• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیسویں صدی میں تحریک برائے حقوق نسواں کے لیے جن کتابوں نے بنیاد کا کام کیا ان میں معروف فرانسیسی فلسفی ژاں پال سارتر کی رفیق حیات ’’ڈی بووائر‘‘ کی کتاب ’’دی سیکنڈ سیکس‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے، جسے عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ اس کتاب میں ’’ڈی بووائر‘‘ نے دنیا کو مردوں کی جنت قرار دیتے ہوئے لکھا ہےکہ ’’مرد ہر معاملے میں عورت کو ثانوی حیثیت دیتا ہے۔ وہ اپنا ذکر صنف اول اور عورت کا ’’دیگر‘‘ کی حیثیت سے کرکے اس امر سے انکار کرتا ہے کہ وہ بھی انسان ہے۔ 

عمومی سطح پر کی جانے والی گفتگو ہو یا کوئی علمی مباحثہ، ہر میدان میں مرد غالب حیثیت رکھتا ہے اور عورت مغلوب۔ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ عورت معاشی سرگرمیوںؒ میں حصہ لینے اور کچھ ایجاد کرنے کے لائق نہیں۔ ’’ڈی بووائر کے نزدیک ’’ہر عورت زندگی بھر تاریخی تسلسل کے نتیجے میں ملنے والے کردار اور آزادی کی خواہش کے مابین معلق رہتی ہے۔ ’’دیگر‘‘ کی حیثیت سے زندہ رہنے کی صورت میں اسے وہ زندگی گزارنا پڑتی ہے جو درحقیقت اس کی نہیں ہوتی۔‘‘

’’ڈی بووائر‘‘ کی بات پر یقین سترہ سالہ شاہنواز شامی عرف شانو کی داستان حیات سن کر آگیا۔ جسے پڑھتے ہوئے کبھی آپ کے منہ میں حلاوت گھل جائے گی اور کبھی حلق تک کڑواہٹ کی لکیر کھنچ جائے گی۔15 دسمبر 2020ء کی خنک شام تھی۔ فائیو اسٹار ہوٹل کے ہال میں خواتین کی ایک بین الاقوامی تنظیم کی جانب سے ورک شاپ تھی۔ موضوع تھا ’’معاشی بحران میں خواتین کا کردار، صنفی تفریق کے آئینے میں‘‘ ہال میں ٹھنڈ کے باوجود گرمائو کا احساس ہو رہا تھا، اس کی وجہ غالباً شانو کا دلوں کو گرما دینے والا پرجوش خطاب تھا۔ ہال میں ڈھائی تین سو کے مجمع کے باوجود سناٹا تھا۔ 

ایسا محسوس ہو رہا تھا خاموش فضا میں جوش تیر رہا ہے۔ اس کی آواز کی جڑیں حلق میں نہیں دل میں تھیں۔ سماعت ہر سمت سے ناتا توڑ کر اسی کی جانب متوجہ تھی اور دل و دماغ یک سوئی کے ہم رکاب تھے۔ تالیوں کے شور میں شانو ڈائس پر آئی تو اس کی حالت مرغی کے بچے کی مانند تھی، جو پہلی بار ماں کے پروں کے نیچے سے نکل کر دنیا دیکھتا ہے۔ ڈرا ڈرا، سہما سہما۔

چند ثانیے بعد اس کے لب وا ہوئے۔ گئے دنوں کا حساب اور داغ حسرت کا شمار کرتے ہوئے وہ پانی کی روانی کی طرح بولتی گئی، ٹھہرائو اس وقت آیا جب کیمروں کی چکا چوند سے اس کی آنکھیں جھپک گئیں۔

شانو، زندگی کی اس کہانی کا مضبوط کردار ہے، جہاں تلخ حقیقتیں منہ پھاڑے کھڑی رہتی ہیں۔ وہ پیدا تو ماہی گیروں کی بستی بھٹہ ولیج کی ایک جھونپڑی میں ہوئی لیکن پلی بڑھی ایسے علاقے میں جہاں مہنگائی پروف لوگ رہتے ہیں، جہاں ایک چھوٹا سا فلیٹ خریدنے کے لیے بھی بینک اکائونٹ میں کم از کم ایک کروڑ روپے ہونے چاہئیں۔ اونچی اونچی عمارتوں اور بنگلوں کے ایک جانب بیٹھی خالی زمین پر کتابوں سے الجھتی رہتی۔ اس نے دس سال کی عمر میں اسکول کو اس وقت خدا حافظ کہا، جب بہت سی بچیاں کاپیوں پر لکھنے کے بجائے اپنے ہاتھ کی لکیروں کو سنوارنے کے لیے اپنے آپ کو زخمی کرلیتی ہیں۔ 

کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں بناتے بناتے شانو کی سوچ کے دائرے پھیلتے گئے۔ وہ کچی زمین پر رہتے ہوئے بڑی دنیا کے خواب دیکھنے لگی، لیکن افلاس کے بادل مزید گھر کر آئے تو اسے پانچویں جماعت کا اپنا چھوٹا سا بستہ بکس میں بند کرنا پڑا۔ خوشۂ گندم کے حصول کے لیے اس نے اپنی ساری خوشیوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ اس وقت اس کی ماں گڑیاں بنا کر گھر گھر بیچنے جاتی، جو کماتی وہ شانو کی تعلیم اور روٹی پر خرچ کردیتی، ایک دن شانو نے محسوس کیا کہ ماں اب زیادہ عرصے تک گڑیاں نہ بنا سکے گی۔ 

سوئی میں دھاگا پروتے وقت اس کے ہاتھ کانپنے لگے ہیں کبھی کبھی تو وہ گڑیا کی صرف ایک آنکھ بنانے کے بعد تھک کر لیٹ جاتی ہے، اس وقت کانی سی گڑیا شانو کو چڑیل لگتی، جیسے وہ اس کی ماں کی ساری توانائی اپنے اندر سمیٹ لینا چاہتی ہو، ایک دن اس نے ماں کے ہاتھ سے سوئی دھاگا لے لیا اور خود گڑیاں بنا کر مختلف مارکیٹوں اور گھروں ہی میں نہیں گھر کے باہر سڑک کنارے بھی آوازیں لگا لگا کر بیچنے لگی، جیسے جیسے محنت کا معاوضہ اس کی مٹھی میں آتا گیا اسے اپنے خواب کی تعبیر پوری ہوتی نظر آنے لگی۔ خواب یہ تھا میرا بھی اپنا گھر ہو، جہاں اپنی ماں کے ساتھ رہوں۔ وقت ملے تو کتابوں سے دوبارہ سلسلہ جوڑ لوں۔ جب اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ماں نے سڑک پر گڑیاں بیچنے سے منع کردیا۔ 

اس وقت اس نے سوچا، میں اپنے گھر میں ’’ڈول ہائوس‘‘ کھول لوں اور بنگلوں، فلیٹوں کی مالکنوں سے کہوں، میری صرف اتنی مدد کردیں کہ آپ کے گھر جو مہمان آئیں،جن خواتین کو آپ جانتی ہوں، انہیں میری گڑیاں دکھا دیں، شاید وہ خرید لیں۔ ایک معصوم بچی کی بات کا مالکنوں پر اثر ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے اس کا کام بڑھتا گیا۔ دن کے بارہ سولہ گھنٹے گڑیاں بناتی اور ان کے کپڑے سیتی رہتی۔ آج شانو کا ڈول ہائوس کچے گھر سے پکے گھر میں منتقل ہوگیا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا خواب تو اس کا ادھورا رہا لیکن اس نے اپنے گھر میں بھوک کا ڈیرا ختم کردیا۔ 

ٹوٹے پھوٹے تنکے، ننھے منے ذرے، چھوٹے چھوٹے پتھر، بظاہر بڑے حقیر نظر آتے ہیں، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ آشیانوں کی بنیاد میں یہی غیر اہم چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ شانو نے اپنی گڑیوں کی آنکھیں چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنائیں، ٹوٹے تنکوں سے بال بنا کر ان میں نیا پن پیدا کیا۔ اس کی گڑیاں کراچی کے پنج ستارہ ہوٹلوں کے شوکیس میں بھی سجی نظر آتی ہیں۔شانو، بڑے بڑے دفتروں میں گھومنے والی کرسی پر بیٹھ کر اہم دستاویز پر دستخط تو نہیں کرتی، لیکن اپنی گڑیوں کی فروخت پر بھاری بھرکم چیک ضرور وصول کرتی ہے۔ اس نے ہال پر نظر ڈالتے ہوئے، فخریہ انداز میں کہا ’’ڈگری سے بڑی چیز ہنر ہے۔‘‘

شانو کے ہونٹوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے والے الفاظ نے سامعین کو مبہوت کردیا تھا۔ اس نے محنت سے اپنے گھر کے ہی نہیں، اپنے جیسی ان خواتین کے حالات بھی بدلے جو اپنے شوہر سے تنگ تھیں، بچوں کی خاطر اپنی دنیا بدلنا چاہتی تھیں۔ انہیں قدم قدم پر مسائل لاحق ہوئے، مردوں کی قہر آلود نظروں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ آگے بڑھتی رہیں اور مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جو عورت مرد کی غالب حیثییت کو للکارتی ہے، وہ خطرہ بنتی ہے، اس کے لیے زندگی دشوار کردی جاتی ہے۔ جو عورتیں اپنے وجود کو اولیت دیتی ہیں اور مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر صنفی تفریق ختم کرنا چاہتی ہیں، انہیں عجیب و غریب القابات سے نوازا جاتا ہے۔ دراصل کوئی بھی چیز یا بات اچانک شروع ہوتی ہے نہ ہی اچانک ختم ہوتی ہے۔ پس پردہ طویل عرصے تک مختلف النوع عوامل جمع ہوتے رہتے ہیں پھر کہیں پردے کے اوپر کچھ نمایاں ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک پھول سے پھل دار درخت بننے تک، ایک اینٹ سے مکان کی تعمیر تک، خواب سے تعبیر تک، خواہ مثبت ہو یا منفی، لمحے بھر میں طے نہیں ہوجاتا۔

