• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں ماہ کے اوائل میں بہ راہ راست عوام کی جانب سے ٹیلی فون پر کیے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ایک موقعے پر وزیر اعظم،عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اربوں روپے کا گھی درآمد کرتا ہے۔ استعمال کے لیے سب سے بہترین تیل زیتون کا ہے۔ موجودہ حکومت ملک میں زیتون کا انقلاب لائے گی اور اسی مہینے اس کی لانچنگ کریں گے۔دریائے سندھ کے اردگرد کے علاقے اور اسلام آباد بھی زیتون کی کاشت کے لیے بہترین ہے۔ میں نے اپنے گھر میں زیتون کے پودے لگائے ہوئے ہیں، اگر ہم صرف زیتون کی کاشت پر ہی فوکس کریں تو پاکستان اربوں ڈالرز کما سکتا ہے۔

بلاشبہ یہ بہت اچھی سوچ ہے۔اس بارے میں کلام اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ اس ضمن میں بہت سی ملکی اور غیر ملکی عملی مثالیں،کام یابی کی داستانیں،تحقیقی کام اورٹھوس نتائج ہمارے سامنے موجود ہیں۔لیکن پاکستان کے تناظر میں ایسے منصوبوں کے بارے میں سب سے پہلی فکر حکمتِ عملی کے تسلسل،بھرپور توجہ،اخلاص اور لگن کے ضمن میں ہوتی ہے۔تاہم اُمّید ہے کہ موجودہ حکومت پاکستان میں زیتون کی تجارتی پیمانے پر کاشت کو فروغ دے کر ملک اور قوم کو خوش حالی کی راہ پر گام زن کردے گی۔

آئیے،اس بارے میں ماضی میں کی گئی کوششوں کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں:

یہ اکتوبر 2012کی بات ہے۔خبر آتی ہے کہ پاکستان کی مجلسِ زرعی تحقیق(ایگری کلچر ریسرچ کونسل) نے ملک کے ایسے علاقوں میں،جہاں کاموسم اور مٹی زیتون کے پودوں کی کاشت کے لیے موزوں ہے، وہاں اس کی کاشت کے لیے تین سالہ منصوبے کا آغاز کردیا ہے ۔اس وقت بتایا گیا تھا کہ اڑتیس کروڑ بیس لاکھ روپے مالیت کے اس منصوبے کے تحت ملک میں آٹھ سو ہیکٹرز رقبے پر زیتون کی کاشت کی جائے گی۔

اس میں سے تین سو ہیکٹرز رقبہ بلوچستان کا،سو ہیکٹرز خیبر پختون خوا کا،تین سو ہیکٹرز (کالعدم) فاٹا کا اور سوہیکٹرز پنجاب میں پوٹھو ہار کے علاقے کاہوگا۔پاکستان اور اٹلی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت اس منصوبے کو فنڈملے گا اور یہ سرکاری اور نجی اشتراک سے کام کرے گا۔اس میں علاقےکی برادری کی انجمنوں، غیر سرکاری تنظیموں اور کاشت کاروں کی انجمنوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔

اسی دوران یہ خوش کن خبر بھی سننے کو ملی تھی کہ حکومت پنجاب نے پوٹھوہار کے خِطّے کو’’ وادیِ زیتون ‘‘کا درجہ دے دیاہے اور حال ہی میں وہاں کاشت کاروںمیں زیتون کے پودے تقسیم کیے گئے ہیں اور ان کی تربیت کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ پنجاب ایگری کلچر اینڈ میٹ کمپنی نے اٹک، راول پنڈی ،جہلم اور خوشاب کے اضلاع میں نجی شعبے میں دس سند یافتہ نرسریز قائم کرنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔ ان کی پہنچ ستّائیس ہزار ایکڑ رقبے تک ہوگی اور زیتون کی کاشت کے لیےچار لاکھ ایکڑ رقبے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

