• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پولیس بجٹ میں اضافے، متعدد نئے یونٹس کے قیام اور ٹریننگ میں بہتری کے لاکھ دعووں کے باوجود شہر میں اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے میں پولیس ناکام نظر آتی ہے۔ پہلے ملزمان شہریوں کو ان کی قیمتی اشیاء سے محروم کرتے تھے لیکن اب دوران ڈکیتی شہریوں کو قتل کرنے کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں ۔

رواں سال اب تک 12 سے زائد افراد دوران ڈکیتی ملزمان کی فائرنگ سے جاں بحق جبکہ 80 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ملزمان نے متعدد گھروں کے چراغ بجھا دئیے۔ ایسا ہی ایک واقعہ شریف آباد تھانے کی حدو میں پیش آیا، جہاں 19 سالہ یونیورسٹی کے طالب علم اسامہ سعید بندھانی کو ملزمان نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

ڈاکوؤں نے ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا، ملزمان کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والا نوجوان اسامہ کمپیوٹر سائنس کا طالب علم تھا۔ پولیس کے مطابق شریف آباد تھانے کی حدود غریب آباد میں مسلح ڈاکوؤں نے 19سالہ نوجوان اسامہ سعید بندھانی سے پہلے موبائل فون چھینا اور پھر اسے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ مقتول اسامہ مکینک کی دوکان سے گاڑی ٹھیک کروا کر نکلا تھا، ڈاکوئوں نے اسامہ سے موبائل فون مانگا جو اس نے دے دیا اور کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی تاہم اس کے باوجود ملزمان نے اسے گولیاں مار کر قتل کیا۔

جائے وقوعہ سے تھوڑے فاصلے پر پی ایس ایل کا میچ جاری تھا اور نیشنل اسٹیڈیم کے اطراف پولیس کی سخت سکیورٹی کے باجود بھی ملزمان بآسانی واردات کر کے فرار ہو گئے۔ مقتول اسامہ پانچ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا۔ یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور والد کے ساتھ پارٹ ٹائم پراپرٹی کا کام کرتا تھا۔ مقتول کے دادا محمد حنیف بندھانی نے سیاسی حکمرانوں کو اپنے پوتے کا قاتل قرار دیا۔ 

اسامہ کے والد سعید بندھانی کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے نے اپنا موبائل سفاک ملزمان کو دے دیا لیکن اس کے باوجود ملزمان نے اسے فائرنگ کر کے قتل کیا۔انہوں نے بتایا کہ پی ایس ایل کی وجہ سے روڈ بند کر دئیے گئے تھے جس کی وجہ سے اسامہ کو اسپتال پہنچانے میں تاخیر ہوئی، اگر روڈ کھلے ہوتے تو ان کا بیٹا بروقت اسپتال پہنچ جاتا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملزمان کو فی الفور گرفتار کیا جائے تاکہ شہر میں دیگر مائوں کی گودیں اجڑنے سے بچ جائے۔اسامہ کی لاش گھر پہنچے پر کہرام مچ گیا،اس موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔اس کے جنازے میں بڑی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی، اسامہ کے قتل پر مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا جبکہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن ایم پی اے نصرت سحر عباسی نے بھی اس مسئلے کو ایوان میں اٹھایا ۔

دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے پی ایس ایل کے دوران سٹرکیں بند کرنے پر محکمہ داخلہ سندھ، ایس پی ٹریفک کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر ایس پی ٹریفک ایسٹ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ۔عدالت نے سڑکوں کی بندش سے متعلق رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔ دوران سماعت عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ اگر لوگ مررہے ہیں تو ایسے پی ایس ایل کا کیا فائدہ کہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوں اور وہ اذیت میں رہیں ۔ سندھ ہائیکورٹ میں پی ایس ایل سکس کے دوران سٹرکیں بند کرنے پر محکمہ داخلہ سندھ، ایس پی ٹریفک کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی۔ درخواست پاسبان کی جانب سے دائر کی گئی ۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت میں کہا گیا تھاکہ آغا خان سے ڈالمیا تک روڑ بند نہیں کیا جائیگا۔ آغا خان سے ڈالمیا تک روڈ بند کردیا جاتا ہے، ٹریفک جام سے لوٹ مار کے واقعات بڑھ چکے ہیں۔ نوجوان اسامہ سعید کو چھینا چھپٹی میں گولیاں ماری گئیں۔اسے طبی امداد کے لیے آغا خان لے جایاجارہا تھا مگر راستہ نہیں دیا گیا، راستہ نہ ملنے پر نوجوان ہلاک ہوا، فوکل پرسن محکمہ داخلہ اور ایس پی ٹریفک کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ آپ لوگ اپنی بات سے منحرف کیوں ہوجاتے ہیں؟ 

سندھ پولیس کے لیگل افسر کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ جہاں واقعہ ہوا ٹریفک پولیس موجود تھی ۔عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ اگر لوگ مررہے ہیں تو کیا فائدہ پی ایس ایل کا ، ایسے پی ایس ایل کا کیا فائدہ کہ لوگ اذیت میں رہیں ۔لیگل افسر کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ ضلعی پولیس اور ٹریفک پولیس موجود ہوتی ہے کارروائی کیلئے تاکہ ٹریفک جام نہ ہو ۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ جہاں جہاں سڑک بلاک ہو نہ مناسب سیکورٹی کو یقینی بنایا جائے۔

بعد ازاں سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پولیس وٹریفک پولیس کی جانب سے دیئے جانے والے زبانی بیان کو مسترد کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن، ایس ایس پی ٹریفک، ڈی آئی جی ٹریفک پولیس سمیت دیگر افسران کو اگلی پیشی پر حاضر ہونے کے احکامات جاری کر دیئے۔پی ایس ایل میچوں کے دوران سڑکوں کی بندش پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پی ایس ایل میچوں کے حوالہ سے کئے جانے والے انتظامات سے عدالت کو آگاہ کرنے، ناقص انتظامات اور توہین عدالت کے بارے میں جواب جمع کرانے کی ہدایات بھی جاری کی گئیں۔

 مزید برآں عدالت نے کہا کہ اگر اب بھی کوئی روڈ بلاک کیا گیا توالگ سے توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت میں پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور، اسامہ شہید کے دادا حنیف بندھانی ایڈووکیٹ، کراچی پولیس و افسران اور بار ایسوسی ایشن کے وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھی۔ وزارت داخلہ کے ترجمان و انتظامیہ کا زبانی بیان جسٹس محمد علی مظہر نے مسترد کر دیا تھا۔ 

پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے دائر کردہ پی ایس ایل میچوں کے دوران سڑکوں کی بندش اور توہین عدالت کی درخواست میں محمد حنیف بندھانی ایڈووکیٹ بھی شامل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ دو روز قبل میرے پوتے اسامہ کو اسٹریٹ کرمنلز نے ڈکیتی کی واردات کے دوران گولی مار دی تھی، جسے اس کے دوست نے اسپتال لے جانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے اسامہ کو اسپتال نہ پہنچایا جا سکا اور وہ راستے میں ہی جان کی بازی ہار گیا۔ 

جسٹس محمد علی مظہر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسامہ قتل مقدمہ کے تفتیشی آفیسر اور ایس ایچ اور شریف آباد کو سخت سرزنش کرتے ہوئے علاقہ پولیس افسران سے پوچھا کہ قاتل اب تک کیوں نہیں پکڑے گئے؟ عدالت نے افسران سے کیس کی بابت تفصیلات طلب کرتے ہوئے انہیں سختی کے ساتھ کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔

عدالت نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نہ دکھائیں میچ، لوگ ٹی وی پر دیکھ لیں گے،بچہ مرگیا اسپتال نہیں پہنچ سکا کون جواب دیگا؟ سڑک تو کسی صورت بند نہیں ہونی چاہیے،عوام پی ایس ایل سے پناہ مانگنے لگیں گے، اب لوگ میچ پر خوف زدہ ہوجاتے ہیں،آپ پی ایس ایل کرواکے بہت اہم کام کر رہے ہیں۔عدالت کی جانب سے مذکورہ احکامات کے بعد ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن اور دیگر افسران نے اسامہ بندھانی کے والد سے ان کے گھر پر ملاقات کی اور انھیں قاتلوں کی گرفتاری کا یقین دلایا۔

دوسری جانب پولیس کا دعویٰ ہے کہ اسامہ کو فائرنگ کرکے قتل کرنے والے مرکزی ملزم بلال اور تین دیگر ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔پولیس نے بتایا کہ گرفتار ملزم بلال نے اعتراف کیا ہے کہ20 فروری کو الرحیم آٹوز شریف آباد میکینک کی دکان کے پاس گاڑی میں بیٹھے ہوئے دو لڑکوں سے موبائل فون اور پرس چھینا، واردات کے وقت زبیر اس کے ساتھ تھا جو بائیک چلا رہا تھا اور وہ موٹر سائیکل پر اس کے پیچھے بیٹھا تھا ،واردات کے بعد جب میں بائیک میں سوار ہو کر جانے لگا تو کار کی ڈرائیونگ سائیڈ پر بیٹھا لڑکا نیچے جھکا جس پر اسے شبہ ہوا کہ ان کے پاس اسلحہ ہےتو میں نے اپنے پستول سے اس پر فائرنگ کی اور ہم فرار ہو گئے۔ 

دوسرے روز اسے خبروں سے معلوم ہوا کہ لڑکے کا انتقال ہو گیا ہے،پولیس نے مزید بتایا کہ ملزم نے واردات والے دن لال رنگ کی پھولوں والی شرٹ پہنی ہوئی تھی جو کہ بوقت گرفتاری بھی پہنی ہوئی تھی، گرفتار ملزم نشے کا عادی بھی ہے، گرفتار ملزم کے ساتھی زبیر کی گرفتاری کے لیے کوشش کی جا رہی ہیں تاہم اب تک پولیس اسامہ کا موبائل فون برآمد نہیں کر سکی۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم بلال کی شناختی پریڈ ہوئی ہے جس میں گواہ نے ملزم کو پہچان لیا ہے۔

5 مارچ کو فیروزآباد تھانے کی حدود شہید ملت روڈ پر واقع انڈر پاس میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے موٹر سائیکل سوار شخص زخمی ہوگیا،اسے فوری جناح اسپتال لے جایا گیا جہاں دوران علاج اس نے دم توڑ دیا۔مقتول کی شناخت 25 سالہ آصف ولد ریاست کے نام سے ہوئی۔پولیس کے مطابق مقتول کو سر میں دو گولیاں ماری گئی ہیں ،مذکوہ واقعہ واقعہ بھی ڈکیتی کے دوران پیش آیا ، پولیس کے مطابق ملزمان مقتول سے اس کی 125 موٹر سائیکل چھین کر فرار ہو گئے۔

ڈکیتوں نے شہر میں اب تک سیکڑوں مائوں کی گودیں اجاڑ دی ہیں لیکن ملزمان پولیس کی پکڑ میں نہیں آتے،اگر آتے ہیں تو کمزور پراسیکیوشن کے باعث چھوٹ جاتے ہیں،ایڈیشنل آئی جی کی کا کہنا ہے کہ بیشتر ڈکیت منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور اپنا نشہ پورا کرنے کے لئیے وارداتیں کرتے ہیں۔

تاہم اگراے آئی جی کی اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو منشیات کی سپلائی روکنا بھی پولیس کی ہی ذمہ داری ہے لیکن بیشتر تھانوں کی حدود میں منشیات کے اڈے موجود ہیں،علاقے کے بچے بچے کو ان اڈوں کا پتہ ہے نہیں لیکن پولیس ان سے لاعلمی کا اظہار کرتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین