• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کا وعدہ ہو گیا۔ معاشی ترقی کی نوید سنا دی گئی۔ اچھی حکمرانی کے اصول وضع کر دیے گئے۔کرپشن کو برداشت نہ کرنے کا عندیہ دے دیا گیا۔ غریب کی غربت کو ختم کرنے کی بات کر دی گئی۔ دہشتگردی کے خاتمہ اور ڈرون حملوں کے رکنے کی بھی امید دلا دی گئی ہے۔ پاکستان میں بلٹ ٹرین کے چلنے اور اس ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کا سہانا خواب بھی دکھا دیا گیا۔ مگر کوئی ہے جو اُن معاشرتی بُرائیوں کے خاتمہ کا بھی وعدہ کرے جو کینسر کی طرح ہمارے معاشرہ کے وجود کو تیزی سے کھائے جا رہی ہیں اور ہماری نسلوں کی تباہی کا سبب بن رہی ہیں ۔ کون کیا کرے گا، کون کون سے وعدے پورے ہوں گے، پاکستان ایشین ٹائیگر بنتا ہے یا نہیں یہ تو دیکھا جائے گا مگر کسی سیاستدان نے حتّٰی کہ آج کے پاکستان کی امید نواز شریف اور عمران خان نے بھی تیزی سے بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی، شراب نوشی، جسم فروشی، قماربازی و سٹے بازی وغیرہ جیسی لعنتوں کو ختم کرنے کی بات تک نہیں کی۔فحاشی و عریانیت پر میں نے بہت لکھا مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ لعنت ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بے لگام آزادی اور حکومتی اداروں باالخصوص پیمرا کی سرد مہری ہے۔ کیا نئی وقافی حکومت، صوبائی حکوتیں اور نئی اپوزیشن اس بڑھتی ہوئی بے ہودگی، اسٹیج ڈراموں کی فحاشی اور فیشن شوز کی عریانی کو روکنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے ؟؟ کیا نئی حکومت اور نئی اپوزیشن پاکستان میں انٹر نیٹ کے صاف ستھرے استعمال کے لیے فلٹریشن سسٹم لگائے گی تا کہ اس سہولت کوتعمیری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ چند سال پہلے انٹر نیٹ کے فحش استعمال میں دنیا بھر میں پاکستانی پہلے نمبر پر تھے۔
انتخابی مہم کے دوران میں نے نواز شریف ، عمران خان اور دیگر بڑے سیاست دانوں کو کبھی یہبات کرتے نہیں سنا کہ وہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی شراب نوشی کو روکنے کے لیے بھی کوئی کاروائی کریں گے۔ ویسے تو یہاں شراب پینا قانوناً جرم ہے مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ شراب تو یہاں جگہ جگہ بلا روک ٹوک بلکہ پولیس اور حکومتی سرپرستی میں بیچی جاتی ہے۔ شرابی تو اب شراب پینے پر اس قدر فخر کرنے لگے کہ سر عام اعلان کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے کہ وہ شرابی ہیں۔ شراب کی دعوتیں عام ہونے لگیں۔ آپ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں چلے جائیں تو آپ کی مرضی کی شراب ملے گی۔ اب تو حالت یہ ہے کہ عام سے ہوٹلوں ، گیسٹ ہاؤسوں میں شوق رکھنے والوں کے لیے شراب بآسانی دستیاب ہوتی ہے۔ گلی محلوں میں بھی شراب بیچی جاتی ہے اور کوئی ایکشن لینے والا نہیں۔ اور تو اور پچھلی حکومت نے اپنے گزشتہ پانچ سالوں میں شراب اور دوسری معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لیے پنجاب میں کچھ نہیں کیا۔شراب کے ساتھ ساتھ عصمت فروشی کا کاروبار اس حد تک معاشرہ میں پھیل چکا ہے کہ بس اللہ کی پناہ۔ بے غیرتی کی یہ حد ہو چکی اکثر ہوٹلوں والے چاہے بڑے ہوٹل ہوں یا چھوٹے پیسہ کمانے کے چکر میں دلال بن چکے ہیں۔ پولیس اور حکومت کو سب معلوم ہے مگریہ دھندا اس طرح جاری ہے کہ جیسے کوئی عام کاروبار ہوتا ہے۔ عام لوگ بھی خاموش ہیں کہ دوسروں کے مسئلہ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ عمومی طور پر سب اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں کیوں کہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھنے کے باوجود کچھ کر نہیں رہے۔ ہوٹلوں میں دلالی کرنے والے ہوں یا رشوتیں کھا کر خاموش رہنے والی پولیس اور حکومتی ذمہ دار یا دیکھ کر کچھ نہ بولنے والے عام شہری سب کے سب اس جرم میں شریک ہیں۔ یہ معاملہ دوسروں کی بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کی عصمتوں کی سودے بازی کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔ آج جو دوسروں کی بیٹیوں بہنوں کی عصمت فروشی میں کسی نہ کسی بھی طرح شریک ہیں، کل اُن کی اپنی بہن بیٹی ایسے معاملہ سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہے۔باقی علاقوں کو چھوڑیں راولپنڈی اسلام آباد جیسے علاقے اس گندگی میں بُری طرح متاثر ہیں مگر اس کا سدباب نہیں کیا جا رہا۔آج ہی ملنے والی ایک ای میل میں ایک شہری رونا روتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالخلافہ میں زنا جیسی لعنت بہت عام ہو چکی ہے، اسلام آباد میں کھلم کھلا اس بُرائی کا انتظام ہے، نائٹ کلبز، گیسٹ ہاؤس، ہوٹل، مساج سینٹر، بیوٹی پارلرز حتیّٰ کہ شہر کی عام شاہراہوں اور پارکوں میں بھی خاص و عام کے لیے اس ”سہولت“ کے مواقع موجود ہیں۔ اس شہری کا کہنا ہے کہ کھلے عام رات دن اس گناہ کی ترغیب دی جا رہی ہے مگر کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں۔ سب بے غیرت بن گئے ہیں، پولیس کو سب پتہ ہے مگر وہ محض اپنے حصے میں دلچسبی لیتی ہے۔ آخر میں یہ شہری سوال اُٹھاتا ہے کہ کیا اسلام کے نام پر بننے والے ملک کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری نہیں؟ یقیناً یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ مگر کاش ہم سب اس ذمہ داری کو محسوس کریں۔ کاش آنے والی نئی حکومتیں اور اپوزیشن ان معاشرتی لعنتوں کے خاتمہ کے لیے ایک ہو سکیں۔
تازہ ترین