ جُرأت و شجاعت، تاریخِ اقوامِ عالم میں سنہری حروف سے رقم کرنے کے قابل ہے۔ اسی عہد ِ وفا کی تجدید کرتے ہوئے، 30دسمبر 2020ء کوپاک فضائیہ کے سربراہ ،ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان نے کہا’’ پاک فضائیہ مادرِ ملّت کی فضائی سرحدوں کےدفاع کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ آج جے ایف 17 بی ماڈل کے ڈبل سیٹ 14 طیارے پاک فضائیہ میں شامل کیے جارہے ہیں اور آج ہی کے روز ہم جے ایف 17 بلاک 3کی طرف بھی پیش رفت کررہے ہیں۔
ہم اس سنگِ میل کو عبور کرنے پر چین کے شکر گزار ہیں۔ جے ایف 17تھنڈر نے27 فروری 2019ء کے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ (Swift Retort)میں بھی بھارتی جارحیت کے خلاف اہم کردار ادا کیا۔‘‘ گزشتہ برس یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ بھارت دَر پردہ پاکستانی سرحدی خلاف ورزی کاڈراما رچانے کی تیاری کررہا ہے۔جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر، میجر جنرل بابر افتخار نے بھارت کو متنبّہ کیا کہ ’’بھارت کی طرف سے لاحق سیکیوریٹی خطرات کے خلاف ہم نے مکمل تیاری کی ہوئی ہے‘‘ اسی طرح ایک اور موقعے پر کہا کہ ’’بھارت 5 کے بجائے اگر500 رافیل طیارے بھی لے آئے توہم رات کی تاریکی میں کی جانے والی جارحیّت کا جواب دن میں دینے کی ہمت و جرأت رکھتے ہیں۔‘‘واضح رہے،بھارت نے26 فروری2019 ءکو رات 3 بجے پاکستانی سالمیت کے خلاف شب خون مارا۔
ایئر ڈیفینس کے ریڈارزپر بھارتی فضائیہ کے طیاروں کو چار جگہوں پر دیکھاگیا۔ جنوب میں سرکریک کی جانب، رحیم یار خان کے علاقے میں، فاضلکہ سیکٹر میں اور شمال کی طرف بالا کوٹ، آزاد کشمیر کے علاقے میں۔ آزاد کشمیر کے ایریا میں یہ کُل 20طیارے تھے، جن میں 12میراج 2000لڑاکا طیارے اور 8ایس یو 30فائٹر طیارے شامل تھے،ایک درجن طیارے اندر کی طرف آئے اور اُن میں سے چاراپنا پے لوڈ گرا کر تیزی سے دُم دبا کر بھاگ گئے، کیوں کہ پاک فضائیہ کے جہاز اُن کے تعاقب میں روانہ ہو چُکے تھے۔ مگر بھارتی فضائیہ کا رات کی تاریکی میں یہ بزدلانہ حملہ ’’جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا‘‘ کے مترادف رہاکہ اس حملے سے بنیادی ڈھانچے کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا اور نہ ہی کوئی شخص زخمی ہوا۔
انڈین ایئر مارشل ،آرجی کپور نے اُسی روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھارتی فضائیہ نے سرجیکل اسٹرائیک کے طور پر بالا کوٹ میں جیشِ محمّد کے دہشت گردوں کو تربیت فراہم کرنے والا کیمپ تباہ کردیا۔ حملے میں منصوبے کے مطابق ہر چیز تباہ کردی گئی اور300سے زیادہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔‘‘ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بے بنیاد خبر کی سختی سے تردید کی کہ ’’ کچھ بھارتی طیاروں نے بالاکوٹ کے علاقے پر حملہ ضرور کیا، لیکن جب پاک فضائیہ کے طیارے مقابلے کے لیے فضا میں بلند ہوئے توبھارتی طیارے تیزی سے واپس جاتے ہوئے اپنے پے لوڈ جنگل میں پھینک کر فرار ہوگئے۔ وہاں دہشت گردوں کاکسی بھی قسم کا کوئی کیمپ نہیں تھا، لیکن اب پاکستان جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔‘‘
