پنجاب میں تحریک انصاف حکومت کی قائم ہونے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں بدستور مضبوط ہو رہی ہیں اور بلا شک وشبہ پنجاب اپوزیشن جماعتوں کا مضبوط قلعہ بن چکا ہے، صوبائی اسمبلی کے ایوان کے اندر اور حلقوں میں اپوزیشن کو پذیرائی مل رہی ہے اور حکومت کو ہزیمت کا سامنا ہو رہا ہے، حالیہ ضمنی الیکشن اور سینیٹ انتخابات اس کی واضح مثال ہیں ،پنجاب میں ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں اپوزیشن مسلم لیگ ن نے حکومت کو چاروں شانے چت کر دیا اور تحریک انصاف کے امیدواروں کو عبرتناک شکست کا سامنا ہوا۔
ملک میں ماضی کی سیاسی روایات یہی رہی ہیں کہ ضمنی انتخابات میں حکومتی امیدواروں کی جیت یقینی ہوتی ہے کیونکہ حکومت ضمنی الیکشن کے دوران اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کے لئے ترقیاتی منصوبوں اور سرکاری مشنیری استعمال کر کے ان کی جیت کی راہ ہموار کر تی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے حمایت یافتہ امیدوار حلقے کے عوام کو کوئی مراعات دینے میں بے بس ہوتے ہیں۔
پنجاب کے عوام گزشتہ ڈھائی برسوں کے دوران حکومتی پالیسیوں سے جس قدر نالاں تھے ضمنی الیکشن میں تنگ آمد ، بجنگ آمد کی مصداق انھوں نے حکومتی امیدواروں کے خلاف ووٹ دے کر حکومتی امیدواروں کے خلاف ووٹ د ے اپنی بھڑا س نکال دی اور حکومتی امیدواروں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کے مطابق پی پی 51وزیر آباد سے مسلم لیگ ن کی خاتون امیدوار بیگم طلعت شوکت کے ہاتھوں تحریک انصاف کے چودھری یوسف کو شکست ہوئی۔
این اے 75ڈسکہ میں بھی مسلم لیگ ن کی نوشین افتخار الیکشن جیت چکی تھیں لیکن تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد خان کو جتوانے کے لئے پولنگ سٹیشنوں پر لڑائی جھگڑوں اور فائرنگ کے نتیجہ میں دو انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد پولنگ کا عمل معطل ہو گیا اور حکومتی دھاندلی کے الزامات کے بعد تمام انتخابی عمل ہی مشکوک ہو گیا جس پر بالآخر الیکشن کمیشن نے نتائج روک دئیے اور 18مارچ کو دوبارہ پولنگ کا حکم دیا۔
دیگر صوبوں خیبر پختونخواہ میں نوشہرہ میں مسلم لیگ ن کے افتخار ولی خان نے تحریک انصاف کے امیدوارکو شکست دی، سندھ میں این اے 221تھرپارکر میں پیپلزپارٹی کے پیر امیر علی شاہ جیلانی کامیاب ہو گئے،پشین بلوچستان میں جمعیت علما اسلام کے سید عظیم اللہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے، سندھ اسمبلی کے ملیر سے پیپلزپارٹی کے یوسف بلوچ ضمنی الیکشن جیت گئے، صرف خیبر پختونخواہ کرم میں قومی اسمبلی کی نشست سے تحریک انصاف کے ملک فخر زمان کو ضنی الیکشن میں کامیابی حاصل ہوئی ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں ضمنی انتخابات کے بعد سینیٹ الیکشن میں بھی تحریک انصاف کو اپنے بلند بانگ دعوئوں کے برعکس نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
پنجاب میں سینیٹ الیکشن کے دوران تمام امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو گئے جن میں مسلم لیگ ن کے پانچ، تحریک انصاف کے پانچ اور مسلم لیگ ق کا ایک امیدوار شامل ہے، مسلم لیگ ن کے بلامقابلہ منتخب ہونے والے اراکین سینیٹ میں اعظم نذیر تارڑ، سعدیہ عباسی، ساجد میر، عرفان الحق صدیقی، عفنان اللہ خان، تحریک انصاف کے سید علی ظفر، ڈاکٹر زرقہ، اعجاز چودھری، سیف اللہ نیازی، عون عباس اور ق لیگ کے کامل علی آغا شامل ہیں۔
