• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد ظفر علی ( اوکاڑا)

جماعت ِ اہلِ سنت کے بانی ، جامع مسجد غوثیہ ٹرسٹ ، پی ای سی ایچ سوسائٹی اور دارالعلوم حنفیہ غوثیہ ، گل زارِ حبیب ٹرسٹ ، اوکاڑا میں دارالعلوم اشرف المدارس ، جنوبی افریقا میں جماعت ِ اہلِ سنت ، کراچی شہر میں اہلِ سنت کی طرف سے مجالسِ محرم اور عید میلاد النبی ( ﷺ ) کے جلوس کے بانی ، انجمن محبانِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ کے بانی ، ’’ نماز مترجم ‘‘ کے مصنف ، تیس کے لگ بھگ بہترین تحقیقی کتابوں کے مصنف ، اُردو زبان کے دنیا بھر میں شہرت و مقبولیت پانے والے خطیب ِ اعظم ، درسِ قرآن ، درسِ تراویح ، درسِ حدیث اور جمعہ کے اجتماعات اور نجی محافل کے علاوہ بڑے اجتماعات سے اٹھارہ ہزار سے زیادہ مذہبی تقاریر کرکے ریکارڈ قائم کرنے والے بے بدل و بے مثال خطیب ، سَو کے قریب مساجد اور اس سے کہیں زیادہ مدارس قائم کروانے اور ان کی سرپرستی کرنے والے عہد آفریں مصلح و مبلّغ ، لاکھوں افراد کے عقائد و اعمال کی اصلاح کرنے والے مدرس و معلّم ، تحریک ِ قیامِ پاکستان ، تحریک ِ ختمِ نبوت ، تحریک ِ دفاعِ پاکستان ، تحریک ِ نفاذِ نظام مصطفیٰ اور تحریک ِ اتحاد بین المسلمین کے قافلہ سالار ، سیکڑوں افراد کو حلقۂ بگوش اسلام کرنے والے حق پرست دِینی پیشوا ، ہزاروں شاگردوں اور مریدوں کے پیر و مرشد اور مربی و استاد ، سولہ مرتبہ حرمین شریفین کی زیارت اور حج و عمرہ کی سعادت پانے والے اور تین مرتبہ خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے مشرف ہونے والے مقبول و برگزیدہ ، عرب و عجم کے متعدد مشائخ کرام سے اجازت و خلافت پانے والے شیخِ طریقت ، صدقاتِ جاریَہ کے قابلِ رشک کام انجام دینے والے خدا دوست ، مخلوق کی داد رسی اوردست گیرِی کرنے والے مشفق و مہربان ، راہِ حق میں سنگ و سِناں کے وار سہنے ، قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے اور مثالی قربانیاں دینے والے مجاہد و غازی اور اہلِ ایمان کے محبوب و محترم ، مجدّدِ مسلک ِ اہلِ سنت ، عاشقِ رسولؐ ، محب ِ صحابہ و آلِ بتول حضرت مولانا محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مقبولیت ، شہرت ، ذات و صفات اور خدمات کے حوالے سے ممتاز ترین یگانۂ روزگار شخصیت تھے۔ انہیں دنیا سے رخصت ہوئے 38 برس کا عرصہ بیت گیا، مگر ان سے عقیدت و محبت کا سلسلہ آج بھی فزوں تر ہے۔

ان کا اثاثۂ حیات ہی عشقِ رسول ؐتھا ، وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوبِ کریم ﷺ کے ذاکر ، ان کی تعلیمات کے مبلغ اور خود اس کے پابند تھے اور حق و صداقت کی ناقابلِ تسخیر چٹان تھے، وہ تو قرونِ اُولیٰ کے برگزیدہ اہلِ ایمان کی جیتی جاگتی تصویر و تنویر تھے ۔ دنیا میں ان کی آمد سے پہلے اہلُ اللہ نے ان کی عظمت و سعادت کی بشارتیں دیں ، والدین نے رویائے صادقہ میں نیک بیٹے ، عالمِ دین ، ولی اللہ کے تولد کی نوید پائی۔ ولادتِ باسعادت پر تکبیر و رسالت کے مبارک نعروں سے استقبال ہُوا ، ماہِ صیام کی مبارک و منوّر ساعتوں میں زندگی کا آغاز ہُوا۔ ان کی سماعت میں پہلی آواز دُرود و سلام کی پہنچی جو تمام عُمر ان کا محبوب وظیفہ رہا ۔ متقی و پارسا ماحول اور افراد میں پرورش ہوئی ۔ 