اور پھر27فروری کو پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی کے بعد پاک فضائیہ کے ڈپٹی چیف آف ایئر اسٹاف (آپریشن) ایئر کموڈور ،حسیب پراچہ نے کہا کہ ’’پاک فضائیہ کی ہائی کمان کے لیے بھارتی فضائیہ کا حملہ کسی بھی طرح ناگہانی نہیں تھا، بلکہ ہم 2018ءسے اس کی توقع کررہے تھے اورہم نے ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی کی صورت میں جوابی کارروائی کی مکمل اور بھرپور تیار ی بھی کی ہوئی تھی، لہٰذا اپنے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے صرف وقت کا تعین کیا۔
دشمن نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا تھا، لیکن ہم نے دن کی روشنی میں اُسے تارے دکھائے ۔ دشمن نے پاکستان کے سول علاقے کو نشانہ بنایا، لیکن ہماری قیادت نے بھارتی سور مائوں کے ملٹری ٹارگٹس کا انتخاب کیا، کیوں کہ یہ عدو کی ملٹری قیادت تھی، جس نے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کو چیلنج کیا تھا۔ لہٰذاانتہائی احتیاط کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں6نشانے چُنے گئے، جو گیریژن علاقوں کے ڈپو وغیرہ تھے۔ 27فروری 2019 ءکو صبح 9 بجے سورج کی چمکتی سنہری روشنی میں ہمارے کچھ جے ایف تھنڈر طیارے، چند میراج طیارے اور ایئر بورن ارلی وارننگ طیارے (ERIEYE) 2000 بردوشِ ہوا ہوگئے۔
پاک فضائیہ کے تمام ہوا باز اپنے سروں پر کفن باندھے محوِ پرواز تھے،اوران طیاروں کے ریڈار کنٹرولر ،گروپ کیپٹن الیاس تھے ، جو سرحد پار کی صورتِ حال سے مسلسل آگاہ کررہے تھے۔ عمومی طور پر اس انتہائی خفیہ مشن میں نظم و نسق کے لحاظ سے خاموشی تھی، مگر جوں جوں لائن آف کنٹرول قریب آرہی تھی، سرحدی سرگرمیوں میں تیزی سے مسلسل اضافہ ہورہا تھا، ادھر ہمارے ہوا بازوں کی تیزی سے چلتی انگلیاں، بڑی سرعت کے ساتھ کاکپٹ میںمختلف میٹرز اور آلات سے محوِ گفتگو تھیں۔ ہمارے شاہینوںنے بڑے اعتماد سے اپنی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے، مقبوضہ کشمیر میں 6ٹارگٹس لاک کیے، جو سب کے سب ملٹری ٹارگٹس تھے اور ثبوت کے طور پر اُن کی ویڈیوز بھی بنائیں، جو بعد میں چیدہ چیدہ غیر ملکی مبصرین اور صحافیوں کو دکھائی گئیں۔ یاد رہے،لڑاکا طیارہ ٹارگٹس لاک کرکے اپنا ہتھیار اُس کی طرف لانچ کرتا ہے، تو پھر طیارے ہی کے ذریعے اُسے ٹریک اور گائیڈ کیا جاتا ہے ،تاکہ وہ اپنے مطلوبہ ہدف کو کام یابی کے ساتھ نشانہ بنا سکے۔