پنجاب میں بلامقابله کامیاب امیدواروں کی تعداد اسمبلی میں تینوں جماعتوں کی نمائندگی کے تناسب کے مطابق ہے تاہم مسلم لیگ ق کے کامل علی آغا تحریک انصاف کی حمایت سے کامیاب ہوئے ، تحریک انصاف بلند بانگ دعوے کر رہی تھی کہ اپوزیشن جماعتوں کو سینٹ الیکشن میں سیٹ بیگ اور غیر متوقع شکست کا سامنا ہو گا لیکن حکومتی دعوے درست ثابت نہ ہوسکےاور سینیٹ الیکشن کے نتائج عین اپوزیشن جماعتوں کی امیدوں کے مطابق سامنے آئے۔
پیپلزپارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات منور انجم کا کہنا ہے کہ پنجاب میں سینیٹ امیدواروں کی بلامقابلہ کامیابی میں سابق صدر آصف علی زرداری نے فیصلہ کن کردار ادا کیا، سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہیٰ کا کردار بھی مصالحانہ رہا جس وجہ سے تحریک انصاف جو سینیٹ الیکشن سے قبل ارکان اسمبلی کے ووٹوں کی خریدو فروخت کے جھوٹےدعوے کر کے سیاستدانوں کو بدنام کرنے میں مصروف تھی اور سپریم کورٹ میں اوپن ووٹنگ کے لئے ریفرنس بھی دائر کیا، اس کے تمام دعوے غلط ثابت ہوئے۔
پیپلزپارٹی نے پنجاب سے اپنے امیدوار راجہ عظیم الحق کو دستبردار کر کے مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی بلامقابلہ کامیابی کے لئے فیصلہ کن کردار ادا کیا، آصف زرداری کو سپیکر چودھری پرویز الہیٰ نے درخواست کی تھی کہ وہ اپنا امیدوار دستبردار کر لیں ،چودھری پرویز الہیٰ اس مصالحانہ کردار کی وجہ سے ق لیگ کے کامل علی آغا کو جتوانے میں کامیاب ہو گئے، آصف زرداری اور پرویز الہیٰ کی رواداری کی سیاست سے نئی سیاسی تاریخ رقم ہو گی۔
ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت بند ہو گئی ، عمران خان کا سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن امیدواروں کو ہرانے کا خواب پورا نہ ہو سکا، منور انجم کا کہنا ہے کہ ضمنی الیکشن اور سینیٹ الیکشن میں حکومتی دعوئوں کے برعکس نتائج اس بات کی غمازی ہیں کہ سلیکٹرز نیوٹرل ہو گئے ہیں ، اس سلسلہ میں آصف زرداری کے بعد حمزہ شہباز کی ضمانتوں پر رہائی واضح دلیل ہے، آئندہ اپوزیشن سیاستدانوں کو نیب گردی کے ڈریعے ڈرانا دھمکانا ممکن نہیں ہو گا، پنجاب میں اپوزیشن کا قلعہ دوبارہ مضبوط ہونے لگا ہے۔
ضمنی الیکشن کے بعد سینیٹ الیکشن کے نتائج ، پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ضمانت پر رہائی اور پی ڈی ایم کے 26مارچ کو اسلام آباد کیجانب لانگ مارچ کے اعلان سے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچی ہے ، حمزہ شہباز شریف کو لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر کوٹ لکھپت جیل سے رہا کیا گا جہاں ن لیگ کے کارکنوں نے نعروں، پھولوں کی پتیوں، ڈھول کے تھاپ پر شاندار استقبال کیا، حمزہ شہباز کو 20ماہ کی طویل قید کے بعد رہائی نصیب ہوئی جبکہ ان کے والد سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بدستور نومبر 2020سے قید میں ہیں۔
سینیٹ الیکشن کا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہونے کے بعد اپوزیشن کا اگلا لائحہ عمل لانگ مارچ کو کامیاب کرنا ہو گا، ابھی تک اپوزیشن جماعتوں نے لانگ مارچ کے بعد دھرنے، وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اسمبلیوں سے استعفوں سمیت اپنے بہت سارے کارڈ چھپائے ہوئے ہیں جس سے حکومتی حلقوں میں بے چینی ہے، آصف علی زرداری کا ضمنی الیکشن اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کے مشورے پر عمل کر کے پی ڈی ایم حکومت کے عزائم کوناکام کر چکی ہے ،آگے آگے دیکھئے ہو تا ہے کیا؟