وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ تو حاصل کر لیا ہے مگر کیا سینیٹ کے انتخابات میں حکومت کے امیدوار وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے امیدوار مخدوم یوسف رضا گیلانی سے قومی اسمبلی میں شکست سے حکومت کو ہونے والے سیاسی نقصان کا ازالہ ہو جائے گا؟ معروضی حالات سے اس سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ نہ صرف نقصان کا ازالہ نہیں ہوگا بلکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت روز بروز کمزور ہوتی جائے گی۔
مذکورہ بالا پیش گوئی کا بنیادی سبب یہ حقیقت ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں تحریک انصاف کی حکومت قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو چکی تھی۔ صدر مملکت نے بھی آئینی اور قانونی طور پر اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ وزیراعظم ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اس لئے انہوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا تاکہ اس بات کا دوبارہ تعین ہو سکے کہ وزیراعظم کو ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہے یا نہیں؟ وزیراعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا انتظام تو کر لیا لیکن یہ ایک رسمی کارروائی تھی۔ سینیٹ کے انتخابات میں اکثریت کھو جانے کا جو حقیقی تاثر پیدا ہوا، وہ زائل نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سینیٹ میں ووٹنگ خفیہ رائے شماری کے طریقہ سے ہوئی، جو زیادہ قابلِ اعتبار اور جمہوری طریقہ ہے جبکہ اعتماد کے ووٹ کے لئے ارکان نے کھلے عام اپنی رائے کا اظہار کیا، جو زیادہ قابل اعتبار اور جمہوری طریقہ نہیں ہے کیونکہ سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ووٹر اپنے ضمیر اور سوچ کے مطابق آزادانہ فیصلہ کر سکتا ہے جبکہ اوپن بیلٹ کے ذریعے ووٹر کو یہ آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ سینیٹ میں ڈاکٹر حفیظ شیخ کی شکست سے حکومت کو لگنے والا گھاؤ بھرنے کی بجائے وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بشمول وزیراعظم عمران خان کا یہ موقف ہے کہ سیکرٹ بیلٹنگ یعنی خفیہ رائے شماری انتخابات میں کرپشن کا سبب ہے۔ وہ یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی نے پیسے لے کر اپنے ضمیر بیچے اور پارٹی کے مخالف امیدواروں کو ووٹ دیے۔ اگر اوپن بیلٹنگ یعنی کھلے ووٹ یا شو آف ہینڈ سے رائے شماری ہوتی تو یہ ضمیر فروشی نہ ہوتی۔ اس کے لئے وہ اعتماد کے ووٹ کی مثال دیتے ہیں۔ جمہوری معاشرے اس طرح کے دلائل کو مسترد کرتے ہیں اور ان کے نزدیک اوپن بیلٹنگ جمہوری معیارات کے مطابق نہیں ہے کیونکہ جو شخص اپنا ووٹ سب کے سامنے دے گا، اس پر بہت سے دباؤ ہوں گے۔ اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ کچھ ارکان نے پیسے لے کر ووٹ دیے ہوں اور اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ وہ وزیراعظم اور ان کی حکومت سے ناراض ہوں اور یہ سمجھتے ہوں کہ یہ حکومت عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکی۔ اگر معروضی حالات کو دیکھا جائے تو دوسرا امکان زیادہ نظر آتا ہے۔
یہ کہنا کہ آصف علی زرداری صرف پیسے کے بل بوتے پر سب پر بھاری ہیں، محض مخالفانہ سیاسی بیانیہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ طاقتور حکمران پرویز مشرف سے پوچھیں کہ انہوں نے صدر مملکت کی حیثیت سے قوم سے اپنے آخری خطاب میں رو رو کر اپنے استعفے کا اعلان کیا تھا تو انہوں نے کتنے پیسے لئے تھے؟ پاکستان جیسے ملکوں میں سیاست انتہائی خطرناک کھیل ہے۔ خاص طور پر جب مقتدر حلقوں سے ’’ایک پیج‘‘ پر نہ رہ کر سیاست کی جائے۔ آصف زرداری ایک Visionary، تجربہ کار اور زیرک سیاستدان ہیں اور وہ ہر طرح کے حالات میں نیا سیاسی راستہ نکالنا جانتے ہیں۔ جس ملک میں عوامی سیاست کرنے والوں کو ’’عبرت کا نشان‘‘ بنا دیا جاتا ہو، سیاست دانوں کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا ہو یا سڑکوں پر قتل کر دیا جاتا ہو، جہاں دہشت گردی سے سیاسی عمل روکا جاتا ہو، جہاں احتساب کے اداروں کو سیاست کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہو، جہاں بین الاقوامی ایجنڈوں کے مطابق ملک کے سیاسی عمل کو تہس نہس کر دیا جاتا ہو اور جہاں جہازوں میں لاد کر ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کی جاتی ہو، وہاں مثالی سیاست کی باتیں ’’یوٹوپیا‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں۔ تاریخ میں حتمی فیصلہ سیاسی قوتیں کرتی ہیں۔
اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں بھی وزیراعظم کا خطاب اسی پرانے بیانیہ کا اظہار تھا، جو میرے خیال میں اب غیر موثر ہو چکا ہے۔ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کا یہ کہنا درست ہے کہ اس حکومت کو دوبارہ نئی سیاسی زندگی ملی ہے۔ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ حکومت اب غریبوں کی طرف رجوع کرے۔ شیخ رشید احمد کا یہ اچھا مشورہ ہے لیکن وہ بھی جانتے ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ مارچ میں لانگ مارچ کے سیاسی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں حکومتی امیدوار ڈاکٹر حفیظ شیخ کی شکست برے انجام کا آغاز ہے۔