پاکستانی فلموں میں ہیرو ہیروئن کی چار جوڑیوں کو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل رہی، جن میں سب سے پہلے سنتوش کمار اور صبیحہ خانم کی جوڑی کو پسند کیا گیا،ان دونوں نے فلم انڈسٹری کو کئی کام یاب فلموں سے نوازا۔ آج بھی فلم بین اس جوڑی کو یاد کرتے ہیں۔دوسری مقبول جوڑی درپن اور نیرّ سلطانہ کی تھی،اس نے بھی اپنی شان دار پرفارمنس سے فلم انڈسٹری میں رنگ جمایا۔ تیسری سب سے معروف جوڑی محمد علی اور زیبا کی رہی۔ ان دونوں فن کاروں نے مختلف فلموں میں یاد گار کردار ادا کیے اور چوتھی مقبول جوڑی ندیم اور شبنم کی رہی۔
اول الذکر تین جوڑیاں فلموں سے باہر نکل کر حقیقی زندگی میں بھی ایک دوسرے کی جیون ساتھی بنیں، جب کہ ادکار ندیم اور شبنم کے درمیان صرف فنی رشتہ یا ربط رہا،لیکن اس کے باوجود اس جوڑی کے حصے میں غیرمعمولی کامیابیاں آئیں۔ ان کے اشتراک سے بننے والی فلموں نے باکس آفس پر ناقابل تسخیر ریکارڈ قائم کیے۔ اداکار ندیم اور شبنم کی جوڑی کے سفر کا آغاز ممتاز شاعر سرور بارہ بنکوی کی خُوب صورت آرٹسٹیک مووی ’’تم میرے ہو‘‘ 1968ء سے ہوا۔
اتفاق سے فلم’’تم میرے ہو‘‘ بے حد معیاری ہونے کے باوجود باکس آفس پر رنگ نہ جما سکی۔ فلم میں شبنم نے اسرار و تجسس میں لپٹا ہوا ایک ’’روح‘‘ کا کردار بہت ہی خُوب صورتی سے نبھایا تھا،جسے فلم بینوں نے بے حد پسند کیا تھا۔ فلم ’’تم میرے ہو‘‘ کے بعد اگلے چھ برسوں میں ندیم اور شبنم کی جوڑی فلم نازنین، شمع اور پروانہ،جلے نہ کیوں پروانہ، چراغ کہاں روشنی کہاں، مَن کی جیت،احساس، بادل اور بجلی، سوسائٹی اور دو بدن نامی فلموں میں یکجا ہوئی، لیکن یہ تمام فلمیں سلور جوبلی کی حدود سے آگے نہ جاسکیں ، جب کہ ان دونوں کی فلم ’’سوسائٹی‘‘ محض دو ہفتوں کی کمی کے سبب گولڈن جوبلی نہ مناسکی،بعد ازاں نامور ہدایت کار اسلم ڈار کی فلم ’’دِل لگی‘‘ (1974) سے ندیم اور شبنم کی جوڑی کو پہلا بڑا بریک تھرو ملا اور اس فلم نے پلاٹینم جوبلی کا سنگِ میل عبور کرکے اس جوڑی کو بیشتر فلم سازوں کی ترجیحات میں سر فہرست کردیا۔
یاد گار پرفارمنس کے تناظر میں بھی ندیم اور شبنم کی یہ پہلی مشترکہ فلم تھی کہ جس میں دونوں فن کاروں کا فن عروج پر نظر آیا۔ فلم دِل لگی کے بعد اس جوڑی کی فلم’’ساون آیا تم نہیں آئے، کامیاب نہیں ہوسکی، جب کہ فلم انتظار سپرہٹ ثابت ہوئی، مس ہیپی کام یاب ہوئی اور پھر فلم’’پھول‘‘ وہ پہلی فلم تھی کہ جس نے اس جوڑی کے کریڈٹ پر پہلی گولڈن جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔
نامور ہدایت کار اور فلم ساز ایس سلیمان کی فلم ’’پھول‘‘ کے بعد ایس سلیمان ہی کی فلم ’’زینت‘‘ اس جوڑی کی دوسری گولڈن جوبلی فلم نے دُھوم مچادی تھی اور اداکارہ شبنم کے فنی کیریئر میں ان کی المیہ کردار نگاری کے تناظر میں ’’زینت‘‘ ایک آئوٹ اسٹینڈنگ فلم کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ 1975ء اردو سینما کی تاریخ میں شبنم اور ندیم کے کریڈٹ کے حوالے سے ایک تاریخ ساز سال کے طور پر ہمیشہ یادرکھا جائے گا کہ اس سال دونوں فن کاروں کی دو فلمیں ’’پہچان‘‘ اور ’’اناڑی‘‘ ایک ہی روز میں سنیما گھروں کی زینت بنیں اور پاکستان فلم انڈسٹری میں ایک نئی تاریخ رقم کی اور دونوں ہی نے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ دونوں ہی فلموں میں لیجنڈری ندیم نے بہت عمدہ اور معیاری پرفارمنس دی۔
