• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی نے گزشتہ دنوں بچّوں پر جسمانی تشدد کی ممانعت کا بِل منظور کیا جس کے تحت تمام اقسام کے تعلیمی اداروں اورکام کرنے کی جگہوں پر بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی ہوگی۔بِل میں جسمانی سزا یا تشدّد کی وضاحت بھی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ کسی بھی نوعیت کی تکلیف یا درد پہنچانا قابلِ سزا تصوّر کیا جائے گا۔ 

اس میں بچوں کو تھپڑ مارنا، چابک، چھڑی، جوتے، لکڑی یا چمچےسے پٹائی کرنا، ٹُھڈّا مارنا،جھنجھوڑنا، بالوں سے پکڑنا، کان کھینچنا، تکلیف دہ حالت میں رکھنا، ابلتا پانی ڈالنا ،جبرا غذا کھلانا، توہین و تضحیک وغیرہ بھی شامل ہے جو قابلِ سزا جرم ہوگا۔ 

تشدد کے مرتکب شخص کو ملازمت کی معطّلی، تنزّلی، برخاستی، جبری ریٹائرمنٹ جیسی سزا دی جا سکے گی اور وہ مستقبل میں بھی کسی ملازمت کا اہل نہیں ہو گا۔ اس ضمن میں شکایات کے اندراج کے لیےمجسٹریٹ کا تقرّرکیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ بِل فی الحال وفاقی دارالحکومت کے لیے ہے۔

زمانہ بدل گیا، مگر ہم…

اب سے چند دہائیاں قبل والدین جب بچّوں کو اسکول یا دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل کراتے تھے تو استاد پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ آج سے اس کا گوشت، پوست آپ کا اور ہڈّیاں ہماری ہیں۔ یہ جملہ اس بات کا اشارہ ہوتا تھا کہ اگر استاد بچّےکو تعلیم میں دل چسپی نہ لیتا ہوا پائے یا اس میں کوئی برائی دیکھے تو اسے اس کی ہر طرح سے اصلاح کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے۔

خواہ اس کے لیے سختی یا تشدّد ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔اس زمانے کے اساتذہ اپنی تعلیم ،تربیت،ماحول اور تجربے کی بنیاد پر طلبا پر سختی بھی کرتے تھے اوران کے دلوں میں اپنارعب بھی قایم کرتے تھے۔ لیکن شاید وہ اس حد تک نہیں جاتے تھے جس حد تک آج کے بعض اساتذہ چلے جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کے بارے میں سامنے آنے والی صرف چند خبروں کی سرخیاں پڑھ لیں:

چشتیاں میں سبق یاد نہ کرنےپر استاد کا طالب علم پر تشدّد۔ 7مئی ، 2017۔

لاہورمیں مدرسےکے استاد کے تشدّد سے زخمی 7 سالہ بچہ اسپتال میں دم توڑ گیا۔10 جولائی ، 2018۔

لاہور میں سبق یاد نہ کرنے پر ظالم استاد نے طالب علم کی جان لے لی۔ 5 ستمبر ، 2019۔

لیکن یہ صرف چند شہروں یا علاقوں کی بات نہیں ہے،بلکہ ملک بھر سے ایسی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں۔ حالاں کہ آج کا ماحول اور وقت کے تقاضے کچھ اور ہیں۔اگر کوئی استاد یہ نہیں سمجھتا تو اسے خود تدریس جیسے مقدّس پیشے سے اپنے آپ کو علیحدہ کرلینا چاہیے،ورنہ اس کے بڑوں کو یہ کام کرنا چاہیے۔اس دور میں تو تعلیمی نفسیات تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جدید دنیا میں تو اساتذہ کو سیکھنے، سکھانے اورتعلیم دینے(لرننگ اینڈ ایجوکیشن )کی سائنسی بنیادوں پر تربیت دی جاتی ہے۔ انہیں انسانی نفسیات ،دماغ کی سائنس، انسان کی جبلّتوں اور عمر کے مختلف ادوار کے رجحانات کی روشنی میں درس و تدریس کے گُر سکھائے جاتے ہیں۔ اور ایک ہم ہیں کہ انسانی اقدار اور اخلاقیات تک بُھلا بیٹھے ہیں۔