ایک بچہ بھی دنیا میں آنکھ کھولنے سے پہلے نو ماہ شکم مادر میں گزارتا ہے، پھر اس کے تربیتی مراحل بہ تدریج آگے بڑھتے ہیں۔ چٹکی بجاتے ہی الہ دین کے جادو کے چراغ کی طرح کچھ بھی اچانک نہیں ہوتا۔ خواتین بھی آہستہ آہستہ آگے بڑھیں، آج کوئی کچھ کہے سچ یہی ہے کہ مردوں کے معاشرے میں انہوں نے اپنی اہمیت اس طرح تسلیم کرائی ہے کہ خود مرد حیران ہیں، پھر بھی وہ دبے دبے لفظوں میں اب بھی عورت کو کم زور، کم تر کہنے سے باز نہیں آتے، لیکن کسی کے کہنے سننے سے کیا ہوتا ہے۔ آج کی عورت پرانی سماجی اقدار سے کھلی بغاوت کرکے ایک تحریک منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو اس تصور پر استوار ہے کہ اب صنفی امتیازات کو ختم ہوجانا چاہیے۔ عورت کو بہ طور انسان وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو ایک مرد کو حاصل ہیں۔

بدلتے دور میں اس نے یہ بھی جان لیا کہ، سائنس و ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث معاشی ترقی کے عمل میں جسمانی قوت سے زیادہ ذہن کی طاقت کی اہمیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جلد مردوں کی وہ سبقت ختم ہوجائے گی جو انہیں اب تک حاصل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’نصف بہتر دنیا کو بہتر بنانے کی تگ و دو کر رہی ہے۔‘‘ ان میں گھریلو خواتین بھی ہیں اور دور افتادہ دیہات میں مقیم خواتین بھی۔ وہ کارباری ادارے کھڑے کر رہی ہیں۔ اسکول قائم کر رہیں۔ کرپشن کے خلاف لڑ رہی ہیں۔

نئی ٹیکنالوجیز متعارف کروا رہی ہیں۔ گھروں میں بیٹھ کر رائے عامہ ہم وار کر رہی ہیں۔ یہ بات بھی عیاں ہو رہی ہے کہ جب کوئی لڑکی یا خاتون مضبوط اور با اختیار ہوتی ہے تو اس کے ارد گرد کا معاشرہ تیزی سے تبدیل ہونے لگتا ہے۔ اس کا اندازہ تیونس، مصر، یمن، بحرین، لیبیا اور اردن کی جائزہ رپورٹوں سے بہ آسانی ہوجائے گا جن میں پرجوش خواتین قائدانہ کردار ادا کرتی نظر آئیں۔ اخبارات میں شائع ہونے والی تصاویر، ٹیلی ویژن چینلز میں دکھائے جانے والے مناظر، فیس بک کے فورمز میں خواتین کو بھرپور انداز میں سرگرم دیکھا گیا ہے۔ کیا مصر کی 26 سالہ اسما محفوظ سے کوئی نظریں چرا سکتا ہے۔ جس نے اپنی تقاریر کے ویڈیو کلپس تیار کیے اور ان کےذریعے مصر کے سوئے ہوئے مردوں کی غیرت کو للکارا۔ ایک لڑکی کے چیلنج پر ہر مرد میدان میں نکل آیا۔ یہ اسماء محفوظ ہی تھی، جس نے حسنی مبارک کے خلاف فیصلہ کن تحریک کا علم بلند کیا، جس کا نتیجہ خاطر خواہ نکلا۔

اٹلی کی ’’ایمایونیو‘‘ گزشتہ 36 برس سے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ایمایونیو، نے شمالی افریقا میں خواتین کو سماجی، سیاسی شعبوں میں برابری کی ضمانت فراہم کرنے اور ان کی صحت کے حوالے سے اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے طویل جدوجہد کی۔ اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد اب ایمایونیو، ترقی پزیر ممالک کی خواتین کے لیے کام کر رہی ہیں۔ امریکا میں مقیم ایک فلسطینی تارک وطن کی بیٹی، ڈیبی فرح، طویل عرصے سے لوگوں کو غربت کی زندگی سے باہر نکالنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ 

سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ڈیبی نے کہا ’’غربت کے خاتمے کے لیے میں نے مرد عورت میں تخصیص نہیں کی، جب ہم صنفی برابری کی بات کرتے ہیں تو کام کرتے ہوئے بھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ کس کے لیے کریں اور کس کے لیے نہ کریں، ایسی سوچ ترقی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔‘‘ ڈیبی، امریکا میں ایک کمپنی کی چیف ایگزیکٹو ہیں۔ آج کل وہ بھارت، چین اور افریقا میں خواتین کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔

آٹھ سال قبل چٹاگانگ کی ایک وکیل 41 سالہ سیدہ رضوانہ حسن نے تن تنہا جہاز توڑ کمپنیوں سے ٹکر لی اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئیں۔ گرچہ رضوانہ کی جدوجہد سے وہاں کارکنوں کو بڑی سہولتیں مل گئیں۔ ان کی زندگیوں کو لاحق خطرات کم ہوگئے لیکن اب رضوانہ بندرگاہوں میں نہیں جاتیں کیوں کہ وہاں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ رضوانہ نے ایسا کیا کچھ کیا کہ ان کی جان کو خطرات لاحق ہوگئے؟

اس بارے میں انہوں نے نمائندہ خلیج کو دیے گئے تفصیلی انٹرویو میں بتایا ’’میں ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ باہر والے بنگلہ دیش کو، کوڑا دان سمجھیں۔ یہ بات میری قوم اور میرے ملک کی آن کے خلاف ہے۔نو سال قبل روزانہ ہزاروں بنگلہ دیشی مرد ساحلوں کا رخ کرتے، جہاں وہ بحری جہازوں کو توڑتے، یہ کام سولہ گھنٹوں کی دو شفٹوں میں مسلسل ہوتا، لیکن جہازوں پر ان گنت خطرے مثلاً دھاتوں کے کٹنے سے نکلنے والا کثیف دھواں، مضر صحت گیسیں، کیمیکل وغیرہ ان کے منتظر ہوتے، پھر آگ لگنے یا دھاتیں گرنے سے بھی وہ موت کے منہ میں چلے جاتے، جو زندہ بچ جاتے انہیں کوئی موذی بیماری چمٹ جاتی، جیسے کینسر، زیادہ تر کارکن پانچ چھ سال کام کرکے گائوں پہنچتے تو وہ ’’نوجوان بوڑھے‘‘ ہوتے، ایسی تھکن سے چُور کہ کوئی کام کرنے کے قابل نہ رہتے۔ آٹھ سال قبل میں ان لاچار کارکنوں کے لیے کھڑی ہوئی۔ 

جہاز توڑ کمپنیوں اور حکومت پر زور دیا کہ جہازوں پر کام کاماحول صاف ستھرا اور محفوظ بنایا جائے۔ بندرگاہوں پر لیبر قوانین سرے ہی سے عنقا تھے۔ میں ان کا بھی پوری طرح نفاذ چاہتی تھی، سو سپریم کورٹ میں یہ پٹیشن دائر کی کہ جو غیر ملکی کمپنیاں بحری جہاز بنگلہ دیش بھجوائیں، انہیں پابند بنایا جائے کہ وہ انہیں ہر قسم کے کیمیائی مادوں، خطرناک دھاتوں اور گیسوں سے پاک کرکے روانہ کریں۔ سپریم کورٹ نے میرا استدلال تسلیم کرتےہوئے حکومت کو حکم دیا کہ وہ تمام بندرگاہوں میں کارکنوں اور ماحول کا تحفظ کرنے کے سلسلے میں ہر ممکن اقدامات کرے۔‘‘ بنگلہ دیش میں ہر سال 150 بحری جہاز توڑے جاتے ہیں۔ یہ کام یقیناً نوکریاں پیدا کرتا ہے مگر رضوانہ کا استدلال تھا ایسی ملازمت کس کام کی جو انسان کو کینسر کا مریض بنا دے۔ رضوانہ خواتین ہی نہیں مردوں کے بھی مسائل سنتیں اور انہیں حل کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ وہ کام میں تفریق نہیں کرتی ہیں۔

کسی بھی عورت کی ذہنی پے چیدگی دراصل اس سوچ کی کوکھ سے جنم لیتی ہے کہ وہ معاشی اعتبار سے اپنے اہل خانہ کے لیے کسی کام کی نہیں۔ اس کا معاشی طور پر انحصار پزیر رہنا اس کے اپنے وجود کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ معاشی انحصار پزیری نے ہی عورت کے لیے مختلف سانچے تیار کیے ہیں جن میں وہ ڈھلتی رہتی ہے یا ڈھلنے پر مجبور ہونا پڑتاہے۔ اگر عورت اپنی گزر بسر کا اہتمام کرسکتی ہو تو پھر اس کے لیے آزادی کا حصول بھی چنداں دشوار ثابت نہیں ہوتا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کے مختلف معاشی اور سماجی کردار رہے ہیں۔ 

خواہ وہ دور شکار کرکے گزارا کرنے کا ہو یا کھیتی باڑی کا یا پھر صنعتی و اطلاعاتی انقلاب کا، ہر زمانے میں عورت نے بھرپور معاشی اور معاشرتی کردار ادا کیا ہے، لیکن معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ عورت کے کردار کو محدود کرنے کا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ غیر روایتی کردار اپنانے والی عورتوں کو بھی مردوں کے مقابلے میں محکومیت کی راہ پر گام زن ہونا پڑتا ہے۔ بسا اوقات جب عورت اپنی آزادی سے محروم ہوتی چلی جاتی ہے تو خود کو اپنے ہی عکس کے حوالے کردیتی ہے۔ لیکن ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے بھی انسان سمجھا جائے اور ہر معاملے میں اس کی رائے کو بھی اتنا ہی اہم سجھا جائے، جتنا کسی مرد کی رائے کو سجھا جاتا ہے۔