تعلیم کی ابتدا حفظِ قرآن سے ہوئی ، خوش الحانی نے نعت خواں بنایا اور کم سِنی میں محبوبِ اولیاء ہوگئے ۔ علمِ دِین پڑھا تو خطابت کے جوہر کھلے اور طوطی پنجاب اور خطیب ِ اعظم کے القاب ملے ، تحریر کے میدان میں آئے تو ان کی ہر کتاب یادگار ٹھہری ، دِینی خدمات کے حوالے سے مسلک ِ حق اہلِ سنت و جماعت کے مجدّد کا رُتبہ ملا ۔ سیاسی و سماجی اور قومی کارہائے نمایاں انجام دے کر ملک و قوم کے محسن قرار پائے۔ انہوں نے بہت کام یاب زندگی بسر کی ۔ بلاشبہ ان کے رب تعالیٰ نے انہیں بہت نوازا اور انہوں نے ہر لمحہ خوب محنت کی تھی اور قدرت کی عطا کردہ ہر صلاحیت کا خود کو اہل ثابت کیا ۔

55 برس کوئی بڑی مدت شمار نہیں ہوتی ، زندگی کے اس مختصر عرصے میں انہوں نے گراں قدر کام کئے ، ان پر رشک ہوتا ہے۔ وہ راسخ العقیدہ سچے اور مخلص مسلمان تھے۔ انہوں نے خود کو شریعت و سنت کا پابند رکھا اور لاکھوں کو اپنی ذات و صفات سے متاثر کیا ۔ دِین و مسلک کی راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور ہر تکلیف و صعوبت خندہ پیشانی سے برداشت کی ۔ وہ بلاشبہ عہد ِ آفریں اور انقلابی شخصیت تھے ۔

خطیب ِ اعظم مولانا اوکاڑویؒ کی وجہ شہرت میں ان کی منفرد مثالی خطابت نمایاں ہے اور اس بات کا سب ہی نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی طرزِ خطابت کے نہ صرف موجد، بلکہ امام تھے۔ انہیں گزشتہ نصف صدی میں اقلیم خطابت کا تاج دار کہا جائے تو ہر گز بے جا نہ ہوگا۔ وہ کسی میڈیا سے شہرت پاکر مقبول نہیں ہوئے ، کسی تنظیم کی پشت پناہی سے منظر عام پر نہیں آئے ، تشہیر کا سامان کرکے متعارف نہیں ہوئے، بلکہ وہ خداداد صلاحیتوں اور اپنی ان تھک محنتوں سے اپنے نصب العین کے لئے ہمہ دم ہمہ جاں مشغول رہے۔ یہ ان کا صدق و اخلاص تھا کہ انہیں تائید ِ ایزدی حاصل رہی اور وہ ہر لمحے ، ہر مرحلے اور ہر میدان میں اپنے کام سے نام پاتے رہے اور مقبولیت و محبوبیت میں مثالی رہے ۔

مولانا اوکاڑوی ؒنے خود کو دِین و ملّت کے لئے وقف رکھا ، انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہُوا کہ وہ اپنی ذات کو نمایاں کریں ، اپنی شخصیت اور حیثیت کے لئے کام کریں ۔ یہ بات کسی گمان یا اندازے پر نہیں پورے وثوق سے مسلسل مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ۔ وہ پہلی مرتبہ جب کراچی آئے تو ماہِ صیام کے ایک ہی عشرے میں شہر بھر میں ان کی دھوم ہوگئی تھی ، ہر زبان پر ان کا چرچا تھا ۔ وہ دوسری مرتبہ تین ماہ کے بعد ماہِ محرّم میں آئے اور تقریباً تین ہفتے اس شہر میں رہے اور روزانہ انہیں بڑے اشتیاق و اہتمام سے سُنا گیا ۔ 

وہ پنجاب کے مشہور شہر اوکاڑا سے آئے تھے ، اس شہر کی نسبت سے سب سے پہلے انہی کے نام کے ساتھ ’’ اوکاڑوی ‘‘ کا لاحقہ لگا اور مسلمانوں کی اکثریت میں اس لفظ سے ایک شخصیت کی یاد وابستہ ہوئی ۔ ان کے بعد اور بھی افراد نے اس شہر سے وابستگی کی بنیاد پر اس لفظ کا استعمال کیامگر جو شہرت و مقبولیت مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ کو حاصل ہوئی ،اس لفظ کی عزت و آبرو بھی انہی سے ہوئی ، کسی اور کے حصے میں یہ شہرت و مقبولیت یوںنہیں آئی ۔ خطیب ِ اعظم ؒ دِینی ، اعتقادی ، اصلاحی اور معاشرتی موضوعات پر خطاب فرمایا کرتے ، وہ اپنے موضوع کی مناسبت سے پہلے آیاتِ قرآنی پیش کرتے اور تفسیر میں جزئیات تک بیان کرتے پھر وہ احادیث ِ نبویؐ پیش کرتے، اس کے بعد وہ اصحابِ نبوی اور اکابرِ دِین کے آثار و اقوال پیش کرتے ہوئے مختلف مکاتب ِ فکر کے بڑوں کی تحریروں سے بھی اپنے موقف کی تائید بیان فرماتے اور ہر اختلاف و اعتراض کا ایسا عمدہ اور مدلل جواب دیتے کہ بات نہ صرف واضح ہوجاتی ،بلکہ دل پر نقش ہوجاتی، اندازِ بیان اتنا عمدہ اور آسان کہ سننے والے کو یاد ہوتا چلا جاتا اور عام شخص بھی پوری طرح سمجھ لیتا۔ 

ان کی آواز میں اتنی کشش اور چاشنی اور بیان میں اتنی روانی تھی کہ ہر سامع ( سننے والا ) پوری محویت سے سنتا یوں لگتا تھا کہ جیسے ہرکوئی مسحور ہے ۔ ان میں یقیناً کوئی رُوحانی قوت تھی ، انہیں خداداد قابلیت و صلاحیت حاصل تھی ، خطابت کے حوالے سے کون سی خوبی تھی جو اُن میں نہیں تھی ؟ انہوں نے جس دَور میں خطابت کا آغاز کیا ، اس وقت برّصغیر میں بہترین خطباء موجود تھے ، پاک و ہند کے ان نام وَروں کی صف میں نہ صرف نمایاں ہونا، بلکہ ان سے سبقت لے جانا ، خداداد صلاحیتوں اور تائید ِ ایزدی ہی کی کرشمہ سازی تھی ، قلوب و اذہان میں انقلاب برپا کردینے والی خطابت اسی ہستی سے ممکن ہے جس کے ظاہر و باطن اور قول و فعل میں تضاد نہ ہو،جس کا یقین غیر متزلزل ہو اور جو اپنے نصب العین کی تکمیل میں اتنا مخلص ہو کہ ہر طرح ایثار و قربانی دے سکے۔

آپ کی ذات والا صِفات ان کے مشائخ اور ان کے اساتذہ کے لئے بھی باعث ِ فخر و مسرّت تھی، بلکہ ان کے اساتذہ کا یہ اعتراف غیر معمولی واقعہ ہے کہ انہیں اپنے اس لائق ترین شاگرد کی وجہ سے شہرت ملی ۔ خاندان کو ان پر ناز تھا اور ملک و ملت کا وہ سرمایۂ افتخار تھے اور مسلک ِ حق کے حوالے سے یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ مولانا اوکاڑوی ؒ کی ذات ہی پہچان اور عنوان ہوگئی تھی ، بلا شبہ یہ بہت بڑی سعادت تھی جو ان کے حصے میں آئی ۔ حق و صداقت پر استقامت اور راہِ حق میں ان کی عزیمت و ہمت اور نبی کریم ﷺ سے ان کی والہانہ عقیدت و محبت نے ان کے فکر و عمل اور تحریر و تقریر میں وہ اثر اور فیض و برکت رکھا تھا کہ وہ اہلِ حق کے مقتدا اور پیشوا ٹھہرے ۔

خطابت کے ساتھ ساتھ مولانا اوکاڑوی ؒ نے تحریر سے بھی گہرا شغف رکھا اور اس حوالے سے بھی وہ نہایت کام یاب اور مقبول رہے۔ ان کی ہر کتاب اپنے موضوع پر بہترین تحقیق شمار ہوئی ، وہ ہمہ وقت محنت کے خوگر تھے ۔ انہوں نے خود کو عطا ہونے والی ہر صلاحیت و قابلیت سے دِین و مسلک اور ملک و ملت کی بھرپور مثالی خدمت کی ۔ ایسی شخصیات کے لئے قدرت کا فیضان خاص ہوتا ہے ۔ ان کے وقت اور ہر کام میں برکت ہوتی ہے ۔ ابھی مولانا اوکاڑویؒ کی ظاہری عمر صرف چالیس برس کی مدت مکمل کرسکی تھی کہ مولانا نے صدیوں کے کام کرلئے تھے۔ ذرا ایک مختصر سی جھلک دیکھئے ۔

کھیم کرن مشرقی پنجاب کے مردم خیز علاقے میں ان کی وِلادت ہوئی۔ 2 رمضان المبارک تیرہ سو اڑتالیس ہجری تاریخِ ولادت ہے ۔ حفظ ِ قرآن سے تعلیم کا آغاز ہُوا ۔ اسی دَوران نعت خوانی بھی کی کیوں کہ انہیں لحنِ داؤدی سے خوب حصہ ملا تھا ۔ دِینی نصاب کی ابتدائی تعلیم بھی وہِیں ہوئی ۔ اپنے والد ِ گرامی کے ساتھ تجارت میں بھی شامل رہے۔ شرق پور شریف میں حضرت شیرِ ربّانی میاں شیر محمد شرق پوری ؒ کے چھوٹے بھائی اور جانشین حضرت میاں اللہ صاحب ثانی لا ثانی نقش بندی سے بیعت ہوئے اور انہی کی نظرِ کرم سے خطابت کا آغاز کِیا۔ اولیائے کرام کے اعراسِ مبارکہ اور محافلِ میلاد شریف میں یہ سلسلہ جاری رہا ، اپنے پیر و مرشد ہی کے ہمراہ تحریک ِ قیامِ پاکستان کے ہراوَل دستے میں شامل ہوکر مسلم لیگ کی کام یابی کے لئے جدو جہد کی ۔

انیس سو سینتالیس میں کھیم کرن سے ہجرت کرکے براستہ قصور شہر وہ اوکاڑا آئے ۔ اپنے اہلِ خانہ کو وہاں چھوڑ کر وہ مہاجرین کی خدمت کے لئے مہینوں مشغول رہے ۔ اوکاڑا میں اپنے والد ِ محترم حاجی شیخ میاں کرم الہٰی کے ساتھ پہلی مسجد کی بنیاد رکھی اور دِینی سرگرمیاں بھی جاری رہیں ۔ تجارت کا شغل بھی رہا ، شادی ہوئی ۔ جامع مسجد مہاجرین منٹگمری (ساہی وال ) میں نمازِ جمعہ کی خطابت شروع کی ۔ برلائی ہائی اسکول میں شعبۂ دِینیات کے انچارج رہے اور تدریس کی خدمات انجام دیں۔ روز ہی صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں دیہاتوںمیں خطاب کا سلسلہ رہا ۔ اوکاڑا میں شیخ القرآن مولانا علی اشرفی قادری آئے تو ان سے دِینی نصابی تعلیم کی تکمیل کی اور جی ٹی روڈ پر جامعہ حنفیہ اشرف المدارس کے نام سے دارالعلوم قائم کیا ۔ 1952-53ء میں تحریک ِ ختمِ نبوت شروع ہوئی تو اس میں ضلع منٹگمری کے امیر مقرر ہوئے اور مثالی خدمات انجام دیں جن کی ایک تفصیل ہے ۔ 

دفعہ 144 اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کئے گئے اور دس ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ، اسیری کے اس عرصے میں ان کے دو فرزند ایک عشرے ( دس دنوں ) میں وفات پاگئے، مگر مولانا کے عزم و ثبات میں فرق نہیں آیا۔ متعدد لوگ معافی نامے پر دستخط کرکے رہائی پاتے رہے، لیکن انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو واضح الفاظ میں کہا کہ میرا یقین اور قطعی عقیدہ ہے کہ رسولِ پاک ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور مرزا قادیانی بلاشبہ کذاب و دجال ہے ۔ معافی نامے پر دستخط کا مطلب اس صحیح قطعی عقیدے کا انکار ہوگا ، میرے دو بیٹے وفات پاگئے ہیں ، میری جان بھی چلی جائے، تب بھی مَیں اس صحیح عقیدے پر قائم رہوں گا اور معافی نامے پر دستخط نہیں کروں گا۔ اس جواب پر مزید سختی جھیلنی پڑی ، نظر بندی کی صعوبت برداشت کی ۔ دس ماہ کے بعد رہا ہوئے تو منٹگمری سے اوکاڑا تک عقیدت مندوں کے جلوس کا منظر ناقابلِ فراموش تھا ۔ 