معاملہ عدالت تک پہنچا

یہ بِل شاید ابھی منظور نہ ہوتا ،مگر وقت کے جبر کو کیا کہیںکہ وہ ہم سے ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ کرالیتا ہے۔ شاید کچھ ایسا ہی عمل اب سے تقریبا ایک برس قبل شروع ہواتھا۔یہ بارہ فروری 2020کی بات ہے۔ ’’زندگی ٹرسٹ‘‘ کے صدر اور پاکستان کے معروف گلوکار شہزاد رائے نے بچّوں پر تشدّد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیاتھا۔

اُن کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں بچّوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے، بچّوں پر تشدد اور سزا کی خبریں آئے روز ذرایع ابلاغ میں آرہی ہیں اور پڑھائی میں بہتری کے لیے بچّوں کی سزا کو ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیاتھا کہ بچّوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان182ممالک میں 154ویں نمبر پر ہے۔اس کے علاوہ ’’اسپارک‘‘ کی رپورٹ کے مطابق سالانہ پینتیس ہزار بچّے سزا کی وجہ سے اسکول چھوڑ رہے ہیں۔

گلوکار کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ89بنیادی انسانی حقوق اور بچّوں کے حوالے سے اقوامِ متّحدہ کے کنونشن کی خلاف ورزی ہے، لہٰذااسے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا جائے۔درخواست میں کہا گیا تھاکہ اسکولز، جیل اور بحالی کےمراکز میں بچّوںکو جسمانی سزا دینے پر پابندی عاید کی جائے، انہیں جسمانی اور ذہنی تشدّد سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت کو اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی جائے اور اقوامِ متّحدہ کے کنونشن کے تحت بچّوں کے تحفّظ کے قوانین پر مکمل عمل درآمد کی ہدایت کی جائے۔ اس کے علاوہ بچّوں کے بنیادی حقوق کا تحفّظ یقینی بنانے کےلیے فوری حکم امتناع جاری کیا جائے۔

خیال رہے کہ اُن دنوں بھی ملک بھر سے ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوئے تھےجن میں اساتذہ کے تشدّد کی وجہ سے کئی طلبا جان کی بازی ہارگئے تھے۔

پھر تیرہ فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہزاد رائے کی درخواست پر وفاقی اداروں میں بچّوں پر تشدّد کی قانونی گنجایش تاحکمِ ثانی معطّل کردی اور حکومت سے پانچ مارچ تک جواب طلب کرلیاتھا۔اس حکم کا اطلاق اسلام آباد کے علاقے میں ہونا تھا۔

عدالتی حکم کے بعد شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا بچوّو پر تشدّد سے متعلق فیصلہ تاریخی ہے، سندھ میں بچوں پرتشدّد کے خلاف قانون موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی بہترین تحقیق ہے کہ تشدّد سے تشدّد میں اضافہ ہوتا ہے۔ بچّے کی پٹائی کی جاتی ہے جو خلافِ آئین ہے۔ بچّوں کو مارنا ان کی ذہنی نشونما کے لیے نقصان دہ ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعدکوئی استاد بچّوں کو مار نہیں سکتا۔جب بچے پر تشدد ہوتا ہے تو دماغ کا وہی حصہ متاثر ہوتا ہے جو جنسی زیادتی سے ہوتا ہے۔ 

ہم جنسی زیادتی کے ملزم کے لیے سرعام پھانسی کی بات تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ تشدد سے بھی بچوں کا دماغ متاثر ہوتا ہے۔ شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین پٹائی کرتے ہیں، اسکول جاتا ہے تو اساتذہ مارتے ہیں اور جب وہ بڑا ہوتا ہے اور معاشرے میں جاتا ہے تو پولیس اسے اچھا انسان بنانے کے لیے مارتی ہے۔