اس وقت کی اطلاعات کے مطابق بارانی ایگری کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے موسمی حالات ،درجہ حرارت ، مٹی،اوسط شرحِ برسات اوردیگر عوامل کی بنیادپرسیال کوٹ،نارووال، گجرات،جہلم، راول پنڈی، اسلام آباد ، اٹک،چکوال اور خوشاب کو زیتون کی کاشت کے لیے مناسب قرار دیا تھا۔اسی طرح خیبر پختون خوا میں یورپی زیتون پرتحقیق و ترقی اورسنگھبٹی کےعلاقےمیں زیتون کےماڈل فارم کی دیکھ بھال کے لیے دس کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔

اب جون2016میں آجاتے ہیں۔اس مرتبہ صوبہ ہے خیبر پختون خوا۔صوبائی حکومت ایک ارب روپے مالیت کے منصوبے کے تحت صوبے میں زیتون کے درخت لگانے کا اعلان کرتی ہے۔اس وقت متعلقہ حکام کا کہنا تھاکہ اس منصوبے کے ذریعے صوبے کو اربوں روپے کے محاصل ہوں گے، وسیع بنجر اراضی زیر کاشت آجائے گی اور کسانوں کو ایک متبادل فصل مل جائے گی جو پس ماندہ علاقوں میں خوش حالی لانے میں مدد گار ثابت ہوگی۔اس وقت کے صوبائی وزیر برائے صحتِ عوام اور انجینئرنگ،شاہ فرمان نےپشاورکےعلاقوں کوہِ دامن ، بڈھ بیر،متنی اور ادے زئی میں جون کے مہینے میں اس منصوبے کا آغاز کیا تھا اور اسے جون 2018میں مکمل ہونا تھا۔

اس منصوبے کے ڈائریکٹر عبدالصمد کا کہنا تھا کہ ہر درخت سے زیتون کے کم از کم تیس کلو گرام پھل حاصل ہوں گےجس سے ہر برس پندرہ ارب روپے کے محاصل حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ منصوبہ ان زمینوں کے لیے ہے جہاں اہم فصلیں کاشت نہیں کی جاتیں۔ان کا کہنا تھاکہ زیتون کا درخت بہت سخت جان ہوتاہےجسے بہت کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے ہر جگہ حتی کہ پہاڑی علاقوں میں بھی لگایا جا سکتا ہے۔

فی الحال چترال سے ڈیرہ غازی خان تک کے علاقے کو یہ درخت لگانے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ان علاقوں میں دوبرس میں پچاس لاکھ پودے لگائے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ پودے دو شرائط پر مہیا کیے گئے ہیں۔پہلی یہ کہ جس علاقے میں انہیں لگایاجائے گاوہاں لازما باقاعدہ اور مسلسل پانی کی فراہمی کا انتظام ہو ۔ دوسری یہ کہ کسان انہیں جانوروں اور دیگر خطرات سے بچانے کی لازمی ذمے داری قبول کرے۔

پروجیکٹ ڈائریکٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس منصوبے کے نتیجے میں پاکستان میں خورنی تیل کی درآمد میں کمی آئے گی۔ان کے بہ قول (اس وقت)پاکستان میں پیٹرولیم کے بعد خورنی تیل کی درآمد دوسرے نمبر پر ہے جس کی مالیت گزشتہ برس (یعنی 2015) ایک ارب ڈالرز تھی۔ان کے بہ قول لگائے جانے والے درختوں میں چار برس بعد پھل آنا شروع ہوں گے اور تجارتی بنیاد پر پیداوار کا آغاز پانچ برس بعد ہوسکے گا۔اس طرح ملک میں خورنی تیل کی درآمد کم ہونےسےہرسال اربوں روپے کے زرمبادلہ کی بچت ہوسکے گی۔

عبدالصمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت شعبہ زراعت کے حکام نے زیتون کے جنگلی درختوں کوقلم کاری کے ذریعے پیداواری بنانے کے امکان کو بھی مد نظر رکھا ہے۔جن کاشت کاروں نے جنگلی زیتون کے درخت لگائے ہوئے ہیں ان تک پہنچ کر انہیں یہ تربیت فراہم کی جائے گی کہ کس طرح وہ انہیں پیداوار دینےکے قابل درخت بناسکتے ہیں۔اس ضمن میں انہیں ضروری مواد فراہم کیا جائے گا ۔تاہم اس منصوبے پر وزارتِ زراعت کے سیکریٹری کی منصوری کے بعد کام شروع کیا جائے گا۔

