• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افراد کا کردار ان کو امر کر دیتا ہے اور بے کرداری ہمیشہ کیلئے باعثِ ننگ بن جاتی ہے۔ کردار کو امر کرنے کے واسطے اپنے آپ کو مارنا پڑتا ہے اور دوسروں کے لئے جینا ہی بس مقصد حیات قرار پاتا ہے۔ مولانا گلزار احمد مظاہری ایک ایسی ہی شخصیت تھے ان کے صاحبزادگان فرید پراچہ اور حسین پراچہ سے سلام دعا ایک مدت سے ہے مگر ان کے والد مولانا گلزار احمد مظاہری سے غائبانہ شناسائی زمانہ طالب علمی سے ہے کہ جب مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے قلم سے شناسائی ہوئی تو اسی زمانے میں مولانا مظاہری کی فکر سے بھی واقفیت ہوئی کہ جب تک مسٹر اور مولوی کا فرق ختم نہیں ہوتا اس وقت تک معاملات ایک مستقل اضطرابی کیفیت میں رہیں گے۔ یہ تمام خیالات یادداشت میں اس وقت ابھرنے لگے جب مولانا مظاہری کی سوانح حیات ’’زندگی- جیل کہانی ‘‘ ہاتھوں میں آئی۔ کتاب ہاتھ میں کیا آئی کہ ایک ہی نشست میں تمام کر ڈالی۔ مولانا مظاہری کی زندگی بس جیل کہانی نہیں ہے بلکہ ان افراد کے لیے ایک مشعل راہ ہے جو نظریات کی خاطر صعوبتوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ کتنا مشکل مرحلہ ہوگا جب ان کی زوجہ نے ان کو خط لکھا کہ بچے آپ کی واپسی کے منتظر ہیں۔ ان کو جواب میں تحریر کیا کہ حالات کو نارمل کر لو کیونکہ اگر ہمارے خلاف فیصلہ آیا اور میں واپس گھر نہ آ سکا تو آپ لوگوں کے لئے اور زیادہ تکلیف دہ ہو گا۔ مولانا کی زندگی کے 1958سے 1965 تک کے ماہ و سال یا تو جیل میں کٹے یا ریل میں گزرے مگر ان کی شناخت صرف یہی نہیں کہ وہ پامردی سے مقابلہ کرتے رہے بلکہ انہوں نے انہی ایام میں ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے ایک مختصر مگر نہایت جامع رسالہ تخلیق فرمایا۔ یہ رسال اس قابل ہے کہ اس کو تمام جمہوریت پسند سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو مہیا کریں تاکہ ان کو ایک عالم دین کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ کے سبب سے یہ احساس ہو سکے کہ ووٹ کو عزت دو کی تحریک کتنی اہمیت کی حامل اور مقدس ہے۔ مولانا کے دیگر کاموں میں فرقہ واریت کے آگے بند باندھنے کیلئے جمعیت اتحاد العلماء پاکستان کا قیام بہت اہم تاریخی واقعہ ہے کہ جب مسالک کے نام پر علماء دست و گریباں ہونے لگے تو آپ نے اصلاح احوال کی خاطر اس تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسی کی مانند علماء اکیڈمی ایک ایسی شعوری کوشش ہے جس کے قیام سے علماء کی ایک ایسی کھیپ تیار کرنے کی کوشش کی گئی اور مستقل کی جا رہی ہے جو نہ صرف رائج مذہبی علوم سے آگاہ ہو بلکہ عصر حاضر بھی ان سے پوشیدہ نہ ہو۔ یہ ایک انتہائی قابل افسوس معاملہ ہے کہ وطن عزیز سیاسی طور پر جن حالات سے ایوبی آمریت کے دور میں دوچار تھا کہ مخالفین کے لئے پابند سلاسل ہونا طے تھا، حالات آج بھی مختلف دکھائی نہیں دیتے۔ پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی گرفتاری سے رہائی تک محسوس ہوتا ہے کہ پس پردہ طاقتوں نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ حمزہ شہباز کو ان حالات میں گرفتار رکھا گیا کہ ایک طویل عرصے بعد جب خدا نے انہیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا تو وہ اپنی نومولود بیٹی سے دور تھے۔ تاہم اس کے سبب جو منفی اثرات قومی سیاست پر مستقل طور پر مرتب ہوئے ان کے ازالہ کیلئے ایک مدت درکار ہوگی۔ وطن عزیز کے حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ یہاں نت نئے تجربے نہ کئے جائیں، اس سے نہ صرف معاشرہ سماجی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے بلکہ صوبائیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور کمزور اقتصادی حالت قومی سلامتی کے علاوہ اور بھی بہت ساری مشکلات کو جنم دیتی ہے۔ اگر ابھی بھی ہوش کے ناخن لے لئے جائیں تو کم از کم چند سالوں میں اس صورتحال سے تو چھٹکارہ پایا جا سکتا ہے کہ ہماری معاشی کارکردگی بنگلہ دیش سے بہتر ہو جائے۔ اگر سیاسی طاقتوں اور ان سے وابستہ افراد کو دبائو کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ایسی صورت میں وہ حالات کے مستقل دگرگوں رہنے سے بہت زیادہ نالاں ہو چکے ہیں اور اصلاح احوال کا کوئی راستہ نکالنا چاہتے ہیں۔ بہت مناسب ہوگا کہ سیاسی طاقتوں پر بھروسہ کیا جائے اور سیاسی طاقتیں بھی خود کو عوامی مسائل کے حل کی خاطر مکمل طور پر تیار کریں۔ یہ تیاری پہلے بھی عرض کر چکا ہوں بس اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب نواز شریف کے پیش کردہ اس منصوبے پر عمل کیا جائے کہ تمام قوتیں مل بیٹھ کر پاکستان کیلئے اگلے پچیس سال کیلئے ایک پروگرام پر اتفاق کرلیں جس کو میثاق پاکستان کا نام دیا جائے۔ اور اس میں مستقل جاری سول ملٹری کشمکش کا بھی حل پیش کیا جائے کہ جس کا مقصد کسی کی فتح یا شکست نہ ہو بلکہ صرف پاکستان کی فتح ہو ۔

تازہ ترین