سماعت کے دوران شہزاد رائے کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھاکہ پاکستان کے ضابطہ فوج داری کی دفعہ 89میں بچّوں پر تشدّد کی گنجایش بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ گزشتہ سال بھی لاہور میں تشدّد سے طالب علم کی موت واقع ہوئی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں جب تک قانون سازی نہیں ہوجاتی تشدّد کوتو روکا جائے۔ بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت تشدّد سے بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ بچوں پر تشدّد سے معاشرے میں تشدّد بڑھتا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا اس موقعے پر کہنا تھا کہ اس معاملے پر اسمبلی نے کوئی قرارداد بھی منظور کی تھی۔ وزارتِ داخلہ آئین کے آرٹیکل چودہ کے تحت بچّوں پر تشدّد کے روک تھام کے اقدامات اٹھائے۔تاہم شہزاد رائےکے وکیل شہاب الدین کا کہنا تھا کہ ایک بل اسمبلی سے منظور ہوا تھا، مگر سینیٹ سے نہیں ہوا۔ان کا مزید کہنا تھاکہ کارپوریل پنشمنٹ (جسمانی سزا) کا قانون 160 سال پرانا ہے جسے ختم کیا جائے، کیوں کہ اس کی وجہ سے بچوں کو جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس موقعے پر عدالت نے حکم دیاتھا کہ وزارتِ داخلہ فوری طور پر تعلیمی اداروں میں بچّوں کے حقوق کا تحفّظ یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیاتھا۔ بعد ازاں مقدمے کی مزید سماعت 5 مارچ تک ملتوی کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ تعزیرات پاکستان 1860 کی دفعہ 89 کے تحت اسکولز میں بچوں کو جسمانی سزادینے کو قانونی حیثیت حاصل ہے جس کے ذریعے اسکولز میں نظم و نسق قایم رکھا جاتا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کی یہ دفعہ والدین، سرپرست اور اساتذہ کی جانب سے بارہ برس سے کم عمرکے بچّوں کو ان کی بھلائی کی نیت سے جسمانی سزا دینے کی اجازت دیتی ہے۔

پھر پانچ مارچ کو اس مقدمے کی دوبارہ سماعت ہوئی ۔اس موقعے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سرعام پھانسی دینے سے بھی معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا،ذہنیت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس موقعے پر شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ89کہتی ہے کہ بچوں کے سرپرست اچھی نیت کے ساتھ اساتذہ کو جسمانی سزاؤں کی اجازت دے سکتے ہیں۔ لیکن والدین کو بھی کیسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ بچوں پر تشدد کی اجازت دیں؟

اس موقعے پر وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بتایاتھا کہ ان کی وزارت شہزاد رائے کی درخواست کی حمایت کرتی ہے۔ وفاقی کابینہ نے بچوں پر تشدد کے خلاف بل کی منظوری دے دی ہےاور اب معاملہ پارلیمان کو بھجواناہے، مگر وزارت قانون نے اعتراض کیاہے کہ بل پارلیمان کو بھجوانا انسانی حقوق نہیں وزارت داخلہ کا کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 89 کو آئین سے متصادم قرار دے دےتو یہ مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیےتھے کہ بچوں پر تشدد بنیادی انسانی حقوق اور آئین سے متصادم ہے۔ بچوں کو مارنے کی کوئی اچھی نیت نہیں ہو سکتی۔ اچھے استاد کو کبھی طالب علم کو مارنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ کابینہ کی منظوری کے بعد بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

اس سماعت میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ سیکریٹری قانون نمائندہ مقرر کریں جوبارہ مارچ کو پیش ہو کر عدالت کو بتائیں کہ بل پارلیمان میں کیوں نہیں پیش کیا جا رہا؟

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر برائےانسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں جسمانی سزاؤں سے متعلق بل کابینہ نے منظور کرلیا تھا، لیکن وہ پارلیمان میں منظوری کے لیے جانے کے بجائے وزرات داخلہ میں پھنس گیا۔ان کا کہنا تھا کہ عالمی معاہدے کے تحت یہ قانون بنانا حکومت کی ذمے داری ہے۔

اس سماعت کے موقعے پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ بچوں کو جسمانی سزا دینے کی ذہنیت تبدیل ہونی چاہیے۔یہی ذہنیت بچوں کے خلاف دیگر جرائم کی بھی بنیاد بنتی ہے۔ اگر آج میڈیا نہ ہوتا تو کبھی بھی ہمیں ایسے واقعات کا پتا نہ چلتا۔ سیاسی قیادت اور پارلیمان نے معاشرے کی سوچ تبدیل کرنی ہے۔ سرعام پھانسی دینے سے معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا، انسانی رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پوچھا تھاکہ بچوں پر تشدد روکنے سے متعلق قانون سازی کا کیا بنا؟جس پر شہزاد رائے کے وکیل نے بتایا تھا کہ خیبر پختون خوا اور سندھ میں بچوں پر تشدد روکنے کے لیے قانون سازی ہوئی ہے۔ نمائندہ وزارت تعلیمات نے عدالت کو بتایا تھا کہ عدالت کی ہدایات کے مطابق دس فروری سے اسلام آباد میں بچوں پر جسمانی سزا پر مکمل پابندی لگا دی ہے، طریقہ کار بنانے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔

ڈاکٹر شیری مزاری نے عدالت کو بتایا تھا کہ وفاقی کابینہ سے بل منظور ہواتو وزارت قانون نے کہا کہ یہ وزارت داخلہ کا اختیار ہے۔ وزارت داخلہ نے کہا کہ یہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو جانا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بچوں کو سزا دینے پر پابندی کی مخالفت کی ہے۔ اس موقعے پرچیف جسٹس نے کہا تھا سمجھ نہیں آرہی کہ وزارت داخلہ نے اچھی قانون سازی کو اسلامی نظریاتی کونسل کو کیوں بھیجا ؟ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے وفاقی کابینہ کے لیے لازم نہیں۔ جب بل کی کابینہ نے منظوری دے دی تھی تواسے وزارت داخلہ کو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔اس پر شیریں مزاری نے کہاتھاکہ وزارت قانون اس حوالے سے جواب دے سکتی ہے۔

پھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں پر تشدد کو پاکستان پینل کوڈکی دفعہ 89سے الگ قرار دےدیا تھا۔ انسانی حقوق کی وفاقی وزیرشیرین مزاری اور مہناز اکبر عزیز نے پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کا بل بھی قومی اسمبلی میں پیش کیا تھاجو پندرہ ماہ گزرنے کے باوجود اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔

اور وقت گزرتا گیا…

پھر چھ فروری 2021آگیا۔اس وقت تک بچّوں پر تشدّد کو غیر قانونی قرار دینے کے خلاف بل کو قومی اسمبلی میں پہنچے ہوئے تقریبا پندرہ ماہ ہوچکے تھے اوروہ بل وہاں اس پر بحث ہونے کے لیے اپنی باری آنے کا منتظر تھا ہے۔ اس روز(چھ فروری کو) زندگی ٹرسٹ کے چیئرمین شہزاد رائے نے بل کو ایجنڈے میں شامل کرانے کے لیےا سپیکر قومی اسمبلی، اسد قیصر سے ملاقات کی تھی جس پر اسپیکرنے بل کو ایجنڈے میں شامل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

پھر بِل منظور ہوگیا

اس ملاقات کے بعد تیئس فروری کو قومی اسمبلی نے بچوں کو جسمانی سزا دینے کے خلاف بل منظورکرلیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی مہناز اکبر عزیز نے بچوں کی جسمانی سزا کے خلاف احکامات وضع کرنے کا بل ایوان میں پیش کیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی وفاقی وزیر شیری مزاری نے ایک شق میں ترمیم پیش کی تھی جسے بل کا حصہ بنا لیا گیا۔

یہ بِل ابھی پورےقانونی پیرائے میں نہیں آیا ہے کہ ابھی اس کی سینیٹ سےمنظوری کا مرحلہ باقی ہے اوریہ پورے ملک کے لیے نہیں ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا تمام صوبے بھی ایسی قانون سازی کریں گے اورکب کریں گے، اگرصوبوں میں بھی ایسی قانون سازی ہوگئی تو پرانےاساتذہ کی ذہنیت کیسے تبدیل ہوگی اور کیا نئے اساتذہ کی جدید تعلیمی نفسیات اور تیکنیک کے مطابق تعلیم وتربیت کےلیے ہمارے پاس کوئی بنیادی ڈھانچا ہے یاہم محض قانون بنا کر خوش ہوتے رہیں گے ؟ اصل مسئلہ ذہنیت تبدیل کرنے کا ہے، معلوم نہیں کہ اس ضمن میں اربابِ اختیار کے پاس کیا منصوبہ ہے۔ 

ماہرین کا موقف

یہ بل منظور ہونے کے بعد بعض ماہرین پُراُمّید ہیں کہ تشدد کے خوف سے اسکول چھوڑنے والے بچوں کی واپسی کی راہ بھی ہم وار ہو سکتی ہے۔لیکن بعض ماہرین اس ضمن میں محتاط رد عمل ظاہر کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قوانین تو بن جاتے ہیں مگر اصل مسئلہ ان پر ان کی حقیقی روح کے مطابق عمل درآمد کا ہوتا ہے۔

پھر یہ کہ تشدّد پر آمادہ افراد کی ذہنیت ایک روز میں اور بغیر موثر اقدامات کے تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ان ماہرین کے مطابق اس بل کےتحت صرف وفاقی دارالحکومت کی حدود میں بچوں پر ہر قسم کے جسمانی تشدد کی ممانعت ہو گی اور اس کے مرتکب افراد کو سزا دی جا سکے گی۔ تاہم یہ قانون گھروں میں والدین پر لاگو نہیں ہو گا۔

بچوں کے حقوق کے تحفّظ کے لیے کام کرنے والے افراد اور ادارے اس بل کا خیر مقدم کر رہے ہیں اور اس اُمید کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بچوں پر تشدد کے تدارک کا یہ قانون بہتر اور غیر متشدد معاشرے کی تشکیل کی راہ ہم وار کرسکے گا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان میں بچوں پر تشدد کی روک تھام کا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ البتہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ برس تعزیرات پاکستان کی دفعہ 89کو معطل کر کے تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد کو ممنوع قرار دیا تھا۔

بل کے متن کے مطابق بچوں پر جسمانی تشدد کے خلاف شکایات کے لیے وفاقی حکومت طریقہ کار بنائے گی۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل اب سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا جس کے بعد بچوں پر جسمانی تشدد کی ممانعت کے قانون کا اطلاق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حد تک شروع ہو جائے گا۔

اس بل کی محرک قومی اسمبلی کی رکن مہناز اکبر عزیز کے مطابق معاشرے میں بچّوں پر تشدد میں چند برسوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ بچّے کم زور ہوتے ہیں اور طاقت ور ہمیشہ کم زور پر تشدّد کرتے ہیں۔ اب چوںکہ قانون آ گیا ہے اور ریاست نے اس اس عمل کو منفی قرار دیا ہے تو یہ بچوں پر تشدد کے خلاف ایک رکاوٹ ثابت ہو گا۔مہناز عزیز کے بہ قول پاکستان میں دو کروڑ سے سے زاید بچے اسکولز سے باہر ہیں اور بچوں کے اسکول سے بھاگ جانے کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی اداروں میں تشدد ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود مذہبی راہ نماؤں نے اس قانون کی حمایت کی اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کی توثیق کی ہے جو دینی مدارس میں اس کے نفاذ کی راہ ہم وار کرے گا۔ تاہم مہناز عزیز سمجھتی ہیں کہ یہ مسئلہ صرف قانون بنانے سے نہیں بلکہ قواعد و ضوابط بنا کر عمل درآمد کرانے اور والدین، اساتذہ اور اداروں کی تربیت سے حل ہو سکے گا۔