آج ان منصوبوں کو شروع ہوئےبرسوں بیت چکے ہیں۔ لیکن اس کے ملک اور متعلقہ صوبوں کی اقتصادی حالت ، متعلقہ کاشت کاروں کی زندگی ،متعلقہ علاقوں کی پس ماندگی دور ہونے اور ملک میں تیل کی درآمد کے بل پرکس قسم کے اثرات مرتب ہوئے ہیں ؟عام آدمی اور ٹیکس دینے والے ان افراد کو جن کے ٹیکس کی رقوم سے یہ منصوبے شروع کیے گئےتھے ،اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔حالاں کہ انہیں یہ معلومات فراہم کرنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمّے داریوں میں سے ایک اہم ذمّے داری ہے۔ پھر یہ کہ ایسے منصوبوں کے نتائج کے بارے میں متعلقہ ملکی اداروں کو اس نقطہ نظر سے بھی تحقیق کرنی چاہیے کہ اگر ایسا فائدہ مندمنصوبہ صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں کام یاب ہوسکتا ہے تو ملک اور قوم کی تقدیر بدل دینے والے ایسےمنصوبے دیگر صوبوں میں کیوں نہیں شروع کیے جاسکتے، بالخصوص ایسی صورت میں جب اس کا کام یاب عملی نمونہ ملک ہی میں موجود ہو۔

لیکن کیا حقیقت اتنی ہی سادہ ہے؟ آئیے ، اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

ہمارے ملک میں جنگلی زیتون کے لاکھوں درخت موجود ہیں جن پر کوئی پھل نہیں آتا یا محض بیج کی جسامت کا پھل آتا ہے۔محقّقین کے مطابق ملک بھر میں صرف گیارہ ،بارہ سو ایکڑ رقبے پر پیداوار دینے والے درخت موجود ہیں۔ان کے مطابق بے کار پڑی کُل اراضی میں سے 0.67088ملین ہی کٹرز رقبہ زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ اگر ہم اس رقبے پر بہت سست روی سے بھی زیتون کے درخت لگانا شروع کریں تو ہمیں کم از کم مطلوبہ تعداد میں بھی پودے دست یاب نہیں ہوں گے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کام کے لیے ہمارے ہا نرسریز موجود نہیں ہیں۔اٹلی میں چوں کہ معیار کے مطابق نرسریز قایم ہیں لہذا وہ سالانہ زیتون کےلاکھوں پودے تیار کرتا ہے۔ترکی میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔اگر ہمیں ملک میں زیتون کی کاشت کو فروغ دیناہے تو سب سےپہلے ملک میں معیاری نرسریزقایم کرناہوں گی، ٹشو کلچر ٹیکنالوجی بہ روئے کار لانا ہوگی اور جرم پلازم یونٹس کھولنا ہوں گے۔

زیتون کے پودے کونپلوںکےذریعے اگائے جاتے ہیں، جنگلی پودوں میں قلم کاری کی جاتی ہے یا پھر نئے پودے لگائے جاتے ہیں۔تاہم کاشت کاروں کے نزدیک قلم کاری بہت زیادہ کام یاب طریقہ ہے۔بیجوں سے اگائےگئے پودے بالغ ہونے میں کافی وقت لیتے ہیں۔جنگلی زیتوں میں قلم کاری کرکے اسے پیدواری بنانے کا طریقہ سب سے موزوں گردانا جاتا ہے۔تحقیق بتاتی ہے کہ اگست سے ستمبر کے درمیانی عرصے میں ٹی بڈ قلم کاری کی تیکنیک سے پودے اگانے میں کام یابی کی شرح اسّی تا نوّے فی صد ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ زیتون کے درخت کی عمر ہزاربرس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ایسے علاقے جو سطحِ سمندر سے چار تا سترہ سو میٹرز کی بلندی پر ہوں،بیس ڈگری ڈھلواں ہوں ،وہاں بارش کا سالانہ اوسط ڈھائی سو تا ہزار ملی میٹرز ہو،گرم اور نیم خشک ہوں اور جہاں موسمِ سرما میں بھی بارش ہوتی ہو،وہ زیتون کی کاشت کےلیے نہایت موزوں ہوتے ہیں۔یاد رہے کہ زیتون کی پیداوار کا انحصاربارش اور درجہ حرارت پر ہوتا ہے۔

خونہ یا جنگلی زیتون

زتیون کے مختلف اقسام کے درخت ہوتے ہیں جن میں سے ایک قسم جنگلی زیتون کی ہے۔یہ پاکستان کا مقامی اور خوردرو درخت ہے۔جنگلی زیتون کا درخت خونہ کہلاتا ہے۔ اسے خیبر پختون خواکے اکثرعلاقوں میں خونہ ، جنوبی اضلاع میں خن، پنجاب اور کشمیر میں کہو اور بلوچستان میں ہث یا حث کہا جاتا ہے۔پاکستان کے چاروں صوبوں میں کئی گاؤں اور دیہات ایسے پائے جاتے ہیں جن کے نام ہی کہو کے نام پر ہیں، جیسے کہو دی قلعہ، کہو دا بانڈہ ہیں۔ اسی طرح ایبٹ آبادکے علاقے بکوٹ میں مشہور گاؤں کہو شرقی، مری سے اسلام آباد کے راستے پر آباد بارہ کہو بھی اسی درخت کے نام سے جانے جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ان جگہوں کے یہ نام کہوکے بہت زیادہ درختوں کی وجہ سے رکھے گئے۔

یہ ملک کے چاروں صوبوں، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں یہ بہ کثرت موجود ہے۔اس کا ہر علاقے میں الگ مقامی نام ہے۔ جنگلی زیتون کی جڑ اور لکڑی بڑی مضبوط ہوتی ہے اور یہ پاکستان کے ماحولیاتی نظام سے مکمل موافقت رکھتا ہے ۔

ماہرین کے مطابق جنگلی زیتون کو کوئی بڑا ماحولیاتی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ ان کے مطابق یہ سرد و گرم موسموں کا درخت ہے جو موسمی شدت اور سختی برداشت کر لیتا ہے۔ بلوچستان کے صفر اعشاریہ دو فی صد رقبے پر جنگلی زیتون کے تاریخی اور پرانے جنگلات اور درخت ہیں، جو مقامی آبادیوں کی کئی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ان میں مال مویشیوں کا چارہ بھی شامل ہے۔اس وقت جنگلی زیتون کو مقامی آبادی کی جانب سے اس کی لکڑی کو بہ طور ایندھن استعمال کرنے کی وجہ سے بڑے خطرات لاحق ہیں، کیوںکہ مقامی طور پر لوگوں کے پاس متبادل ایندھن کی سہولت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ جنگلی زیتون کی لکڑی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔بلوچستان کے علاوہ ملک کے دیگر غریب اورپہاڑی علاقوں میں بھی جنگلی زیتون کی لکڑی ایندھن کےطورپر استعمال کیے جانے کی روایت موجودہے، جس پر قابو پانے کے لیے مقامی آبادی میں شعور پیدا کرنا ہو گا۔

پیوند کاری

جس طرح آم کے پودے میںپیوند کاری کرکے بہتر نتائج حاصل کیے جاتے ہیں، اسی طرح جنگلی زیتون میں اچھے زیتون کی سادہ سے طریقے سے پیوند یا قلم کاری کرنے سے 'حیرت انگیزنتائج حاصل ہوئے ہیں۔اس کا کوئی مشکل اورلمبا چوڑا طریقہ نہیں ہے۔جنگلی زیتون کے کسی درخت پر کچھ اچھی شاخوں کا انتخاب کر کے انہیں آری سے کاٹ کر چھال پر دو کٹ لگادیے جائیں جو بالکل آمنے سامنے ہوں۔ کاٹے گئے تنے کی موٹائی کے لحاظ سے قلم کا انتخاب کیا جائے۔قلم کو تراش کرتنے کی چھال میںپیوست کرکے پلاسٹک سے اچھی طرح باندھ دیاجائے۔دونوں قلموں کو بھی اچھی طرح پلاسٹک سے ڈھانپ کر باندھ دیا جائے۔

