اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اب لگتا ہے آنے والے دنوں میں وزیراعظم عمران خان کرپشن پر اپنے موقف میں مزید سختی اور شدت لائیں گے جس کا عندیہ وہ پارلیمنٹ میں کئے گئے اپنے خطاب میں بھی دے چکے ہیں اگر دیکھا جائے تو اس سے پیشتر سینیٹ الیکشن میں دوستوں کے بظاہر نیوٹرل رویے نے کسی حد تک عمران خان کو مایوس کیا ہے۔
جس کا دبے لفظوں میں اظہار انہوں نے سینیٹ الیکشن کے بعد قوم سے کئے گئے اپنے خطاب میں بھی کیا تھا سینیٹ الیکشن کے بعد اب اگلا مرحلہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا ہے جو 12 مارچ کو ہونے جا رہا ہے حکومت نے صادق سجرانی کا اور پی۔ڈی۔ایم نے یوسف رضا گیلانی کا نام فائنل کیا ہے اسی تناظر میں گزشتہ دنوں بلاول بھٹو زرداری نے ق لیگ بقول آصف علی زرداری کے قاتل لیگ پر لگائے گئے تمام الزامات کو پس پشت ڈال کر چوہدری برادران سے اپنے امیدوار کی حمایت کیلئے ان کے در پر پہنچ گئے۔
ملاقات میں چوہدری برادران نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے یاد رہے کہ دوسری طرف صادق سجرانی کو دوستوں کی بھی حمایت حاصل ہے جس سے قوی امید ہے کہ حکومت اپنا چیئرمین سینیٹ منتخب کروانے میں کامیاب ہو جائے گی چوہدری برادران نے ملاقات میں اس بات کا بھی آندیہ دیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں تو پی۔ڈی۔ایم کا ساتھ نہیں دے سکتے مگر انتخاب کے بعد ہم کسی اور معاملے میں اکٹھے ہو سکتے ہیں کیونکہ سیاست میں کبھی دروازے بند نہیں ہوتے دوسری طرف پی۔ڈی۔ایم مرکز پر حملے کی پسپائی پر ایک مرتبہ پھر پنجاب میں اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کرکے لونگ مارچ کی صورت میں دارالحکومت پر ایک پھرپور چڑھائی کرنا چاہتی ہے۔
جو اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پنجاب ہی وہ صوبہ ہے جس میں سیاسی اکھاڑہ لگنے جا رہا ہے کیونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو اپوزیشن جماعتوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے اسی تناظر میں کے۔پی۔کے میں پی۔ٹی۔آئی کی پوزیشن مستحکم ہے اور بلوچستان میں بھی کوئی خاص سیاسی محاذ آرائی نہیں ہے اگر دیکھا جائے تو گزشتہ ادوار میں بھی فیصلہ کن تحریکوں نے پنجاب ہی سے جنم لیا ہے۔
پنجاب میں چونکہ پی۔ٹی۔آئی کو واضح اکثریت حاصل نہیں تھی جس کے لئے جہانگیر ترین کے جہاز نے اور چوہدری برادران کی کاوشوں نے پنجاب میں پی۔ٹی۔آئی کی حکومت بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا پی۔ڈی۔ایم کی تحریک میں چوہدری برادران کا کردار پنجاب کی سیاست کا رخ تبدیل کرسکتا ہے جس کے باعث ملکی سیاست پر بھی شدید اثرات مرتب ہونگے یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر دوستوں اور عمران خان میں کوئی دوری یا محاذ آرائی پیدا ہو ۔ پی ڈی ایم کی اب نظریں بزدار حکومت لگ گئی ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے بعد پنجاب حکومت میں توڑ پھوڑ کا منصوبہ پی ڈی ایم نے بنا لیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار خطرے کو بھانپتے ہوئے پنجاب بھر کے دوروں میں تیزی لے آئے ہیں جبکہ وزیراعظم کی جانب سے ایک بار پھر پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدارکی نوکری قائم رہنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے فوراً بعد بہت سی ایسی چیزیں حرکت میں آنے والی ہیں جن کا اندازہ بزدار حکومت نے نہیں لگایا ہے۔