نکتہ ور اس سوال پر غور کر رہے ہیں کہ خواتین خواہ مغرب کی ہوں یا مشرق کی ہر میدان میں نہایت پراعتماد اور مضبوطی سے قدم جما رہی ہیں اگر وہ آگے بڑھتی رہیں تو کیا ہوگا؟ متعدد ماہرین معیشت نے دنیا میں عورت راج قائم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ یعنی ایک ایسی دنیا معرض وجود میں آسکتی ہے جس میں بیرونی دنیا کے سارے کام عورتیں کر رہی ہود گی اور مرد گھر کا نظام سنبھال رہے ہوں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سب کچھ عورت کے ہاتھوں میں ہوں ان کے اختیار میں ہو، لیکن اس کے باوجود ترقی پزیر ملکوں سمیت مغربی ممالک کی خواتین آج بھی اپنے حقوق اور آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ عورت کے خود مختار ہونے کے باوجود مردوں کی بالادستی اور حکم رانی آج بھی قائم ہے جب کہ معاشرے میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے اور مختلف شعبہ ہائی زندگی میں ان کی اہمیت تسلیم کرنے کی دعوے دار مہذب دنیا صنفی امتیاز کے خاتمے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ 

دوسری طرف قدامت پرست معاشروں میں عورت کو گھر کی چہار دیواری تک محدود رکھا جاتا ہے، جس کی بڑی وجہ ناخواندگی ہے تاہم خواتین کو کم تر سمجھنے کے رجحان میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے، لیکن اب بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنے اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو ان کے جائز حقوق اور انہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع د یے جائیں۔ خود کو منوانے والی بیش تر خواتین کی زندگی کا ابتدائی دور اپنے گھروں میں بے جا پابندیوں اور معاشرے کی ناانصافیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گزرا۔

آج یہ باہمت اور بلند حوصلہ خواتین اپنے اپنے شعبوں میں اہم اور نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں ، آسٹریلوی مصنفہ پروفیسر شہلا جیفریز نے چند سال قبل ایک کتابچہ بہ عنوان "Love your Enemy" تحریر کیا تھا، جس میں اس نے عورتوں کے مردوں کی خاطر سجنے سنورنے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس رویے کو ’’دشمن سے محبت‘‘ قرار دیا تھا۔ اس نے کتابچے میں لکھا ہے کہ ’’آزادیٔ نسواں کا نعرہ لگانے والی خواتین عورتوں کوآزاد کراسکیں، نہ ان کو حقوق دلاسکیں مگر انہوں نے عورتوں کو گھروں سے باہر لاکر کھڑ کردیا۔ 

پروفیسر شہلا کے نزدیک عورت اور مرد کی مساوات کی باتیں بالکل فضول ہیں۔ وہ صنفی برابری کے نعرے کو مردوں کی مکاری قرار دیتی ہے۔ عورت مردوں کی اس نفسیات کو بآسانی تبدیل کرسکتی ہے لیکن وہ تو خود مرد کی تابع و مطیع ہوکے رہ گئی ہے۔ انھوں نے اپنے پیروں میں بندھی زنجیریں اس طرح توڑ دیں کہ ترقی یافتہ ممالک بھی یہ کہنے اور تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ صنفی مساوات اس وقت تک ناممکن ہے جب تک خواتین کو سماجی پیداوار کے کام سے الگ رکھ کر خانہ داری کے کام تک جو نجی کام ہیں محدود رکھا جائے گا۔

پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین کو اپنے آپ کو منوانے کے لیے طویل جدوجہد کرنا پڑی، جیسے جیسے انہیں اپنی قوت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا گیا وہ اپنا دائرۂ اثر وسیع کرتی گئیں۔ معمولی ملازمت کرتے کرتے آج وہ ذاتی کاروبار کر رہی ہیں۔ امریکی جریدے ٹائم کے مطابق ہمیں جس معاشی بحران کا سامنا ہے اس کا حل ہی نسائی قوت سے ہوگا۔ بعض شواہد اس بات کی طرف بڑا واضح اشارہ کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں اقوام کی معیشت کا انحصار مردوں سے زیادہ عورتوں پر ہوگا۔ 

جریدے کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کے معاشی کردار اور اثر پزیری میں اضافہ ہوا ہے۔اب دنیا میں برابری کی باتیں ہو رہیں ہیں۔ ہماری سوسائٹی کے وژن کے مطابق اگر عورتوں اور مردوں کو کام کرنے کے لیے یک ساں مواقع ملیں۔ تن خواہ اور دیگر مراعات میں صنفی تفریق نہ کی جائے تو اس میں سب کا بھلا ہوگا۔ مساوات ہر ایک کے فائدے میں ہے۔ اس سے معیشت مضبوط ہوگی۔ آجر کو مردوں ہی کی نہیں عورتوں کی بھی بہترین ورک فورس ملے گی۔