قلم کاری کے بعد ان درختون کو پانی اور کھاد دینا ضروری ہوتا ہے۔جنگلی زیتون کو تو کسی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی مگر جب اسے اچھے زیتون میں تبدیل کیاجاتا ہے توپھر ان درختوں کواسی طرح دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح کسی پھل کے باغ کو دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے۔اگر جنگلی زیتون پر قلم کاری کام یاب ہو جائے تو تین سے چار ہفتوں میں پیوند کی گئیں ٹہنیوں پر کونپلیں پھوٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔ عموما زیتون کا درخت چار سے پانچ سال میں پھل دینا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن پیوند کاری سے یہ وقت کم کیا جاسکتا ہے۔ ایک اچھے درخت سے چالیس تا ایک سو بیس کلو گرام زیتون کا پھل سالانہ حاصل کیا جاتاہے۔

کچھ تو بدلا ہے

پاکستان میں زیتون کی کاشت تقریباً تین دہائی قبل اس وقت شروع ہوئی جب پاکستان آئل ڈیولپمنٹ بورڈ نے 1996-97 میں اس پر کام شروع کیا۔ابتدا میں اس منصوبے کے تحت جنگلی زیتون میں پیوند کاری کی گئی کیوں کہ یہ قسم صرف پہاڑی اور کھردری سطح زمین پر کام یاب ہے۔ہزارہ ڈویژن میں لاکھوں کی تعداد میں جنگلی زیتون کے درخت پائے جاتے ہیں۔

ترکی اور اٹلی سے آنے والی زیتون کی قسمیں پاکستان کی آب و ہوا کے لیے نہ صرف موزوں ہیں بلکہ ان سے تیل کی پیداوار میں بھی بہتری آئی ہے۔لیکن سرکاری سطح پر وسیع پیمانے پراس ضمن میں2010کے بعد ہی کچھ ہوتا نظر آیا۔تاہم ہماری حکومتوں کے جاگنے اور سرکاری منصوبےبننےسے پہلے ہی بعض افراد اپنی مدد آپ کے تحت زیتون کی قلم کاری اور کاشت شروع کرچکے تھے ۔ ان کی کام یابی کی داستان پڑھنے اورسننے سے تعلق رکھتی ہے ۔

ایسے ہی ایک فرد دیرکے رہایشی، محمد اسرار ہیں جنہوں نے نے برسوں قبل زیتون کی قلم کاری اور کاشت کے میدان میں ڈرتے ڈرتےقدم رکھا تھا۔لیکن آج وہ اس فیصلے پر بہت خوش ہیں۔ وہ پہلے ملازمت کرتے تھے۔2004میں ان کی ملاقات اٹلی کے ماہرِ زراعت، رافیل ڈیل سیما سے ہوئی، جو اس وقت پاکستان میں زیتون کی کاشت کو فروغ دینے کے مشن پر تھے۔

رافیل نے ان سے کہا کہ تمہارے علاقے (ضلع دیر) میں خونہ (جنگلی زیتون) کے لاکھوں درخت ہیں جو بہت بڑی دولت ہے۔ ان پر اٹلی سے لائے گے اچھے زیتون کے درختوں سے تیار کردہ قلموں کی قلم کاری کر کے زیتون کی دولت حاصل کی جا سکتی ہے۔اس وقت ان کی اپنی زمین پر بھی خونہ کے کئی ہزار درخت تھے، مگر اچھی نوکری چھوڑ کر کُل وقتی بنیادپر یہ کام کرنے کا مشورہ قبول کرنا آسان نہ تھا۔تاہم وہ ایسا کرنے پر راضی ہو گئے۔