اسیری سے رہائی پاکر ایک نئے جوش اور وَلوَلے سے دِین و ملّت کی خدمت میں سرگرمِ عمل ہوئے ۔ 1955ء میں پہلی مرتبہ ماہِ صیام کے آخری عشرے میں کراچی آئے اور کچھ وہی ہُوا کہ ’’ وہ آئے ، انہوں نے دیکھا اور فتح کرلیا ‘‘ ۔اس دوران ان کی چار تصانیف شائع ہوچکی تھیں ۔رسائل و جرائد میں شائع ہونے والی دیگر تحریریں اس کے سوا تھیں۔ تعلیمی تدریسی غرض سے ’’ اسلامی چارٹ ‘‘ کے جہازی سائز میں اشتہارات اور تبلیغی مساعی اس کے علاوہ تھیں ۔ 1956ء میں پہلی مرتبہ کراچی میں اہلِ سنت و جماعت کی طرف سے دس روزہ مجالسِ محرم سے انہوں نے خطاب کِیا ،جن سے پورا شہر ان کا گرویدہ ہوگیا ۔ 

کراچی میں تعمیر ہونے والی نیو میمن مسجد ، بندر روڈ ( ایم اے جناح روڈ) کے خطیب و امام مقرر ہوکر مستقل کراچی آبسے ۔ اسی سال 1956ء میں جماعت ِ اہلِ سنت قائم کی اور اسے ملک بھر کے مشرقی و مغربی علاقوں میں پھیلادیا ۔ نیو میمن مسجد میں روزانہ دَرس شروع کیا ، روزانہ بعد نمازِ عشاء اجتماعات سے خطاب کا سلسلہ تادمِ آخر جاری رہا۔ ایسا کوئی اور خطیب اس شہر میں نہیں ہُوا ، جس کا روزانہ ہی خطاب ہوتا رہا ہو، بلکہ ایک دن میں ایک سے زیادہ پروگرام ہوتے ہوں ۔ جماعت ِ اہلِ سنت کی طرف سے ہفتہ واری اجتماع بھی ہونے لگا اور تبلیغی اشاعت کے حوالے سے مولانا اوکاڑوی ؒ کی اہم اصلاحی اعتقادی تحریریں بھی طبع ہونے لگیں ۔ 

جماعت ِ اہلِ سنت کی طرف سے عید میلادالنبی (ﷺ) کے جلوس کا آغاز ہُوا - 1959ء میں حضرت نے پہلا مکان تعمیر کیا اور محفلِ میلاد سے افتتاح کیا ۔ نعت خوانی کے فروغ کے لئے نعتیہ مشاعرے منعقد کروائے اور کراچی میں پہلا مجموعہ نعت ’’ نغمہ حبیب ( ﷺ ) ‘‘ شائع کیا جس نے نعت شریف کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ کتنے نئے علاقوں میں مساجد و مدارس کی تعمیر کی ۔کراچی ہی سے وہ مشرقی پاکستان گئے اور وہاں بھی جماعت ِ اہلِ سنت کی شاخ قائم کی ،آپ نے وہاں بھی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے۔ 1962ء میں وہ بلاد اسلامیہ کے دَورے پر تشریف لے گئے اور سفر سے واپسی پر سفر نامہ بنام ’’ راہِ عقیدت ‘‘ شائع کِیا جو ان اسلامی ممالک کی زیارات کرنے والوں کے لئے راہ نما اور اُردو میں ان زیارات کے حوالے سے پہلا یاد گار مجموعہ ثابت ہُوا۔ ماہِ دسمبر 1962ء میں کراچی شہر کے علاقے کھڈا مارکیٹ میں دورانِ خطاب مولانا اوکاڑوی ؒ پر ان سے اعتقادی اختلاف رکھنے والوں نے قاتلانہ حملہ کِیا اور پانچ گہرے زخم لگائے ۔

اگلی صبح کراچی سے روزنامہ ’’ ڈیلی نیوز ‘‘ انگریزی کی پہلی اشاعت کا آغاز ہُوا اور اس کی شہ سرخی اسی قاتلانہ حملے کی خبر پر مشتمل تھی ۔ خطیب ِ اعظم پر ہونے والے اس قاتلانہ حملے پر ملک بھر میں شدید احتجاج ہُوا۔ حملہ آوروں میں سے دو افراد گرفتار کرلئے گئے ۔ مولانا اوکاڑوی نے کوئی مقدمہ نہیں کِیا ،صرف گواہ کی حیثیت سے اپنا بیان قلم بند کروایا اور حملہ آوروں کو معاف کردیا۔ ڈھائی ماہ وہ کراچی کے سول ہسپتال میں زیرِ علاج رہے، جہاں ان کی مزاج پرسی کے لئے آنے والے خواص و عوام کا روز تانتا لگا رہا۔ صحت یاب ہوتے ہی انہوں نے دِینی خطاب اور تعلیم و تدریس اور تحقیق و تصنیف کی سرگرمیاں جاری رکھیں اور پہلا خطاب اسی جگہ فرمایا ،جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہُوا تھا۔

بلاشبہ وہ راسخ العقیدہ تھے اور جرأت و عزیمت کی ناقابلِ تسخیر چٹان تھے ۔کراچی میں انہوں نے ’’ جامع مسجد غوثیہ ‘‘ قائم کی اور تاحیات اس کی انتظامیَہ کے سربراہ بھی رہے- 1965ء میں انہوں نے تحریک ِ دفاعِ پاکستان میں مثالی کردار ادا کِیا ۔ وہ آزاد کشمیر اور متعدد مقامات پر اگلے مورچوں تک گئے اور مجاہدین میں وَلوَلہ انگیز خطاب فرمائے اور جنگ سے متاثر ہونے والوں میں لاکھوں روپے کی مالیت کاجمع کِیا ہُوا خوراک و پوشاک کاسامان تقسیم کِیا اور ان کی دل جوئی اور اشک شوئی کی ۔ اس سفرمیں وہ اپنے آبائی شہر کھیم کرن بھی گئے ، اسے پاکستانی افواج نے فتح کرلیا تھا - ان دنوں مولانا اوکاڑوی ؒ نے ’’ جہاد و قتال ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کرنی شروع کی۔انہیں تحقیق و تحریر میں بہت انہماک رہا، 1953ء میں اسیری کے ایام میں بھی انہوں نے تفسیرِ قرآن اور شرحِ مثنوی مولانا روم ؒ کابہت ساکام کرلیا تھا۔

مجاہد ِ ملت مولانا عبدالحامد بدایونی کے ساتھ انہوں نے متعدد مرحلوں پر دِینی و سیاسی اور قومی و ملی خدمات بھی انجام دیں ۔ انہیں ہمہ جاں مستعد اور ہمہ وقت کارِخیر میں مشغول ہی دیکھا گیا ۔ صدقات ِ جاریَہ کے مولانا اوکاڑوی ؒ نے اتنے بہت سے کام کئے کہ اُن پر رشک ہوتا ہے ۔کراچی آمد سے پہلے ان کی شہرت و مقبولیت پنجاب اور مضافات تک تھی ، کراچی آنے کے بعد وہ ملک اور بیرونِ ملک مشہور و معروف ہوئے اور سمتوں میں ان کے لئے عزت و احترام اور عقیدت و محبت قابلِ دید تھی ۔ چالیس برس کے عرصے پر مسلسل محنت کا اتنا کٹھن اور اَن تھک سفر اور اتنے بہت سے کام ،ان کی مبارک زندگی ، ان کے صدق و اخلاص اور اپنے نصب العین سے ان کی پُر عزم کمال وابستگی ، حق پر ان کی مثالی استقامت اور ان سب سے بڑھ کر بارگاہِ حق تعالیٰ اور بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں ان کی مقبولیت اور ان کی مرتبت کو واضح کرتے ہیں ۔ 

