• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنا گھر خریدنے کی سَکت نہ رکھنے والے خاندانوں کو مناسب قیمت پر رہائشی یونٹس کی فراہمی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ پاکستان سے لے کر امریکا تک، اکثر ریئل اسٹیٹ منصوبے مالدار خاندانوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں اور ہر نئے ریئل اسٹیٹ منصوبے کے ساتھ ڈیویلپ ہونے والے نئے علاقے مالدار خاندانوں کے لیے مخصوص ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غریب یا اپنا گھر خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے خاندان زیادہ سے زیادہ تعداد میں کچی آبادیوں اور بستیوں کا رُخ کرتے ہیں۔ 

اس طرح، غریب اور مالدار طبقے کے علاقوں کے درمیان فرق بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پالیسی سازوں اور دیگر شراکت داروں کےبلند و بانگ دعوؤں کے برعکس کچی بستیوں میں آبادی کا دباؤ جاری رہتا ہے اور لوگ انتہائی ناقص شہری سہولیات یا بسااوقات شہری سہولیات کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اشرافیہ کی ریئل اسٹیٹ میں بڑھتی سرمایہ کاری کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اندرونِ شہر کے علاقوں میں ریئل اسٹیٹ کی بڑھتی قیمتوں اور بڑھتے کرایوں کے باعث وہاں غریب خاندانوں کا گزارا مشکل ہوجاتا ہے اور وہاں بھی اشرافیہ ان کی جگہ لے لیتی ہے۔

یہ سارا منظرنامہ طویل مدت میں ریئل اسٹیٹ شعبے کے لیے سازگار حالات کی نشاندہی نہیں کرتا۔ فیصلہ سازوں کو ان مسائل اور بڑھتے فرق کو ختم کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات لینے چاہئیں۔ ماہرین کے خیال میں اس حوالے سے ایسے کیا اقدامات ہوسکتے ہیں، جو ریئل اسٹیٹ کے شعبہ اور متاثرہ طبقہ، دونوں کے لیے بہتر ثابت ہوسکتے ہیں، ذیل میں یہی جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔

مقامی شراکت داروں کے ساتھ روابط قائم کرنا

مقامی غیرمراعات یافتہ برادریوں کی ضروریات کو پورا کرنا چیلنج کے ساتھ ساتھ ایک بڑا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ مقامی شراکت داروں کے ساتھ روابط قائم کرنا اہم ہے۔ کچھ مخصوص منڈیاں، ریئل اسٹیٹ کے لحاظ سے، انتہائی پُرکشش ہونے کے باوجود، معاشی طور پر موزوں نہیں ہوتیں۔ 

زمین کی قیمت بہت زیادہ ہوسکتی ہے، وہاں تعمیراتی سرگرمیاں شروع کرنا یا ضروری اجازت نامے حاصل کرنا بہت وقت طلب عمل ہوسکتا ہے یا پھر ریگولیٹری ادارے اور مقامی حکومتیں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ ان تمام تر چیلنجز اور مسائل کا حل تمام شراکت داروں کے ساتھ اشتراک قائم کرنے میں پنہاں ہے۔

تمام طبقات کیلئے ہاؤسنگ کے یکساں مواقع

ہر حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے لیے نسل، رنگ، مذہب، فرقہ، جنس، لسانیت، معذوری اور خاندانی حیثیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یکساں ہاؤسنگ کے مواقع فراہم کرے۔

کرایہ کم رکھنے کیلئے مالکان کو مراعات فراہم کرنا

کم لاگت ہاؤسنگ کا سب سے بہترین حل یہ ہے کہ پبلک -پرائیویٹ پارٹنرشپ اور پراگراموں کے ذریعے اس پر کام کیا جائے۔ مثال کے طور پر، امریکا میں ایک یہ تجویز زیرِ غور ہے کہ رہائشی یونٹس کے کرایوں کو مناسب سطح پر رکھنے کے لیے گھروں کا کرایہ اس علاقہ کے مکینوں کی اوسط آمدنی کے مخصوص تناسب سے مقرر کردیا جائے۔ اس کے بدلے میں حکومت مکان مالکان کو پراپرٹی ٹیکس میں رعایت یا دیگر رعایتیں فراہم کرسکتی ہے۔

سستے گھر تعمیر کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا

سستے گھروں کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ایسے گھروں پر بلڈر منافع نہیں کماسکتا۔ ریگولیٹری اداروں سے مختلف معاملات کی منظوری حاصل کرنا اور تعمیراتی سامان کی خریداری، دونوں ہی انتہائی مہنگے سودے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلڈر ایک پلاٹ پر لگژری تعمیرات کرکے اس کی لاگت اور اس کے پر منافع حاصل کرپاتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت اور ریگولیٹری ادارے شہر کی زوننگ اور اپنے چارجز معاف کرکےکم لاگت گھروں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔

کاروبار دوست قوانین کا فروغ

اگر حکومتیں چاہتی ہیں کہ ڈیویلپرز کم اور درمیانی آمدنی والے خاندانوں کے لیے رہائشی منصوبے بنائیں تو انھیں کاروبار دوست قوانین کی تشہیر اور حمایت کرنا ہوگی۔ تعمیراتی لاگت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے لیکن ٹیکس مراعات کی پیش کش اور کرپشن کے خاتمے کے ذریعے اس میں کمی ممکن ہے۔

تخلیقی حل تلاش کرنا

لوگوں کا اپنا گھر نہ ہونا اور ایک علاقے سے وہاں کے پرانے رہائش پذیر مگر کم آمدنی والے مکینوں کو بے دخل کرنا، اشرافیہ کے لیے مخصوص رہائشی پروجیکٹس میں مسلسل اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ اس سلسلے میں دنیا کے مختلف ملکوں میں کمیونٹی لینڈ ٹرسٹ، ٹیننٹ آپشن ٹو پرچیز اور ویکنسی ٹیکس جیسے منفرد تصورات متعارف کرائے گئے ہیں۔

ڈیویلپرز کو قرضوں کی فراہمی

کسی بھی چیز کی مارکیٹ میں کھپت اس کی قیمت کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اثاثہ پر مبنی متوقع افراطِ زر صرف قیمتوں کو بڑھائے گی۔ اگر حکومتیں اس صورتِ حال کو بدلنا چاہتی ہیں تو گھروں کی تعمیر کے لیے قرضوں کے اجراء کو آسان ، سہل اور تیز تر بنائیں۔ مزید برآں، تعمیراتی لاگت کو کم کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی بھی متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین