• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزارتِ تجارت کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار پہلے سے معاشی مشکلات سے دو چار پاکستان کے لئے، تشویشناک ہیں، جن کےمطابق رواں مالی سال کے پہلے 8ماہ میں تجارتی خسارہ 9فیصد بڑھ گیا ہے۔ جولائی تا فروری تجارتی خسارہ 17ارب 30کروڑ 10لاکھ ڈالر رہا جبکہ گزشتہ مالی سال اسی عرصے میں تجارتی خسارہ 15ارب 87کروڑ 20لاکھ ڈالر تھا۔ جولائی تا فروری درآمدات 6.6فیصد بڑھ گئیں جو 33ارب 60کروڑ ڈالر رہیں جبکہ گزشتہ مالی سال اسی عرصہ میں درآمدات 31ارب 51کروڑ 50لاکھ ڈالر تھیں۔ جولائی تا فروری گندم کی درآمدات 90کروڑ 90لاکھ ڈالرز، چینی کی درآمدات 12کروڑ 60لاکھ ڈالرز جبکہ کپاس کی درآمدات کا حجم 91کروڑ 30لاکھ ڈالرز رہا۔ دنیا میں ایک دوسرے سے تعلقات در اصل معاشی مفادات کے مدِنظر ہی استوار کیے جاتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے تجارتی خسارے کی تو اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کسی ملک کی زرِمبادلہ میں آمدنی یعنی برآمدات و ترسیلاتِ زر، زرِمبادلہ کے اخراجات یعنی درآمدات اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی سے کم ہو جائے تو اسے رواں کھاتوں کا خسارہ کہتے ہیں۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے دنیا بھر کے ممالک زرِمبادلہ کا ایک بڑا ذخیرہ رکھتے ہیں۔اگر زرِمبادلہ کا ذخیرہ اس قدر کم ہو جائے کہ وہ رواں کھاتوں کے خسارے کو پورا نہ کر سکے تو ملک کے دیوالیہ یا ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پاکستانی معیشت کے اعداد و شمار پر نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان جس قدر برآمدات کرتا ہے، اس سے دگنی سے بھی زیادہ درآمدات کی جاتی ہیں، افسوس کہ بڑے پیمانے کی پرتعیش اشیاء بھی درآمد کی جاتی ہیں۔ اس کا واحد حل غیرملکی اشیا کی خریداری کی حوصلہ شکنی اور ملکی اشیا کی خریداری کی حوصلہ افزائی ہے۔ علاوہ ازیں اپنی معیشت کو مقامی بنیادوں کی فراہمی، اپنے وسائل پر انحصار، مالی بدعنوانیوں کا خاتمہ اور بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہی ہماری معیشت کو استحکام دے سکتا ہے۔

تازہ ترین