• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پھونکیں مار مار کے ماں کا چہرہ سُرخ ہو گیا، مگر آگ جلنی تھی، نہ جلی… اسے بہت بھوک لگ رہی تھی، تو اس نے ماچس کی ڈبیا سے تیلی نکالی اور جلا کر مٹی کے چولھے میں پھینک دی، جس سےفوراً ہی آگ بھڑک اُٹھی۔’’یہ کیا ،کیا پُترجی …؟ تیلی ضائع کر دی، آگ تو بس جلنے ہی والی تھی ۔‘‘ ماں فکرمندی سے بولی۔’’ایک تیلی سے بھلا کیا ہوتا ہے امّاں ؟ کتنی دیر سے تو آپ پھونکیں مار رہی تھیں ۔‘‘ اس نے جواباً کہا۔’’تمہاری ماں ٹھیک کہہ رہی ہے ،تمہیں کیا معلوم ہم بچپن میں کیسے آگ جلاتے تھے۔ ‘‘بابا نے باورچی خانے میں قدم رکھتے ہوئے کہا۔’’کیسے بابا؟‘‘ ’’تم کھانا کھا لو پھر رات کو ساری کہانی سنائوں گا ۔‘‘ بابا نے زاویار کو پیار کرتے ہوئے کہا۔

کھانا کھاتے ہی وہ جلدی سےبابا کے پاس لیٹ گیااور کہانی سُننے کی ضد کرنے لگا ۔ ’’بتایئے ناں بابا! جب آپ چھوٹے تھے تو آگ کیسے جلاتے تھے ؟‘‘ ’’ہمارا گاؤں، جو آج سڑکیں بننے کی وجہ سے شہر سے قریب لگتا ہے، اُس وقت کئی میل دُور ہوتا تھا ۔شہر جانا بھی آسان نہیں تھا،تو اس وقت زندگی بڑی دشوار تھی۔ آگ جلانے کے لیے ہر ایک کے پاس ماچس نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے کئی کوس پیدل چل کر بڑے زمین دار کے گھر جانا پڑتا ،جہاں سےہم ڈھیر ساری راکھ میں دبی چنگاریاں بڑی احتیاط سے لے کرآتے، پھر باہر چوپال میں ان کی مدد سے آگ جلائی جاتی۔ 

جب آگ سے نئے انگارے بن جاتے تو لوگ انہیں اپنے اپنے گھروں میں لے جا کرآگ جلاتے،جس پر کھانا پکتا اور اسی سے دیے، لالٹینیں بھی روشن ہوتیں۔‘‘ ’’تو کیا چنگاریوں سے پورے گائوں میں آگ روشن ہو جاتی تھی ؟‘‘زاویا رنے حیران ہو کر پوچھا۔’’ہاں پتّر ! چنگاری میں بڑی طاقت ہوتی ہے، ذرا سا موافق ماحول اور ہوا مل جائے تو فوراًآگ بھڑک اُٹھتی ہے۔‘‘بابا نے کچھ سوچتے ہوئے ذرا سا توقف کیا ،پھر دوبارہ گویا ہوئے۔ ’’پُتّر! تجھے پتا ہے، ایک چنگاری پختہ یقین ،عزم اور ارادے کی بھی ہوتی ہے، یہ دِلوں میں روشن ہو جائےتو تقدیریں بدل جاتی ہیں ۔‘‘ ’’وہ کیسے بابا ؟‘‘وہ متجسّس ہوا۔’’ آج تمہیں ایک اور کہانی بھی سناتا ہوں۔ ‘‘ بابا نے کہنا شروع کیا ’’کبھی ہم غلام ، انگریز حاکم اور ہندو غالب تھے۔ 

مسلمان عزت، اچھی ملازمت اور سب سے بڑی نعمت آزادی سے محروم کر دئیے گئے تھے۔ پھر ہم میں سے ایک بڑا آدمی پیدا ہوا، جس کا نام محمّد علی جناح تھا، جنہیں اب ہم قائدِ اعظم کے نام سے جانتے ہیں۔انہوں نےبرّصغیر کے مسلمانوں کے دل میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ بیدار کیا، جو پہلے پہل محض ایک چنگاری کی طرح تھا، مگر آہستہ آہستہ بھڑک کر ایک جنون کی شکل اختیار کر گیااور پھر جوش و ولولے کے وہ الائو روشن ہو ئےکہ طاقت وَر حکمران ہمیں آزادی دینے پر مجبور ہو گئے اور دنیا کے نقشے پر ایک ایسی ریاست نے جنم لیا، جو ایک نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی، جس کی دنیا میں کوئی اور مثال موجود نہیں۔ اس کے قیام کی قرار داد 23مارچ1940ءکو منظور کی گئی ،مینارِ پاکستان اسی قرار داد کی یادگار ہے۔‘‘

پھر وہ ساری رات بابا سے کئی چھوٹے چھوٹے سوال پوچھتا رہا کہ وہ جلدی مطمئن نہیں ہوتا تھا۔ جب وہ سو گیا تو بابا نے اس کی روشن پیشانی چوم کر دُعا دی اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔ بابا کی بات اور انداز ِ بیاں نے زاویار کے دل میں بھی ایک چنگاری روشن کر دی تھی، اب وہ بھی اپنے وطن کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا تھا ۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے مُلک و قوم کا نام روشن کرنا چاہتاتھا۔ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ شوق سےا سکول جاتا اور خوب دل لگا کر پڑھتا ۔وقت گزرتا گیا اور تعلیمی منازل طے کرتے کرتے زاویار انجینئر بن گیا۔

اس کے بابا نے بیٹے کو تعلیم دلوانے کے لیے سخت محنت کی تھی کہ ایک غریب کسان کے لیے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوانا کسی طور آسان نہ تھا۔ اسے بھی بابا کی مشکلات کا ادراک تھا ،اسی لیے اس نے بھی ڈَٹ کر محنت کی ۔ دورانِ تعلیم ،ٹیوشنز بھی پڑھائیں اور اب وقت آ گیا تھاکہ اسے محنت کا پھل ملتا۔فارغ التّحصیل ہوتے ہی اس نے شہر ہی میں ملازمت کے حصول کی تگ و دو شروع کر دی۔ جہاںخالی اسامی کا اشتہار نظر آتا، درخواست بھیج دیتا،کہاں کہاں کی خاک نہیں چھانی ، مگر ملازمت ملنی تھی ،نہ ملی ۔

آہستہ آہستہ اس کا دل بجھنے لگا، مایوسی اس کے وجود میں سرایت کرنے لگی تھی۔ تھک ہار کر وہ گائوں واپس چلا گیا اور بابا سے کہا کہ ’’مَیں پاکستان چھوڑ کر قسمت آزمائی کے لیے بیرونِ مُلک جانا چاہتا ہوں۔‘‘ بابا نے اسے بہت سمجھایا ، صبر کی تلقین کی ،مگر وہ نہ مانا، در اصل وہ اپنی زندگی کے قیمتی شب وروز یونہی ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔اور پھر ایک دن وہ امریکا سدھار گیا ۔

وہاں بھی شروع میں بڑے دھکے کھائے، مگر آہستہ آہستہ قدم جمنا شروع ہو ہی گئے۔اچھی ملازمت کے ساتھ اپنا کاروبار بھی شروع کر دیا۔ اور پھرایسا مصروف ہوا کہ قدم واپس پلٹنا بھول گئے۔ اماں ،بابا اس کی راہ دیکھتے دیکھتے راہی مُلکِ عدم ہوئے کہ وہ اس کے پاس پردیس جانے پر کبھی تیار نہ ہوتے تھے۔ زاویار نے بھی وہیں گھر بسا لیا۔ بچّے ہوئے اور زندگی اپنی ڈگر پر رواں دواں رہی، کاروبار وسیع تر ہوتا چلا گیا، تو اس نے بھی ملازمت چھوڑ کر مکمل توجّہ اپنے کاروبار پر مرکوز کر دی۔