دنیا کی تاریخ بڑی زرخیز ہے۔ یہ اور بھی زرخیز ہوسکتی ہے اگر مرد دنیا کو زیادہ بہتر جگہ بنانے کے لیے حقوق نسواں کی حمایت، مساوات کی ترویج اور خواتین کے تجربات کی قدر کریں۔ یہ فرضی کہانیاں کہ عورت صرف اولاد کی پرورش کرے۔ پیسے کے لیے بھی شوہر کی طرف دیکھے۔ گھر کے کام کاج کرے، مشینوں سے دور رہے اور دوسری طرف مرد طاقت ور بنیں، گھروں میں حکم رانی کریں، مالی حالت خراب ہوں تو بیوی بچوں کو نظر انداز کرکے صرف اپنے بارے میں سوچیں۔ یہ سب باتیں مرد اور عورت کی حدود کو متعین کرتی ہیں۔

مستقبل میں عالمی سطح پر خواتین روزگار فراہم کرنے میں مردوں سے آگے ہوں گی

برطانوی روزنامہ ’’آبزرور‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ معاشی میدان میں خواتین کا بڑھتا ہوا کردار مختلف بڑی کمپنیوں کے مالکان کے شروع کیے گئے منصوبوں کا مرہون منت نہیں، دراصل یہ کام یابی ان معاشی حقائق کا نتیجہ ہے، جو دنیا کی اہم معیشتوں میں خواتین کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو سمجھنے کے ضمن میں سامنے آئے ہیں۔ حالات اس بات کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ آنے والی چند دہائیوں میں دنیا بھر میں نہ صرف خواتین کارکنان کی تعداد میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ سرمایہ کاری کے ذریعے روزگار فراہم کرنے میں بھی مردوں سے آگے ہوں گی۔

رپورٹ کے مطابق امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کا معاشی کرادر وسیع تر ہوتا جارہا ہے عالمی سطح پر خواتین، خریدار کی حیثیت سے بھی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی مارکیٹ کے طور پر سامنے آرہی ہیں، یہ غیر معمولی تبدیلیاں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ 2019کے مطابق امریکا میں ملازمت پیشہ افراد میں صنفی اعتبار سے پایا جانے والا فرق ختم ہونے سے امریکا کا جی ڈی پی 9 فی صد تک بڑھ جائے گا۔ کئی تحقیقاتی رپورٹس اس بات کا انکشاف کرچکی ہیں کہ جن کمپنیوں کے فیصلہ سازوں میں خواتین شامل ہیں۔ 

انہوں نے نسبتاً کم خواتین ملازمین کو تربیت کی فراہمی اور ان کے پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے کے لیے اقدامات کیے، ان کے سالانہ منافع میں 34 سے 36 فی صد اضافہ ہوا۔ وائٹ ہائوس امریکا میں عوامی امور کے شعبے کی ڈائریکٹر کرسٹینا شین کے مطابق خواتین میں تعلیم اور بڑھتی ہوئی خود مختاری کے باعث معاشرتی استحکام اور معاشی ترقی میں مدد مل رہی ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں بھی یہ کردار باسانی دیکھا جاسکتا ہے۔

 الجزائر: اقتدار پر مردوں کا غلبہ لیکن معاشرے میں خواتین چھارہی ہیں 

الجزائر جہاں کبھی خواتین گھروں تک محدود رہتی تھیں اب وہاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں خواتین معاشی اور سیاسی میدان میں اس طرح سامنے آرہی ہیں جس کی نظیر عرب دنیا میں نہیں۔ ایک ایسے خطے میں جہاں خواتین ماضی میں قطعاً غیر نمایاں رہی ہوں، وہاں اب وہ ہر شعبے میں نظرآرہی ہیں اور تو اور انہوں نے ٹیکسیاں اور بسیں بھی چلانا شروع کردی ہیں، وہ ہوٹلوں میں ویٹری کے ساتھ پیٹرول پمپوں پر پیٹرول بھی بھر رہی ہیں۔ 

اگرچہ اقتدار پر ابھی تک مردوں کا غلبہ ہے اور افرادی قوت میں 20 فی صد حصہ خواتین کا ہے جو کہ پچھلی نسلوں کے مقابلے میں دگنے سے بھی زائد ہے لیکن دکھائی یہ دے رہا ہے کہ وہ ریاستی مشینری پر بھی جلد غلبہ حاصل کرلیں گی۔ سماجی تجزیوں کے حوالے سے شائع ہونے والے رسالے ’’نقد کے مدیر داہوربیل نے چند سال قبل میں ایک اداریے میں لکھا کہ، اگر یہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو ہم جلد ہی ایک نیا مشاہدہ کریں گے جب ہماری عوامی انتظامیہ کی باگ ڈور خواتین سنبھال رہی ہوں گی اور یہ تبدیلی ان الجزائری شہریوں کو حیرت زدہ کردے گی جو برسوں سے اقتدار کے لیے جدوجہد کی کوشش کرنے والی حکومتی پارٹی اور اسلام پسندوں کو فوکس کیے ہوئے ہیں ،انہوں نے خواتین کو اس دوڑ میں شامل ہی نہیں کیا۔ 