اس مدت میں مولانا اوکاڑوی ؒ بے شمار افراد کے دل کی دھڑکن بن چکے تھے ۔ یہ اعزاز بھی انہیں حاصل تھا کہ اُن کے نام اور اُن کی آواز کا خواص و عوام میں اعتبار تھا ، لوگ اُن کے فِدائی اور شیدائی تھے ، وہ فکر و ذہن ہی نہیں قلب و رُوح کو انتہائی متاثر کردینے والے بے بدل و بے مثال خطیب و رہ نما تھے۔ ان کی جبیںکبھی شِکن آلود نہیں ہوئی ، انہوں نے کبھی اکتاہٹ اور تھکن محسوس نہیں کی ، تین مرتبہ قاتلانہ حملوں کے باوجود اُن کے عزم و استقلال اور جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ انہیں جب بھی دیکھا گیا کتابوں ، لوگوں اور کام میں گھرا دیکھا ، وہ میرِ کارواں تھے، اُن کی نگاہ بلند رہی ، پُرسوز جاں اور دل نواز سخن لئے وہ ایمانی و رُوحانی انقلاب کے لئے ہمہ دم کوشاں رہے۔

بڑے بڑے منصب داروں کو کام کی بہتات اور محنت کی کثرت سے گھبراتے دیکھا ہے، لیکن وہ تو محنت ہی میں عظمت پاتے رہے ، وہ مشقت میں راحت پاتے رہے ۔ اتنی بہت فضیلت و مرتبت کے باوجود انہیں تفاخر یا تصنع سے کوئی واسطہ ہی نہ تھا ، وہ نہایت ہَنس مُکھ اور کمال درجہ خوش اخلاق تھے ، تواضع و انکساری اور فروتنی ان کا خاصہ تھی۔ بہت سادہ اور وضع دار انسان تھے ۔ اکابر کے لئے ان کا متواضع ہونا اور اصاغر کے لئے ان کا مشفق و مہربان ہونا بطور نمونہ و مثال بیان کیا جاتا ہے ، انہوں نے 1970ء میں عملی سیاست میں بھی حصہ لیا اور کراچی کے ایک حلقے سے قومی اسمبلی کے لئے الیکشن میں کام یاب ہوئے ۔ اس دَور میں بھی اُن کے خطبات میں سیاسی وعدے یا دعوے نہیں تھے ،بلکہ نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ کے لئے ملّت کی تربیت تھی۔ کراچی میں بالخصوص مولانا اوکاڑوی ؒ کی محنتوں نے اہلِ سنت و جماعت کو سیاسی پلیٹ فارم پر بھی ایک نمایاں مقام بخشا ۔ 

قانون ساز ادارے کے معزز رُکن کی حیثیت سے بھی انہوںنے صدائے حق بلند رکھنا ہی اپنا اعزاز رکھا۔ سقوطِ ڈھاکا سے پہلے وہ متعدد مرتبہ مشرقی پاکستان گئے تھے ، انہیں سیاست دانوں کی بہت سی پالیسیوں سے شدید اختلاف تھا اور وہ مصالحت و مفاہمت کی کوئی گنجائش نہیں رکھتے تھے ، وہ یہی کہتے تھے کہ قرآن و سنت کی پابندی ہی میں ملک و ملت کی فوز و فلاح ہے، وہ مسلمانوں کے ماضی کی عظمت ِ رفتہ کے مطابق حال و مستقبل سنوارنے کی جدوجہد کے خواہاں تھے ۔ وہ 1977ء میں اس پارٹی ہی نہیں، بلکہ عملی مروجہ سیاست سے بھی لاتعلق ہوگئے ،کیوں کہ وہ ظاہر و باطن اور کردار و گفتار میں تضاد کی کسی پالیسی سے کوئی ہم آہنگی نہیں رکھتے تھے اور ان کی ترجیحات میں ا ن کا مسلکی تشخص اور مدنی تاج دار رسالت مآب ﷺ سے اُن کا ایمانی عہدوپیمان زیادہ اہم اور نمایاں تھا ، دُنیا ان میں شامل یا داخل نہیں تھی وہ خالص دِینی رُوحانی مزاج اور سوچ رکھنے والے سچے اور مخلص مسلمان تھے۔ 1974ء میں انہیں عارضہ قلب کی جسمانی شکایت ہوئی ، وہ تین ہفتے زیرِ علاج رہے۔ 