یہ تمام اہم اُمور صرف 15 سے20سیکنڈ ز میں مکمل کرنے ہوتے ہیں۔ دشمن کا کسی بھی قسم کا جانی نقصان مقصود نہیں تھا صرف متنبّہ کرنا ضروری تھا، اس لیے منصوبے کے مطابق تمام ہتھیاروں کو اصلی ملٹری ہدف سے تقریباً ایک ہزار گز دُور گرایاگیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے میراج IIIاورVسے NESCOM H-2/4 ہتھیاروںکو استعمال کیا گیا، جن کی رینج 60سے 120کلومیٹر ہےاور جو پاکستان خود تیار کررہا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایکH-2/4 کی قیمت تقریباً70 سے 80 لاکھ پاکستانی روپے ہے، جب کہ بھارتی فضائیہ نے اسرائیل سے حاصل کیے ہوئے پینٹریڑ بم 3Spice- 2000استعمال کیے،اُس ایک بم کی قیمت تقریباًنو کروڑ پاکستانی روپے ہے۔ یعنی دشمن 36 کروڑ روپے کا اسلحہ ضائع کرکے بھی اپنا مقصد حاصل نہ کرسکا،اس کے برعکس پاک فضائیہ نے بھارت کے مقابلے میں آٹھ گنا سے بھی کم خرچے میں دشمن کی صفوں پر لرزہ طاری کردیا اور عملی طور پر ثابت کردکھایا کہ پاکستان اپنے دفاع کی مکمل قوّت و صلاحیت رکھتا ہے، لیکن جنگ کے بجائے امن کا خواہاں ہے۔ ہتھیاروں کو ہدف تک گائیڈ اور ٹریک کرنے کے اہم اُمور، گروپ کیپٹن فہیم احمدخان سرانجام دے رہے تھے۔
پاکستانی ہوا بازوں کی کارروائی سے دشمن کی صفوں میں ایسا لرزہ طاری ہواکہ پریشانی کے عالم میں، دشمن نے اپنا ہیMI-17ہیلی کاپٹر مارگرایا۔ اتنے میں ہمارے شاہینوں نے اپنے جہازوں کے ریڈار پر دیکھا کہ اُن کے مقابلے کے لیے بھارتی فضائیہ کے چار چار جہازوں کی فارمیشن میں کافی طیارے آرہے ہیں۔
ریڈار گرائونڈ کنٹرولر اور ((AEW&C پلیٹ فارم بھی اس امر کی تصدیق کررہا تھا، جسے دیکھتے ہی شاہ بازوں کی عقابی نگاہوںنے اپنے اپنے طیاروں کی شناختی لائبریری سے یہ اندازاہ کرلیا کہ اُن میں سے کچھ مگ21،کچھ میراج2000 اورکچھSU-30ہیں۔واضح رہے، یہ تعداد ہمارے فائٹرز کے مقابلے میں چار گُنا زیادہ تھی۔ اس نازک موقعے پر وطن کے شاہینوں نے کمال مہارت اور ہنر مندی سے کرگسوں کا مقابلہ شروع کیا۔ یہ رزم گاہ، آزاد کشمیر کے راجوڑی سیکٹر میں سجی تھی اور اہم فضائی حربی معرکہ 15000فٹ سے 30,000 فٹ کے درمیان ہو رہا تھا۔ مدِ مقابل آنے والے بڑی تیاری سے آئے تھے اور دشمن کے اکثر طیارے BVR میزائلز سے لیس تھے۔
بیونڈ ویژول رینج میزائل وہ ہوتے ہیں، جو عمومی حدِ نگاہ سے بھی آگے یعنی 15سے 75 کلو میٹر تک اپنے طیاروں کی مخصوص خوبیوں اور صلاحیتوں کے مطابق ہدف کو شکار کرسکیں۔ اس موقعے پروِنگ کمانڈر ،نعمان نے اپنے ٹیم ممبر سے کہا کہ جو طیارہ سرحد پار کرکے ہمارے مُلک کے لیے خطرہ بنے، اُسے فوراً نشانہ بنایاجائے۔ اس دوران پاک فضائیہ کے (EW)پلیٹ فارم نے دشمن کے جہازوں کے ریڈار اور آر ٹی کو جام کرنا شروع کردیا، جس سے اُن کی پریشانی میں حد درجہ اضافہ ہوگیا۔ اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے اور انہیںاس گمبھیرصورتِ حال میں کیا کرنا چاہیے۔