اسرار نے 2005میں رافیل ڈیل سیما اور زراعت سے منسلک سرکاری اہل کاروں سے تربیت حاصل کی۔ کئی درختوں پر قلم کاری کی گئی۔ تین ہفتوں کے اندر ہی ان درختوں پر کونپلیں پھوٹ آئیں۔2009میں کئی سو درخت مختلف اوربہترین اقسام کے زیتون کے پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ مگرانہیں اب بھی پتا نہیں تھا کہ پھل تو آ چکا ہے، اب اس کا کرنا کیا ہے۔

محمد اسرارکے بہ قول ابتدائی مشکلات کے بعد اب وہ نہ صرف اس سے تیل حاصل کرتےہیں بلکہ دیگر اشیا، جن میں مربہ، اچار، زیتون کے پتوں کا قہوہ وغیرہ شامل ہے، بھی تیار کر کے بازار میں فروخت کرتے ہیں۔ آج ان کی آبائی زمین پر ایک لاکھ سے زاید زیتون کے درخت موجود ہیں، جن میں سےبائیس ہزار پھل دے رہے ہیں۔ ان کے خاندان کےپچّیس افراداس میں حصّے دار ہیں اور ہر حصّے دار کو سالانہ کم ازکم دس تا بیس لاکھ روپے مل رہے ہیں۔

اب محمد اسرار اور ان کے خاندان کے افراد نہ صرف اعلیٰ معیارکے زیتون کے تیل کی پیکنگ کر رہے ہیں بلکہ زیتون کے پتوں کا قہوہ تیار کر کے اسے بھی بازار میں فروخت کرتے ہیں۔محمد اسرارکے مطابق انہیں زیتون کی مصنوعات بازار میں فروخت کرنے کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی،بلکہ زیادہ تر خریداریہ مصنوعات خریدنے کے لیے خود ہی ان سے رابطہ کرتے ہیں۔

اس وقت پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا میں ایبٹ آباد، مانسہرہ (شنکیاری) ،پشاور، سنگھبٹی اور نوشہرہ (ترناب فارم) میں بھی کسانوں کے لیے بعض سہولتیں دست یاب ہے۔ چکوال سمیت پنجاب کے متعدد علاقوں میں بھی زیتون کی پیداوار ہو رہی ہے۔ چکوال میں حکومت کا زیتون کا ایک ماڈل فارم بھی ہے۔ وہاں قائم تحقیقی مرکز میں زیتون کی مختلف اقسام پر 1991سے تحقیق جا رہی ہے۔ موسمِ سرما کے سیزن میں نومبر کے اختتام تک ایبٹ آباد میں پانچ ٹن سے زیادہ وزن کے زیتون کے پھلوں سے تیل نکالا جا چکا تھا۔

ماہرین کے مطابق دو برس سےزیتون کی کاشت میں زمیں داروں کی دل چسپی بڑھ گئی ہے۔تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ زیتون کاشت کرنے والوں کو ایسے آلات بھی مہیا کیے جائیں جن سے وہ زیتون کے پھل کی محفوظ طریقے سے چنائی کر سکیں، کیوں کہاس کا پھل سائز میں چھوٹا ہوتا ہے اور اسے اس طرح چنناکہ درخت اور پھل کو نقصان نہ پہنچے بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق ملک میں زیتون کی پیداوار بڑھانے سے متعلق سب سے اہم بات حکومت کا عزم ہے جس سے پاکستان اس منصوبے میں کام یاب ہو سکتا ہے۔

دراصل صرف اسرار ہی نہیں بلکہ اس وقت پاکستان میںسیکڑوں ایسے کاشت کار ہیں جو اپنی گھریلو، معاشی اور ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیتون کی کاشت کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ ترکاشت کار جنگلی زیتون میں قلم کاری سے پیداوارحاصل کر رہے ہیں۔

منزل بہت دُور ہے

بلاشبہ پاکستان میں اس کی کاشت کو فروغ دینے اوراس سے بہتر پیداوار حاصل کرنے کے ضمن میں سب سے زیادہ اور بہتر کام صوبہ پنجاب میں ہوا۔اس کے بعد چند برسوں سے صوبہ خیبر پختون خوا میں اس ضمن میں کام ہوا ہے،لیکن اس کا دائرہ کچھ عرصہ قبل ہی ملین اولیو ٹری سونامی،نامی منصوبے کے ذریعے وسیع ہوا ہے۔

صوبہ پنجاب میںجولائی 2017تک صرف پوٹھوہار کے خِطّے میں تین ہزار ایک سو چھیاسٹھ ایکڑ رقبے پر اس کی کاشت کی جاچکی تھی اور اس وقت کی صوبائی حکومت نے پانچ سالہ منصوبے کے تحت یہ کاشت پندرہ ہزار ایکڑ رقبے تک وسیع کرنی تھی جس کے لیے بیس لاکھ سے زاید درخت لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔یہ اولیو ویلی پروجیکٹ تھا۔

اسی منصوبے کے تحت زیتون کا تیل نکالنے کے لیے پلانٹ بھی لگایا گیا تھا۔وہاں اس منصوبے کو کام یاب بنانے کے ضمن میں ایک اہم کام یہ کیا گیا تھا کہ صوبے کے سرکاری شعبے سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے پوری دنیا میں پائی جانے والی زیتون کی باون اقسام کے پودے منگوائے تھے۔انہیںہسپانیہ، اطالیہ ، ترکی ، تیونس ، فلسطین،شام،اور اردن سے 2016میںدرآمد کیا گیا تھا۔

ماضی کی حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی ان کوششوں کےنتیجے میں اکتوبر 2020میں پاکستان اس مقام پر پہنچ گیا تھا کہ ملک میں زیتون کی تجارتی پیمانے پر کاشت کے لیے شروع کیےگئے منصوبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد طارق نے ذرایع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ اس سیزن میں ملک میں زیتون کی پیداوار گیارہ ہزار ٹن سے زاید ہونے اور تیرہ ہزار ٹن ایکسٹرا ورجن تیل پیدا ہونے کی امید ہے۔ یاد رہے کہ یہ مرحلہ کم از کم پانچ برس بعد آتا ہے۔

ہمارے ملک میں زیتون کے تیل کی مانگ اکّیس تا پحّیس لاکھ ٹن بتائی جاتی ہے جس میں سے تقریبا ساٹھ فی صد مقدار مختلف ممالک سے درآمد کی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک کی بارانی بیلٹ تقریبا اکّتیس لاکھ ہیکٹرز رقبے پر محیط ہےجو زیتون کی کاشت کے لیے بہت موزوں علاقہ ہے۔یاد رہے کہ یہ ہسپانیہ کی زیتون کی کاشت والے علاقے سے تینتیس فی صد زیادہ رقبہ ہے ۔وہاں بیس لاکھ ہیکٹرز پر اس کی کاشت کی گئی ہےجس کی وجہ سے یہ ملک زیتون کی پیداوار میں دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ان اعدادوشمارسےاندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ پاکستان اس شعبے میں کتنا آگے جاسکتا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ہمارے پس ماندہ پڑوسی ملک افغانستان میں بھی زیتون کی کاشت میں کافی پیش رفت ہوئی ہے اور وہاں صوبہ ننگر ہار میں اس کی پیداوار بڑھ رہی ہے۔2017میں وہاں اس کی بمپر پیداوار ہوئی تھی۔اس سے قبل وہاں بارہ سو ٹن پیداوار ہوئی تھی ۔ وہاں ایسا ننگر ہار کینال پروجیکٹ کی وجہ سے ممکن ہوا ۔ یہ نہرصوبے کے پانچ اضلاع سے گزرتی ہے، بہتّر کلومیٹرز طویل ہے اور اڑتیس ہزار ہیکڑزرقبے کو سیراب کرتی ہے ۔اس میں سے دس ہزار ہیکٹرز رقبے پر زیتون کی کاشت کی گئی ہے۔

تازہ ترین