ملاقات کے وقفے میں اُن کے کمرے میں اور باہر ایک ہجوم ہوتا جو اُن کی ایک جھلک دیکھنے جمع ہوتا ۔ مولانا اوکاڑوی ؒ کی ایک خوبی اُن کی ذات کی ہمہ گیری بھی تھی ، ان کا ہر ملنے والا یہی کہتا نظر آتا کہ وہ جس قدر اس پر مہربان ہیں شاید ہی کسی پر ہوں ۔ خطیب ِ اعظم ؒ نے ہسپتال سے گھر آکر آرام نہیں کِیا اور پوری تن دہی سے اپنے تحریری و تقریری مشاغل جاری رکھے۔1972ء میں انہوں نے جامع مسجد گُل زارِ حبیب ( ﷺ ) کی تعمیر کی ذمہ داری قبول کی اور گل زارِ حبیب (ﷺ) ٹرسٹ قائم کرکے 1973ء میں اس مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا۔ 1976ء میں پہلی مرتبہ وہ افریقی ممالک کے دَورے پر تشریف لے گئے۔ جنوبی افریقا میں انہوں نے تین ماہ کا قیام کِیا اور اس مختصر مدت میں وہاں انقلاب برپا کردیا ۔ انہوں نے وہاں بھی جماعت ِ اہلِ سنت قائم کی اور پہلا دارالعلوم قائم کِیا ، وہ سوازی لینڈ اور زمبابوے بھی گئے ا ور ماریشس اور کینیا کا بھی دَورہ کِیا۔

1976ء میں انہیں دوسری مرتبہ عارضہ قلب کی شکایت ہوئی اور وہ ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ زیرِعلاج رہے، لیکن انہیں اپنی ذات کی پروا ہی کہاں تھی ؟ شاید انہیں احساس ہوگیا تھا کہ وقت اُن کے پاس زیادہ نہیں ، انہوں نے اپنی خدمات کی رفتار کچھ اور بڑھادی ، کچھ اور کتابیں انہوں نے مختصر عرصے میں مکمل کیں اور ہر کتاب مقبول ہوئی۔ مسجد گُل زارِ حبیب ( ﷺ ) کی تعمیر کا خاصا کام انہوں نے پورا کرلیا ۔ 1979ء میں وہ ایک مرتبہ پھر افریقی ممالک کے دَورے پر تشریف لے گئے ۔ اس عرصے میں بےشمار کیسٹیں اُن کی تقاریر کی وہاں ریلیز ہوچکی تھیں ۔ وطن میں انہوں نے صدرِ پاکستان کی قائم کردہ قائمہ کمیٹیوں سے تعاون کرتے ہوئے متعدد اسلامی قوانین کے مسودے تیار کروائے اور تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ کا قانون بنوانے کے لئے نمایاں بے باک کردار ادا کِیا ۔ وہ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کے رُکن بھی مقرر ہوئے ۔ 

تحریر و تقریر اور تحقیق و تبلیغ کا شغل تو ہمہ وقت جاری رہتا ، انہوں نے بغیر تخصیص کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور علاقے میں صدائے حق پہنچائی اور سفر یا دیگر کٹھنائیوں کو کبھی خاطر میں نہیں لائے ۔ آخری بیرونِ ملک سفر انہوں نے بھارت کا کِیا جس میں اجمیر شریف کے سالانہ عرس شریف میں شرکت کی۔ اُن کی شہرت و مقبولیت کا آفتاب پوری آب و تاب سے روشن تھا اور اُن کی ذات روشنی ہی کا عنوان تھی کہ ماہِ رجب ۱۴۰۴ ھ ( اپریل 1984ء ) میں انہیں تیسری مرتبہ عارضہ قلب کی شکایت ہوئی ،وہ تین دن ہسپتال میں زیرِعلاج رہے اور ۲۱ رجب ( 24 اپریل ) کی صبح فجر کی اذان کے بعد دُردو شریف کا وِرد کرتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اُن کی ابتداء بھی دُردو شریف کی سماعت سے ہوئی تھی اسی پر انتہا ہوئی اور وہ کتنے خوش بخت ہیں کہ آج بھی اُن کے مزارِ اقدس پر صبح و شام دُرود و سلام ہی کے زَم زَمے گونجتے ہیں…

تازہ ترین