فلم ’’پہچان‘‘ کا مشہور کردار ’’جانو‘‘ اور فلم ’’اناڑی‘‘ کا نوکر’’فرمو‘‘ آج بھی لوگوں کو نہیں بھولا۔ ان دونوں فلموں میں شبنم کی کارکردگی بھی معیاری اور لاجواب تھی۔ اسی سال پرویز ملک کی فلم ’’تلاش‘‘ اس جوڑی کے کریڈٹ پر ایک اور ڈائمنڈ جوبلی فلم کی حیثیت سے درج ہوئی۔ ظفر شباب کی فلم ’’دامن کی آگ‘‘ کے ہیرو محمد علی تھے،لیکن ندیم کا کردار ٹرائیکا کاحصہ تھا۔ تاہم محمد علی، شبنم اور ندیم جیسے بلند پایہ اور باکس آفس پر غیر معمولی اہمیت کے حامل فن کاروں کی اسی فلم کا ڈیڈ فلاپ ہو جانا اپنے وقت کا بہت بڑا اپ سیٹ تھا۔
1977ء میں ندیم اور شبنم کی جوڑی نے ’’آئینہ‘‘ کی صورت وہ تاج اپنے سروں پر سجایا کہ تاحیات وہ (401) ہفتوں کی کام یابی کا حوالہ بن کر جگمگاتا رہے گا۔
1979ء تا 1980ء یکے بعد دیگرے اس جوڑی کی مسلسل تین فلموں پرویز ملک کی پاکیزہ اور بندش نے شان دار پلاٹینم جوبلی منائیں جب کہ فلم ’’ہم دونوں‘‘ نے عظیم الشان ڈائمنڈ جوبلی منائی۔ تسلسل کے ساتھ اتنے بڑے اعزازات کسی اور جوڑی کا حصہ پہلے کب بنے ہوں گے۔ 1981ء کی ریلیز پرویز ملک کی شاہ کار تخلیق فلم’’قربانی‘‘ ندیم اور شبنم کے فنی اشتراک کا سب سے بڑا فن پارہ تھا، جسے باکس آفس پر ڈائمنڈ جوبلی کام یابی ملی، جب کہ معروف ہدایت کار جاوید فاضل ہی کی تخلیق ’’اولاد کی قسم،1997ء میں قطعی آخری بار یہ اشتراک ہوا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ جس جوڑی کی 6 فلموں، اناڑی، پہچان، تلاش، ہم دونوں، قربانی اور دہلیز نے شان دار ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز پایا۔ فلم دِل لگی، پاکیزہ اور بندش نے پلاٹینم جوبلی منائی۔ 8 فلموں پھول، زینت، سچائی، رشتہ، دیوانگی، خُوبصورت، کامیابی اور فیصلہ نے گولڈن جوبلی کے اعزازات اپنے نام کیے۔ ایک فلم ’’آئینہ‘‘ نے کرائون جوبلی منائی۔اس جوڑی کی پہلی مشترکہ فلم ’’تم میرے ہو‘‘ 1968ء اور آخری مشترکہ فلم ’’اولاد کی قسم‘‘ 1997ء میں ریلیز ہوئیں۔
اردو فلموں کے تناظر میں محمد علی اور زیبا کے بعد ندیم اور شبنم کی جوڑی کو سب سے زیادہ مشترکہ فلموں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اس اشتراک کی فلموں کی مجموعی تعداد50 بنتی ہے۔ یعنی گولڈن جوبلی نمبر50 پر اس اشتراک کا سفر تمام ہوا۔ لیکن کچھ عرصہ قبل سید نور نے ’’آئینہ ٹو‘‘ بنانے کا اعلان کرکے اس اشتراکی سفر کو آگے بڑھانے کا اشارہ تو دیا تھا، مگر فی الوقت وہ فلم بننے کی امید نظر نہیں آتی۔
بہ حیثیت مجموعی ندیم اور شبنم کی مشترکہ ہٹ اور سپر ہٹ فلموں کی کُل تعداد 18 بنتی ہے۔ جب کہ سلور جوبلی فلمیں 23 ہیں۔ مکمل فلاپ فلموں کی تعداد صرف 9 ہے۔ تاہم اکثر ’’سلور جوبلی‘‘ منانے والی فلموں کو بھی بڑے بجٹ یا ڈسٹری بیوٹر کی مہنگی خریدی گئی ہونے اور اصل قیمت کی ریکوری نہ کرنے کے سبب باکس آفس کے اعداد و شمار میں فلاپ قرار دے دیا جاتا ہے۔
تاہم ہم نے اس بحث سے صرف نظر کرتے ہوئے تمام سلور جوبلی فلموں کو ناکامی کے زمرے سے علیحدہ شمار کیا ہے۔ یوں ندیم اور شبنم کی مشترکہ فلموں کی کام یابی کا تناسب 82 فی صد بنتا ہے۔ندیم اور شبنم کی جوڑی کو فلم بین آج بھی یاد کرتے ہیں۔اب کئی برس گزر گئے، فلم انڈسٹری میں ایسی کام یاب جوڑی سامنے نہیں آئی۔
گزشتہ برس لکس اسٹائل ایوارڈز میں اس جوڑی کو شان دار انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا، نئی نسل کے شہرت یافتہ گلوکار عاطف اسلم نے اس جوڑی پر فلمائے ہوئے سپر ہٹ گانے گا کر محفل میں رنگ جمادیا تھا، اس موقع پر موجود ان گنت فن کاروں اور ہنرمندوں نے ان دونوں کام یاب فن کاروں کا کھڑے ہوکر خیر مقدم کیا۔