بچّوں پر تشدّد، علمِ نفسیات کیا کہتا ہے؟

بڑوں کی طرح بچّوں کی بھی خاص نفسیات ہوتی ہےجو عمر کے ساتھ اگلے مراحل طے کرتی ہے۔لیکن بچپن کی یادیں انسان کی یادداشت میں بہت مستحکم جڑیں رکھتی ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق بچّے پر تشدد اس کی نشوونما، رویّے، شخصیت، کام یابی اور ناکامی پر بہت اثر انداز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اس کا مستقبل بھی متاثر ہوتا ہے۔ تشدّد کے نتیجے میںبچے اپنے تعلقات میں ناکام رہتے ہیں اور زندگی گزارنے کا برا طریقہ اپنا لیتے ہیں۔ یوں وہ انتہائی صورت میں معاشرے کا بہتر شہری بننے کے بجائے جرائم اور تشدد کی طرف جا سکتے ہیں۔

ماہرین کے بہ قول ہمارے معاشرے میں بچوں پر تشدد کے منفی اثرات سے متعلق لوگوں میں آگاہی نہیں ہے جس کے لیے شعور اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان کی نوجوان نسل سے بہتر کردار کی توقع رکھنی ہے تو اس کے لیے ان کے بچپن میں تشدد کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔

اب سے تقریبا چالیس برس قبل سوئیڈن وہ پہلا ملک تھا جہاں تعلیمی اداروں میں بچوں کو جسمانی سزا دینا ممنوع قرار دیا گیا۔تین برس قبل نیپال ایسا 54واں ملک بناتھا جہاں اس ضمن میں قوانین نافذ کیے گئے تھے۔

جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو جسمانی سزا نہ دینے سے ان میں پُرتشدّد رویّوں میں کمی پائی گئی۔ اس تحقیق میں اٹّھاسی ممالک سے چار لاکھ نوجوانوں کو شامل کیا گیا تھا۔ یہ پہلی تحقیق تھی جس میں بچوں کو جسمانی سزا دینے اوربچوں کے پُر تشدّد رویّوں میں باہمی تعلق جوڑا گیا تھا۔ یہ تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ فرینک ایلگر کے مطابق بچوں کو جسمانی سزا دینے اور ان کے پُر تشدّد ررجحانات میں مضبوط تعلق دیکھا گیا۔

اس تحقیق کے لیے جن ممالک سے بچّوں کا انتخاب کیا گیا ان میں سے تیس ممالک میں بچوں پر جسمانی تشدد کی روک تھام کے لیے قوانین موجود تھے جن کے تحت تعلیمی اداروں اور گھر میں بھی بچوں کو جسمانی سزا دینے سے روکا جا تا ہے۔ان ممالک میں بچوں میں ہونے والی لڑائیوں کی شرح ان بیس ممالک کے مقابلے میں بہت کم تھی جہاں ایسے کوئی قوانین موجود نہیں۔ بچوںمیں لڑائیوں کی شرح میں لڑکوں میں انہتّرفی صد اور لڑکیوں میں بیالیس فی صد کمی دیکھی گئی۔

تحقیق میں دیگر اڑتیس ممالک میں جزوی پابندی عاید کی گئی جن میں امریکا، کینیڈا اور برطانیہ شامل ہیں۔ ان ممالک میں لڑکیوں میں لڑائیوں میں چھپّن فی صد کمی دیکھی گئی۔واضح رہے کہ اس تحقیق کے لیے عالمی ادارہ صحت کی تحقیق اور سروے کا ڈیٹا بھی استعمال کیا گیا تھا۔ تحقیق میں ملک کی دولت اورقتل کے واقعات کی شرح کو بھی زیر غور لایا گیا تھا۔

تازہ ترین