بزدار حکومت نے لاہور میں ایک میگا پراجیکٹ فردوس مارکیٹ انڈر پاس مکمل کیا تھا لیکن اس کیفنشنگکے حوالے بہت سی شکایات عام ہیں۔شہر کی صفائی مسئلہ تاحال بزدار حکومت حل کرنے میں ناکام ہے، ہسپتالوں میں بھی عوام کو مناسب علاج کی سہولیات دینے میں بھی ناکام ہے۔ شہر میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی پہلے کی طرح ہیں جس میں بہتری کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
بعض ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی تعیناتی سے بہتری آنے کی امید ہے۔ غلام محمود ڈوگر جتنا عوام کو فوری انصاف اور ریلیف کے لئے کام کر رہے ہیں اتنی اس کی پروجیکشن نہیں کی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ کی میڈیا ٹیم کو چاہیے کہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے روزانہ کی بنیاد پرکئے جانے والے اقدامات کی مناسب تشہیر کو یقینی بنائیں اس سے دو کام ہونگے نمبر ایک بزدار حکومت کی کارکردگی نظر آئے گی دوسرا پولیس کے خراب امیج میں بہتری آ سکتی ہے۔
اب آ جائیں اس وقت لاہور یئے جس سب سے بڑے مسئلے سے د و چار ہیں وہ گندگی کا مسئلہ، ترک کمپنیوں کے کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد سے شہر کی صفائی کا مسئلہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہاہے۔ پہلے ایل ڈبلیو ایم سی مانٹرنگ کرتی تھی اور کروڑوں روپے کے ماہانہ اخراجات کرتی اب خود کام کرنا پڑا ہے تو ایل ڈبلیو ایم سی کی ہر طرح کی مشینری کی اصلیت کھل کر عوام کے سامنے آ گئی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شہر کی صفائی کو یقینی بنانے کے لئے آئے روز کمپنی کے چیئرمین اور سی ای او تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ضرورت ہے ایل ڈبلیو ایم سی کو لگی دیمک کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ کبھی کسی وزیر کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے تو کبھی کسی وزیر کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے۔
صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال کی ذمہ داری لگی تو ایل ڈبلیو ایم سی میں موجود کرپشن کرنے والے مافیا نے میاں اسلم اقبال کے خلاف نامناسب پروپیگنڈا شروع کر دیا میاں اسلم اقبال کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ چیئرمین ایل ڈبلیو ایم سی ملک امجدنون جیسے ایماندار آدمی کو بھی ٹریپ کر دیا گیا، سی ای او ایل ڈبلیو ایم سی علی عمران کوبھی چلنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ ارباب اختیار کو غور کرنا ہو گا کہ اس دھواں چھوڑتے جہاز کے پائلٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے یا انجن کی اوورپالنگ کرنا ناگزیر ہے۔
اب آ جائیں وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار حکومت کے قابل عمل بڑے منصوبے نیا پاکستان ہائوسنگ منصوبے کے تحت ایل ڈی اے کی افورڈ ایبل فیلٹس کا منصوبہ کو ممکن بنانے میں وائس چیئرمین ایس ایم علی کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جن کے بولڈ اسٹیپس سے منصوبے کا آغاز ہونے جا رہا ہے ان کے ساتھی گورننگ باڈی کے ممبر انجینئر عامر قریشی اور ایم پی اے سعدیہ کی خدمات بھی قابل ستائش ہیں لیکن ڈی جی ایل ڈی اے احمد عزیز تارڑ کی قابلیت نظر انداز کرنا زیادتی ہو گی۔ ایل ڈی اے میں عوامی مسائل کے حل کیلئے مناسب اور موثر اقدامات کئے جا رہے ہیں۔