غلام سرور، ملیر کینٹ ،کراچی
فیصل آباد، پا کستان کاتیسرا اور پنجاب کا دوسرا بڑا شہر ہے، اسے پاکستان کا مانچسٹر بھی کہا جاتا ہے۔ برطانوی دورِ حکومت میں جب یہ شہر مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ بسایا گیا، تو اس وقت کے گورنر، سر جیمز لائل کی خدمات کے اعتراف میں اس کا نام لائل پور رکھا گیا۔ یہ صوبہ پنجاب میں ٹیکسٹائل کے حب اور صنعتی شہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔اس کے تاریخی پس منظر کی بات کی جائے، تو اس شہر نے دنیا بھر کے فاتحین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
عظیم سارس سے لے کر سکندرِاعظم اور پھر مغلوں تک نے اسے اپنی سلطنت کاحصّہ بنایا۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1971ء تک لائل پور کی شہرت ایشیا کے ایک بڑے گائوں کے مانند تھی۔سابق صدر ایوب خان اور وزیراعظم ذو الفقار علی بھٹو کے کے ادوار میں یہاں صنعتی انقلاب آیا۔ یہ شہر ٹیکسٹائل کا حب قرار پایا۔ بعدازاں 1979ء میں اسے سعودی عرب کے فرماں روا شاہ فیصل کے نام سے موسوم کیا گیا۔
یہ شہر آٹھ ذیلی ڈسٹرکٹس، لائل پور ٹاؤن،مدینہ ٹاؤن، جناح ٹاؤن، اقبال ٹاؤن،چک جھمرہ ٹاؤن،جڑانوالہ ٹاؤن،سمندری ٹاؤن اور تاندلیانوالہ ٹاؤن پر مشتمل ہے۔یہاں کے مشہور مقامات میں گھنٹہ گھر، چناب کلب، گمٹی، قیصری دروازہ (ریل بازار)،ریکس سٹی، فیصل آباد ہاکی اسٹیڈیم،اقبال اسٹیڈیم،باغِ جناح، سرینا ہوٹل،کوہ نور ون اور ریجنٹ مال وغیرہ شامل ہیں۔شہر کے مرکزی حصّے میں آٹھ بازار بسا کر ان کے مرکز میں ایک بلند مینار تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ بلند، خوب صورت مینار فیصل آباد کی سب سے بڑی پہچان ہے، جسے گھنٹہ گھر کہا جاتاہے ۔ اس کے بالائی حصّے میں چار بڑی گھڑیاں نصب ہیں۔
فیصل آباد کا مرغ پلائو بہت مشہور ہے۔جس طرح کراچی روشنیوں ، لاہور باغوں اور سرگودھا شاہینوں کے شہر کے طور پر معروف ہیں، اسی طرح فیصل آبادبھی کپڑے کی صنعت کے حوالےسے مشہور ہے۔ یہاں کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں تیار کردہ اعلیٰ ترین کپڑا نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی پسند کیا جاتا ہے۔جس کی اس گیت میں بھرپور عکّاسی کی گئی ہے کہ؎شہراںوچوں شہر سنی دا فیصل آباد نرالا.....چار چفیرے گھنٹہ گھر تے کپڑا سب توں اعلیٰ..... مرغ پلائو وِچ دیسی گھئو تے ودھیا گرم مسالا۔ تاہم، عشروں سے فیصل آباد کی مذکورہ بالا پہچان کے برعکس اسے محض جگت بازی سے منسوب کردیا گیا ہے۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں فیصل آباد کے باسیوں کا تعلق خوا مخواہ جگت اور جگت بازی سے جوڑا جاتا ہے اور یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے فیصل آبادکے تمام باسی جگت باز ہیں۔ حتیٰ کہ مختلف ٹی وی چینلز کے پروگرامز اوراسٹیج ڈراموں میں فیصل آبادکے رکشا ڈرائیوروں سے لے کر ڈاکٹرز اور پروفیسرز تک کو جگت باز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ نیز، مختلف جگتوں پر مشتمل لطیفے چٹکلے بھی اب زیادہ تر فیصل آباداور اس کے باسیوں سے منسوب کیے جانے لگے ہیں، جو اس شہر کی تاریخی حیثیت کو بدلنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ حالاں کہ یہاں کے سادہ، محنتی اور محبت سے لبریز باسیوں کاجگت بازی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی لیے اس طرح کا گم راہ کن پروپیگنڈا شہر کے سنجیدہ حلقوں کے لیے باعثِ تشویش اور باعثِ تکلیف ہی نہیں، توہین آمیز بھی ہے۔
یاد رہے، بین الاقوامی شہرت کے حامل ڈاکٹر امجد ثاقب، معروف صداکار، ضیاء محی الدین، دنیا کی سب سے کم عمر سافٹ ویئر پروفیشنل ارفع کریم رندھاوا اور موسیقی کی دنیا میں عالمی شہرت رکھنے والے نصرت فتح علی خان کا تعلق بھی فیصل آبادہی سے ہے۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کاربرائے صفحہ ’’متفرق‘‘
٭حضرتِ انسان حاضر ہو، مقدمہ فطرت بنام انسان (امجد محمود چشتی، میاں چنوں)٭یادِ رفتگاں، پروفیسر عنایت علی خان (ڈاکٹر محمد اسلم، لطیف آباد، حیدر آباد) ٭کتب خانہ، بیت الحکمت، بغداد (حافظ محمدزوہیب حنیف، کراچی) ٭سرد موسم میں غریب خاندانوں کی داد رسی (محمد ناصر صدیقی، کراچی) ٭جنوبی امریکا (محمد دانیال حسن چغتائی، کہروڑ پکا، لودھراں) ٭اردو، ایک عہد (سیّد اشفاق الدین، کراچی) ٭انجامِ عشق (پروفیسر محمد نذیر مسکین)٭5فروری.....؟؟ (سماویہ وحید) ٭بارانی علاقوں میں پھل دار پودوں کے نئے باغات (ہارون احمد، مری روڈ، راول پنڈی) ٭ایک دن کورونا کے ساتھ (صادق نور) ٭ڈراپ شپنگ کاروبار (میاں جمشید، رحیم یار خان) ٭منشّیات کا بڑھتا ہوا رجحان (سیّد بلال حقانی) ٭پاکستانی موقف اور دنیا محمد کاشف، نیو کراچی، کراچی) ٭ترک ڈراما ارطغرل غازی (سیّد اطہر حسین نقوی)۔