اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ میں وفاقی حکومت کی جانب سے ’’سینیٹ کے انتخابات کے لئے کھلے عام رائے شماری کا طریقہ کار رائج کرنے‘‘ کے حوالے سے ذیلی قانون سازی سے متعلق قانونی و آئینی رائے کے حصول کیلئے دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم پارلیمان کا متبادل نہیں۔
ن کا اختیار نہیں لینگے، سیکرٹ بیلٹ سے متعلق معاملات پارلیمنٹ پر چھوڑے گئے ہیں، ان کا فیصلہ پارلیمنٹ نے ہی کرنا ہوتا ہے، آئین کہتا ہے کہ ووٹنگ خفیہ تو بات ختم ہوگئی، ہر ادارے کو اپنا کام حدودمیں رہ کر کرنا ہے،تاہم یہ ریفرنس ہمارے سامنے آچکا ہے اسلئے اس پر ہر صورت میں اپنی رائے دینگے۔
ہمارے سامنے تین قسم کی صورتحال (اول )کیا آرٹیکل 226 کا سینیٹ انتخابات پر اطلاق ہوتا یا نہیں؟ (دوئم) کیا متناسب نمائندگی سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کے ذریعے ہو سکتی ہے؟ (سوئم)کیا آئین کے تحت ہونے والے انتخابات خفیہ ہوتے ہیں؟
جمہوریت میں فیصلے پارٹی کرتی ہے قیادت نہیں، قانون میں کبھی خلاء نہیں آتا، کوئی قانون ختم ہو تو اس سے پہلے والا بحال ہو جاتا ہے، رضا ربانی نے کہا کہ کسی کو ووٹ ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ حکومت نے ریفرنس قانون کی تشریح کیلئے نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کیلئے دائر کیا۔
بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ حکومت عدلیہ سے کھلواڑ کر رہی ہے۔ مقدمے کی سماعت آج دوبارہ ہوگئی۔ سینیٹ میں اوپن بیلٹ سے متعلق معاملے کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آئین میں پارٹیوں کا ذکر ہے، شخصیات کا نہیں، ریفرنس ہمارے سامنے آچکا ہے اسلئے اس پر ہرصورت میں اپنی رائے دینگے،ہمارے سامنے 3 صورتحال ہیں، کیا آرٹیکل 226 کا سینیٹ انتخابات پر اطلاق ہوتا یا نہیں؟کیا متناسب نمائندگی سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کے ذریعے ہو سکتی ہے؟
کیا آئین کے تحت ہونے والے انتخابات خفیہ ہوتے ہیں؟ انہوںنے ریمارکس دئیے کہ خفیہ بیلٹ سے متعلق معاملات پارلیمنٹ پر چھوڑے گئے ہیں اور اس کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہوتا ہے، ہم پارلیمنٹ نہیں اور نہ ہی اسکے دائرہ اختیار کو محدود کر سکتے ہیں۔
جمہوریت میں پارٹی قیادت کا کوئی کردار نہیں ہوتا جمہوریت میں فیصلے پارٹی کرتی ہے قیادت نہیں،کوئی اوپر سے اپنے فیصلے لاکر نافذ نہیں کر سکتا،پارٹیوں کے فیصلے بھی جمہوری انداز میں ہونے چاہئیں۔
پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ یہاں ایوان زیریں میں ووٹنگ کی مثالیں دی گئیں، عدالت کے سامنے معاملہ ایوان زیریں کا نہیں بلکہ ایوان بالا کا ہے، خفیہ ووٹ ووٹر کا اپنا راز ہے اور ووٹر اپنا راز کسی اور ووٹر سے تو شیئر کر سکتا ہے ریاست سے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ووٹ قابلِ شناخت بنا دیا جائے تو یہ راز صرف ووٹر کا راز نہیں رہے گا، اگر عدالت اوپن بیلٹ کے نتیجے پر پہنچتی ہے تو موجودہ الیکشن ایک عارضی قانون کے تحت ہوگا۔