بچّے بڑے ہو کر اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئےاور پھر ایک دن بیوی کا بھی اچانک ہی انتقال ہو گیا ،تو وہ یک دَم تنہا ہی ہو گیا۔اب اکثر راتوں کو نیند نہ آتی تو دل و دماغ میں ’’کیا کھویا، کیا پایا‘‘ کا حساب کتاب شروع ہو جاتا ۔ اماں، ابا کی باتیں، وطن کی یاد ،دل کو مزید ویران کر دیتی۔وہ اکثر راتوں کوبے چین ہو کر کمرے میںٹہلنے لگتا۔بالآخر ایک دن اچانک ہی زاویار نے پاکستان کے لیے بکنگ کروائی اور اپنے آبائی گاؤںجا پہنچا۔

اُس کا گائوں اتنے برسوں بعد بھی ویسا ہی تھا، بجلی جاتی تو کئی کئی دن نہ آتی، سیوریج کا کوئی نظام نہ تھا۔ اتنے برسوں بعد بھی گاؤں میں ایک ہائر سیکنڈری اسکول نہیں بن پایا تھا۔ یہ تمام حالات دیکھ کر اس کا دل تڑپ اُٹھا، بجھی ہوئی راکھ میں دَبی چنگاری جل اُٹھی۔اب اس کے پاس پیسا بھی تھا اور تعلقات بھی ۔ سو،وہ گائوں کی فلاح و بہبود کے لیے جُت گیا۔ سیوریج، تعلیم ،بجلی اور طبّی سہولتوں کے حصول کے لیے کوششیں شروع کر دیں ۔ 

یہاں تک کہ گاؤں میں خوش حالی نظر آنے لگی۔ لوگ ملتے گئے، کارواں بنتا گیا ،نیک نیّتی اور خلوص سے کام کیا جائے تو اللہ بھی ہاتھ پکڑ لیتا ہے،وہ نیت کرتا اور کام خود بخود ہوتے چلے جاتے۔ وطن اور اس کے باسیوں کے لیے کچھ کرنے کی، جو چنگاری دل میں پیدا ہوئی تھی، اب ایک روشن الائو بن چُکی تھی۔ اس نے فلاحی کاموں کا دائرہ کار مُلک بھر کے پس ماندہ اور دُور دراز علاقوں تک پھیلا دیا ۔ کاروبار بھی مکمل طور پر پاکستان منتقل کر لیا تھا۔کتنے ہی بے روزگار نوجوان اس کی کمپنی کا حصّہ بن کر با عزّت روزگار کما رہے تھے۔

دیکھتے ہی دیکھتے زاویارکا شمار مُلک کے نام وَر سوشل ورکرز اور بڑے بزنس مین میں ہونے لگا، مگر اس نے کسی بڑے شہر کے عالی شان بنگلے میں رہنے کے بجائے ،گاؤں میں اپنے خاندانی گھر میں رہنے کو ترجیح دی، جہاں اس نے آنکھ کھولی، بچپن ، جوانی گزاری، بڑا آدمی بننے کے ڈھیروں خواب دیکھے، جہاں اس کی ماں کی ہنسی ، بابا کی کہانیاں گونجتی تھیں… مگر وہ ان کے آخری وقت میں ان کے ساتھ نہ رہ سکا، ان کی خدمت نہ کر سکا۔ وہ اماں اور بابا سے شرمندہ تھا ، اتنا شرمندہ کہ مُلک و قوم کی اتنی خدمت کرنے کے باوجود بھی اسے سُکون کی نیند نہیں آتی تھی۔ 

پھر ایک رات زاویار نے اپنے بابا کو خواب میں دیکھا، وہ اس کے پاس آئے ،گلے لگایا، ماتھا چوما اور بولے ’’پُتر!صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے ،تو اسے بھولا نہیں کہتے، اپنے دل سے سا رے وسوسے نکال دے۔ مَیں اور تیری ماں بہت خوش ہیں، تو یہاں چراغ روشن کرتا ہے ،تو ہمارے پاس بھی دیے جلنے لگتے ہیں۔ ‘‘’’سچ بابا ؟‘‘ وہ باپ سے لپٹ کر رو دیا ۔’’ہاں بالکل سچ‘‘ بابا نے جواب دیا۔اس کی آنکھ کھلی تو ارد گرد اماں ،بابا کی مہک پھیلی ہوئی تھی اور اُس کی آنکھیں نم تھیں۔

تازہ ترین