انٹرنیشنل کرائسز گروپ شمالی افریقا کے پروجیکٹ کے ڈائریکٹر اور مورخ ہیوگ رابرٹ کی ایک تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ الجزائر کے زیادہ تر مرد کیریئر اور معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کے بجائے بہتر روزگار یا ملک سے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن خواتین کی صورتحال مختلف ہے۔ 

اعلیٰ تعلیم کا حصول انہیں گھر سے باہر لے آیا ہے اور وہ معاشرے میں بہتر مقام کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق الجزائری خواتین کی نئی نسل نے اسلام پسندوں اور سیکولر ریاست کے درمیان ایک نئی سمت کی رہنمائی کی ہے، یہ تبدیلی معاشرتی حلقوں کی جانب سے نہیں بلکہ خواہشات اور بہتر حالات کی وجہ سے آرہی ہے۔

کرپشن کے خلاف جنگ جیتنے والی نائجیریا کی ڈاکٹر ڈورا، کیم اکیونیلی 

2001 ء کی بات ہے، اس وقت نائیجیریا کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا تھا، جہاں جعلی ادویات سب سے زیادہ فروخت ہوتی تھیں، نہ جانے کتنے لوگ ان کے استعمال سے موت کے منہ میں گئے، لیکن جب ڈاکٹر ڈورا کی بہن کی موت جعلی انسلولین اور جعلی اینٹی بائیوٹکس کھانے سے ہوئی تو ڈورا نے غضب ناک لہجے میں اپنی مری ہوئی بہن کو پیار کرتے ہوئے کہا ’’میں آئندہ کسی کو جعلی ادویہ سے مرنے نہیں دوں گی، میں اپنی جان پر کھیل کر اس مکروہ کھیل کو ختم کرکے رہوں گی‘‘ وہ ایک ایسے ملک میں رہ رہی تھی، جہاں ہر جگہ جعلی ادویات کا راج تھا۔ 

افریقی ممالک نے نائیجیریا سے آنے والی بہت سی درآمداتٓ بالخصوص ادویات پر پابندی عائد کر رکھی تھی ڈورا نے جعلی ادویات کے مکروہ دھندے کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ نیشنل ایجنسی فارڈرگ اینڈ فوڈ ایڈمنسٹریششن مخصوص راہداری کا ایک دروازہ بن چکا ہے جہاں کمپنیاں رشوت ادا کرکے ملکی مارکیٹ میں داخل ہوجاتیںاورپھر انہیں کھلی جھوٹ مل جاتی کہ جو چاہیں اور جیسی چاہیں اشیاء لوگوں کو خریدنے پر مجبور کردیں اور تو اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھی نائیجرین لوگوں کو تر نوالہ سمجھ لیا تھا یہ سب کچھ جان کر ڈورا نے تہیہ کرلیا کہ ڈاکٹر بننے کے بعد کرپشن مافیا کا خاتمہ کرکے رہوں گی۔ 

خوش قسمتی سے ڈورا ’’نیف ڈیک‘‘ کی ڈائریکٹر جنرل بن گئیں۔ چارچ سنبھالنے کے دوسرے دن ہی ڈورا نے میڈیسن مارکیٹوں اسپتالوں اور کلینکس کا اچانک دورہ کیا پھر یہ سلسلہ تسلسل سے جاری رہا۔ ہر دورے میں جعل سازی کے نئے نئے انکشافات سامنے آئے تو ڈورا نے ورلڈ ہیلتھ آرئنائزیش کے تعاون سے ملک بھر میں سروے کرایا تو معلوم ہوا کہ مارکیٹوں میں آدھی سے زیادہ ادویات جعلی ہیں جو دھڑا دھڑ فروخت ہو رہی ہیں، جب کہ اسپتالوں میں غیر معیاری اور استعمال شدہ ڈرپس مریضوں کو لگائی جارہی ہیں یہ سب کچھ جاننے کے بعد ڈاکٹر ڈورا نے سب سے پہلے اپنے شہر ’’کانو‘‘ کی میڈینسنز مارکیٹ کو تین ماہ کے لیے بند کردیا اس ادوران ایجنسی کے اہل کاروں نے ایک لاکھ چالیس ہزار پاؤنڈ کی ادویات ضبط کیں لیکن کرپشن کی جڑیں اس قدر گہری تھیں کہ ڈاکٹر ڈورا نے خواتین پر مشتمل انسپکٹروں اور فارماسسسٹوں کی ایک ٹیم تشکیل دی ڈورا کو مردوں پر بھروسا نہیں تھا ان کا خیال تھا کہ مرد رشوت کی پیشکش کے سامنے مزاحمت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے جب کہ عورتیں رشوت لینے سے دو ٹوک انکار کردیتی ہیں۔ بہرحال ٹیم کی تشکیل کے بعد جعلی درآمدات کرنے والوں کے خلاف دھڑا ھڑ مقدمات درج ہوئے تو عوام خوشی سے جھوم اٹھے لیکن جعل ساز سناٹے میں آگے۔