اتنے میں فارمیشن لیڈر ،وِنگ کماندڑ نعمان نے بہت نپے تُلے الفاظ میں کہا کہ ’’مَیں سرحد پارکرنے والےمِگ 21کا شکار کرتا ہوں اور تم (NO-3، اسکواڈرن لیڈر ،حسن صدیقی تھے) سرحد کی خلاف ورزی کرنے والے SU-30کو ہدف بنائو ، کیوں کہ ان دونوں طیّاروں کے تیور خطرناک نظر آرہے ہیں۔‘‘ا سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی نے ،جن کا فائٹر فلائنگ تجربہ تقریباً 2500 گھنٹے کا تھا، کمال پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے SU-30 کو تاک کر ایسا میزائل مارا کہ وہ قلابازیاں کھاتا زمین بوس ہوگیا ،لیکن میزائل کا شکار ہونے کے بعد اُس کا منہ مقبوضہ کشمیر کی طرف پِھر گیا ۔
اس لیے اُس کا ملبہ سرحد کی دوسری جانب گِرا۔ وِنگ کمانڈر نعمان نے،جن کا فائٹر جہاز اُڑانے کا تجربہ تقریباً 3000 گھنٹے تھا، انتہائی سرعت کے ساتھ مِگ 21-کولاک کیا اور ساتھ ہی میزائل داغ دیا ،جو ٹھیک نشانے پر لگا۔ زمین سے لوگوں نے دیکھا کہ مِگ 21- شعلوں میں تبدیل ہونا شروع ہوگیا اور ساتھ ہی اُس کے پائلٹ نے جہاز سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی ، جب کہ جہاز کا ملبہ سرحد کی دوسری جانب گرا۔ پائلٹ نے گرتے ہی اپنے ریوالور سے فائر کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی ،مگر دلیر، بہادر کشمیریوں نے اُسے پکڑ کر مارنا شروع کردیا۔جلد ہی پاک آرمی کے ایک کیپٹن نے اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچ کر اُسے مشتعل ہجوم سے چھڑوایا اور اپنی یونٹ میں لے آئے۔ جہاں ’’عمدہ چائے ‘‘سے اُس کی تواضع کی گئی ،جسے سراہتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے قیدی، پائلٹ وِنگ کمانڈر ابھینندن نے یادگار فقرہ کہا’’Tea is fantastic‘‘۔
بہر حال،وزیرِاعظم پاکستان کی ہدایت کے مطابق ابھینندن کو یکم مارچ 2019 ءکو رہا کردیاگیا تاکہ اقوامِ عالم جان سکیں کہ پاکستان خطّے میں جنگ نہیں، امن کا خواہاں ہے۔ اس موقعے پر بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی نے یہ کہہ کر اپنی جھینپ مٹانے کی کوشش کی کہ ’’اگر ہمارے پاس رافیل ہوتے تو نتائج مختلف ہوتے۔‘‘27فروری 2019 ءکے یاد گار فضائی حربی معرکے میں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ہمارے ہوا باز اگر چاہتے تودشمن کے تین سے چار جہاز مزید بھی گرا سکتے تھے ،مگر عدو کو سبق سکھانا مقصود تھا ، لہٰذا ایسا کچھ نہ کیا گیا۔
ہم تو دنیا کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ پاکستان ایک پُرامن مُلک ہے، لہٰذا دونوں ممالک کی سیاسی لیڈر شپ کو مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کا حل تلاش کرنا چاہیے، کیوں کہ جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے۔وِنگ کمانڈر نعمان علی خان کو 14 اگست 2019 ءکے پُر مسرت موقعےپر صدرِ پاکستان کی جانب سے 27فروری 2019 ءکو بہترین فضائی معرکےپر’’ستارئہ جرأت‘‘ سے نوازا گیااور گروپ کیپٹن، فہیم احمد خان اور اسکواڈرن لیڈر، حسن محمود صدیقی کو بھی اس معرکے میں شان دار کارکردگی دکھانے پر تمغۂ جرأت دیا گیا۔؎افلاک پہ گونجا ہے مِرا نعرۂ تکبیر…محفوظ فضا میں ہے مِری حرب کی تصویر۔