• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی شیرینگل اپر دیر میں سنگین بے ضاقاعدگیوں کا انکشاف

پشاور(ارشد عزیز ملک ) گورنر انسپکشن ٹیم نےشہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی شیرینگل اپر دیر میں سنگین بے ضابطگیوں کا سراغ لگایا ہے ، وی سی کا تبصرے سے انکار ۔ اسسٹنٹ پروفیسرسوشیالوجی کو لاء ڈپارٹمنٹ کا ایچ او ڈی بنادیا، انسپکشن ٹیم نے اپنی رپورٹ گورنر خیبرپختونخوا کو پیش کردی ہےجو یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں ۔ انکوائری رپورٹ میںموجودہ وائس چانسلر رحمت علی کو اقربا پروری کا ذمہ دار قراردیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کرگئی ہے ۔رپورٹ کے مطابق وی سی نے میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے قریبی رشتہ داروں بیٹی اور بھتیجے کو مختلف عہدوں پر بھرتی کیا ۔ڈیلی ویجز پر بھرتی ڈپٹی ڈائریکٹر سیکورٹی / ایڈمن کو غیر قانونی طور پر پانچ مختلف اضافی عہدوں کا چارج اورالاؤنسز دئیے گئے ۔ حیران کن طورپرڈائریکٹر انٹرنل آڈٹ کو خزانچی کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ یونیورسٹی کا قانونی مشیر ایک اسٹور کا سپرنٹنڈنٹ نکلا ۔جی آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں مالی اور انتظامی کوتاہی کی نشاندہی بھی کی گئی ہے ۔جنگ کے پاس موجود رپورٹ کے مطابق قومی احتساب بیورو خیبرپختونخوا نے وائس چانسلر کے خلاف مختلف شکایات مزید تحقیقات کے لئے گورنر خیبرپختونخوا کو بھجوائیں۔گورنر شاہ فرمان نے گورنر انسپکشن ٹیم کو کیس کی مزید تحقیقات کرنے کی ہدایت کی ۔جی آئی ٹی نے 22 الزمات کی تفتیش کی ہے اور 13 میں بے قاعدگیاں ثابت ہوئیں جبکہ باقی الزامات ثابت نہ ہو سکے۔ تاہم رابطہ کرنے پر وائس چانسلر رحمت علی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بے بنیاد قرار دیا لیکن انکوائری رپورٹ پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔انکوائری رپورٹ کے مطابق وائس چانسلر رحمت علی نے اپنی دو بیٹیوںشائستہ اور نیلم کو بھرتی کیا جس میں ایک کی بھرتی قانون کے مطابق جبکہ دوسری غیرقانونی نکلی ۔وائس چانسلر نے اپنی بیٹی نیلم کو اسسٹنٹ جونیئرمسٹریس مقرر کیا تھاحالانکہ ان کے پاس عہدے کے مطابق اہلیت نہیں تھی۔ ان کے پاس سی ٹی / پی ٹی سی کی کوئی سند نہیں تھی جو اس عہدے کے لئے ایک لازمی شرط ہے۔رپورٹ کے مطابق نیلم کی تقرری غیرقانونی تھی جس سے وائس چانسلر اور سلیکشن کمیٹی کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے ۔یونیورسٹی انتظامیہ نےقواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر کسی اسکریننگ ٹیسٹ کے مرد نرسز کی دو آسامیوں کے لئے انٹرویو لیااور وائس چانسلر کے بھتیجے آفتاب علی کو مرد نرس ​​کی حیثیت سےبھرتی کرلیا۔وائس چانسلر قواعد کے تحت 1800 سی سی کی کار کےحقدار تھے لیکن سابق وی سی نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2800 سی سی کی ٹویوٹا فارچیونر گاڑی خریدی۔رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ ایچ ای سی سے این او سی کے بغیر کمپیوٹر سائنس ، جیولوجی ااور مینجمنٹ سائنسز کی کلاسز کے لئے داخلوں کو مشتہیر کیاگیا۔ڈائریکٹر انٹرنل آڈٹ محمد ادریس کو خزانچی کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیںحالانکہ ڈائریکٹر انٹرنل آڈٹ یونیورسٹی کے خزانچی کے اخراجات کا آڈٹ کرتا ہے۔رپورٹ کے مطابق جب دونوں عہدے ایک ہی افسر چلائے تو شفافیت برقرار نہیں رکھی جاسکتی اور بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔ معائنہ کرنے والی ٹیم نے اس کے دور کے آڈٹ کی سفارش کی۔علاوہ ازیں یونیورسٹی کا قانونی مشیر ایک سٹور سپرنٹنڈنٹ نکلا جوخلاف ضابطہ ہے ۔مستقل لاء آفیسر کے بجائے یونیورسٹی نے بھاری فیسوں پر قانونی مشیروں کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جو انتظامیہ کی ناقص منصوبہ بندی کا کھلا ثبوت ہے ۔وائس چانسلر یونیورسٹی میںسرکاری رہائش کا کم کرایہ اداء کررہے ہیں ۔ نااہلی اور مناسب مالی انتظام کی عدم دستیابی کی وجہ سے یونیورسٹی کو قانونی مشگافیوں کا سامنا ہے اور مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ۔یونیورسٹی کو 53 آڈٹ پیروں کا بھی سامنا ہے ۔وائس چانسلر نے لیفٹننٹ کرنل (ر) علی ابراہیم کوڈیلی ویجز کی بیناد پر ڈپٹی ڈائریکٹر سیکیورٹی / ایڈمن کی حیثیت سے 16 مئی 2018 سے لے کر31 دسمبر2018 تک بھرتی کیا ۔ 13 دسمبر ، کو انھیں ڈائریکٹر اسکول اور کالجوں کی اضافی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ انھیں یکم فروری 2019کو پاکستان سٹیزن پورٹل کا انچارج بھی بنادیا گیا ۔ انہیں ماہانہ 2500/روپے اضافی چارج الاؤنس لینے کی بھی اجازت دی گئی ۔انھیں 22فروری ، 2019 کو ایڈیشنل رجسٹرار کی اضافی ذمہ داریاں بھی تفویض کردی گئیں ، اور پھر ان کی مدت ملازمت میں 30 جون 2020 تک توسیع دی گئی۔ علاوہ ازیں انھیں مانیٹرنگ اینڈ ایولیویشن کا فوکل پرسن بھی تعینات کردیا گیا ۔

تازہ ترین