اپنی گرفتاری کے خوف اور جعلی کاروبار ٹھپ ہونے کے ڈر سے مختلف کمپنیوں نے ڈاکٹر ڈورا کو تحائف مراعات اور مفادات کی پیشکش کی لیکن جب وہ کسی لالچ میں نہ آئیں تو انہیں دھمکیاں دیں ان کے بچوں کو قتل کرنے کا الٹی میٹم دیا مافیا کے غنڈوں نے ’’نیف ڈیک‘‘ کے دفاتر جلانا شرع کردیے اس کے باوجود ڈاکٹر ڈورا ٹس سے مس نہ ہوئیں، جعل سازی کے خلاف جنگ کو دیکھتے ہوے صحت کے عالمی ادارے بھی اس جنگ میں شریک ہوگئے اب ڈاکٹر ڈورا نے جعل سازوں سے بات چیت کرنے، انہیں ایجوکیٹ اورقائل کرنے کی حکمت عملی ترتیب دی اس مہم میں پرنٹ اورا لیکٹرونک میڈیا کو بھی استعمال کیا گیا سڑکوں کے کنارے بورڈز لگائے گئے قومی اخبارات میں جعلی اور اعلیٰ ادویات کی پہچان کے لیے اشتہار شائع کروائے گئے، ورکشاپس اور سیمینار منعقد کیے اور ہر ایسی دوا جس پر _’’For Export Only‘‘ لکھا ہوتا کے نائجیریا میں داخلے پر پابندی عاد کردی گئی، اس ضمن میں ڈاکٹر ڈورا کا کہناتھا کہ ادویہ ساز ادارے جو ادویہ اپنے ملک میں استعمال نہیں کرسکتے وہ دوسرے ممالک کیوں استعمال کریں۔ ڈاکٹر ڈورا کی محنت رنگ لا ئی تو افریقی ممالک نے میڈ ان نائجیریا ادویہ پہ پابندی اٹھا لی۔

ڈاکٹر ڈورا نے جب موت بانٹنے والوں کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ کیا تو ان کی راہ میں وہ ساری مشکلات آئیں جو کام یابی کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہیں، لیکن وہ بے خوف ہوکر کام کرتی رہیں ان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے ’’ٹائم میگزین‘‘ نے 2006ء میں انہیں عصر حاضر کے 16 ہیروز میں سے ایک قرار دیا۔ چھ بچوں کی ماں ڈاکٹر ڈورا نے انفارمیشن اینڈ کمیونی کمیشن کی وزیر کی حیثیت سے بھی کام کی۔

ان کے شوہر ڈاکٹر جے سی اکیونیلی نائیجریا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، کرپشن مافیا کے خلاف جنگ لڑنے پر انہوں نے بیوی کا بھرپور ساتھ دیا، جنگ ختم ہوگئی لیکن ڈورا کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں تاکہ دوبارہ جنگ کے آثار نظر نہ آئیں۔

بزنس لیڈر شپ خواتین کے ہاتھوں میں آجائے گی

 دنیا کے کئی اہم صنعتی ادارے حالیہ مالی بحران کے سبب دیوالیہ ہوچکے ہیں مگر جن اداروں میں خواتین کی حکمرانی ہے ان میں سے کوئی ایک ادارہ بھی دیوالیہ نہیں ہوا ہے۔ اس کی وجہ ان خواتین کی بہترین انتظامی صلاحیتیں بھی ہیں اور مختلف شعبوں پر ان کا موثر کنٹرول بھی۔ فنانشل ٹائمز کے ایلی سن میٹ لینڈ نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ دنیا بھر میں ایک دو نہیں کئی خواتین نے آئی ٹی سے بینکنگ اور صنعت و حرفت سے فیشن انڈسٹری تک ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا ہے۔ 

ان خواتین میں اگرچہ یورپ سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یورپ کے اہم صنعتی اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں خواتین کی تعداد صرف دس فیصد ہے۔ ایشیاء میں یہ تعداد سب سے کم ہے۔ بڑے صنعتی اداروں میں خواتین سربراہ مردوں کے مقابلے میں آڈٹ اور رسک کنٹرول کے امور زیادہ بہتر انداز میں سنبھال رہی ہیں۔ 

امریکا میں ایک سیاہ فام خاتون، ارسولا برنس کو ایک ایسے ادارے کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جو پانچ سو کمپنیوں پر مشتمل ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ عالمی مالیاتی بحران کے دوران بزنس لیڈر شپ خواتین کے ہاتھوں میں آجائے گی۔

تازہ ترین