رضا ربانی نے کہا کہ یہ عارضی قانون ایک آرڈیننس کی صورت میں پہلے سے موجود ہے اور آرڈیننس کی مدت 120 دن ہوتی ہے جبکہ میں یہاں آرڈیننس کی نہیں بلکہ آئینی شق کی بات کر رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں متناسب نمائندگی سیاسی پارٹیوں کی ہوتی ہے اور سینٹ میں متناسب نمائندگی صوبوں کی ہوتی ہے۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آپ کی دلیل صرف قومی اسمبلی کے چناؤ کیلئے کارگر ہے، قومی اسمبلی کا ووٹ فری ہوتا ہے،فری ووٹ کا مطلب ووٹر کی آزادی ہے ، سینٹ کے ووٹ کیلئےفری نہیں کہا گیا، اس لیے اس کا خفیہ ہونا ضروری نہیں۔
انہوں نے ریمارکس دئیے کہ متناسب نمائندگی کے تصور کو رکھیں تو پھر ووٹ کو خفیہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں، اگر پارلیمنٹ قانون سازی کر دے کہ الیکشن اوپن بیلٹ سے ہوگا تو کیا آپ اسے درست سمجھیں گے؟
آئین میں استعمال شدہ لفظ ’’الیکشن‘‘ کو غلط نہ کہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے سوال جواب نہیں د یا، کیا ہر ایم پی اے ووٹ دینے کیلئے آزاد ہوتا ہے؟ کیا بین الاقوامی معاہدے سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ کے ذریعے کروانے کا کہتے ہیں؟
سپریم کورٹ کسی بین الاقوامی معاہدے کی حامی نہیں، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دئیے کہ اگر پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون بنائے جو آئین سے متصادم ہو تو یہ عدالت اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے، یہ عدالت ماضی میں ایسے قوانین کالعدم کر چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 226 کی ذیلی شق کے تحت کسی ووٹر کو کسی بھی صورت میں بیلٹ اوپن کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، یہ عدالت مشاورتی اختیار کے تحت ریفرنس سن رہی ہے اور عدالت نے اس کا جواب سیاسی طور پر نہیں قانون کے مطابق دینا ہے۔
حکومت نے یہ ریفرنس قانون کی تشریح نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کیلئےدائر کیا ہے۔وکیل (ن) لیگ بیرسٹر ظفر اللہ نے دلائل دیئے کہ پاکستان کئی بین الاقوامی معاہدوں کا حصہ ہے اور الیکشن ایکٹ کی تیاری کے دوران خفیہ ووٹنگ پر بحث ہوئی تھی۔
تحریک انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت نے اس وقت خفیہ ووٹنگ کی حمایت کی تھی اور سینیٹ الیکشن کے بعد صوبائی اسمبلیاں تحلیل بھی ہو سکتی ہیں۔ سینیٹ انتخابات سے متعلق صدر کا ریفرنس غیرقانونی ہے کیونکہ حکومت عدلیہ سے کھلواڑ کر رہی ہے۔
بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے یہ نہیں بتایا کہ قانون کیا ہے بلکہ یہ کہتے رہے کہ قانون کیا ہونا چاہیے۔ جے یو آئی( ف) کے وکیل جہانگیرجدون نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ امریکی عدالت کے 1871ء کے فیصلے کے مطابق ووٹر کا حق ہے کہ اسکاووٹ کوئی نہ دیکھ سکے۔
دو چار لوگوں کی وجہ سے سب کے ووٹ اوپن نہیں کئے جاسکتے جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ آپ تو عدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں ،عدالتی فیصلے سے پہلے متعلقہ قانون کا حوالہ دیاجاتا ہے ،کیا ہم امریکی عدالتوں کے پابندہیں؟ بعد ازاں عدالت کا وقت ختم ہوجانے کی بناء پر سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی ،آج پاکستان بار کونسل اور جے یو آئی( ف) کے وکلاء دلائل دینگے۔