گزشتہ سوا سال سے کورونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی مچائی اور بے شمار انسانی جانوں کو نگل گیا۔ دنیا ایک نہ ختم ہونے والے معاشی بحران سے دوچار ہوگئی۔ ابھی کورونا کے پہلے حملے سے لوگ سنبھلے نہیں تھے کہ اس کی دوسری اور اب تیسری لہر آگئی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی حد تک کورونا کے حوالے سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ’’خوف‘‘ کی فضا پیدا کی گئی، جس نے عوام کو ذہنی مریض بنا ڈالا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک بھر میں ہیپا ٹائٹس سی، ایڈز، کینسر ، ذیا بیطس ، ڈینگی بخار، انفلوئنزا، ملیریا، ڈائریا، امراضِ دل و گردہ سمیت دیگر مختلف بیماریوں یا حادثات میں ہونے والی اموات کی شرح کورونا سے مرنے والوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ آج بھی ملک میں نمونیہ اور ڈائریا سے سالانہ اڑھائی لاکھ غریب بچے مرتے ہیں جبکہ ساڑھے چار ہزار افراد روزانہ مختلف بیماریوں کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کورونا کے مرض کو صاحبِ حیثیت اور کھاتے پیتے لوگوں کی بیماری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس وائرس سے بڑے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے جن میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہاؤس سے تعلق رکھنے والےحکام، اراکین اسمبلی، وزراء کرام، بیوروکریٹس اور ڈاکٹرز شامل ہیں۔ اب تک تقریباً 14 ہزار لوگ کورونا سے فوت ہوئے جو آبادی کے لحاظ سے زیادہ تشویشناک بات نہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کورونا سے معیشت کو شدید دھچکا لگا، لیکن اتنے بڑے بحران کے باوجود غور طلب بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کورونا کے حوالے سے عوامی مفاد میں کوئی واضح پالیسی مرتب نہیں کرسکی۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران بھی حکومتی ایس او پیز پر عملدرآمد کہیں نظر نہیں آیا۔ حکومت اور اپوزیشن اپنی سیاست چمکا رہی ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی عوام کی قطعاً کوئی فکر نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت اور اپوزیشن کورونا کے حوالے سے مل بیٹھتی اور کوئی ایسی حکمت عملی اپناتی جس کے تحت نظام زندگی رواں دواں رکھا جاسکتا۔ اس کے برعکس یہ سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر اپنا قیمتی وقت برباد کرتے رہے اورکررہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کورونا سے نجات کی مہم چلاتے وقت ہمیں دیگر ممالک سے اپنے ملک کا موازنہ کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ بیرونی دنیا کے مقابلے میں پاکستان کے حالات قطعی مختلف ہیںچنانچہکورونا نے پاکستان میں زیادہ تباہی نہیں مچائی۔ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں یہاں غربت کی شرح پہلے ہی تشویشناک تھی لیکن صرف کورونا وائرس کے دوران یہ شرح تقریباً50 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس مرض کے خوف سے تعلیمی ادارے ، تجارتی مراکز، شادی ہالز، ہوٹلز ، بیوٹی پارلراور دیگر کئی ادارے بند کئے گئے۔ اس اقدام سے لاکھوں خواتین و حضرات بے روزگار ہوئے۔ اب ایک مرتبہ پھر کورونا وائرس کی تیسری لہر کو پہلے سے زیادہ خطرناک قرار دیتے ہوئے بعض شہروں میں ’’اسمارٹ لاک ڈاؤن‘‘ لگایا گیا ہے۔ اس اقدام سے ایک مرتبہ پھر معاشی مسائل جنم لیں گے۔ کسی بھی مرض کی ویکسین تیار کرنے کے لئے 15 سے 20 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔ جبکہ یہاں تو سوا سال میں ہی کورونا ویکسین تیار کئے جانے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ ایجاد کردہ ویکسین انسانوں کے لئے مفید ہوگی یا نہیں۔۔۔؟ اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن عوام و خواص کے تحفظات بدستور قائم ہیں۔ ابھی کورونا کا خوف ختم نہیں ہوا کہ لوگوں کو ’’ویکسین‘‘ کے حوالے سے ڈرایا جارہا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اب تک جتنے ممالک میں کورونا ویکسین تیار کی گئی ہے، کسی ایک نے بھی اس بارے میں نہ کوئی گارنٹی دی اور نہ ہی یقین دہانی کرائی کہ ’’ویکسی نیشن‘‘ کروانے والے انسان کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ویکسی نیشن کے حوالے سے لوگ عجیب ذہنی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ دنیا بھر میں ملٹی نیشنل کمپنیاں کورونا کے نام پر کھربوں ڈالرز کا کاروبار کررہی ہیں، اس لئے جان بوجھ کر کورونا وائرس کا خوف لوگوں کے دل ودماغ میں اتارا گیا اور اب ویکسی نیشن کا سلسلہ دراز کیا جارہا ہے۔ کورونا وائرس کو ایک عام بیماری کی طرح دیکھا جانا چاہیے۔ خوف کی فضا سے دماغی امراض لاحق ہوسکتے ہیں اور قوت مدافعت بُری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔ ایسے میں کورونا کے حملے سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کم ازکم کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کا حل نکالنے کے لئے مل بیٹھیں اور ملکی معاشی مسائل حل کرنے کی تدابیر کریں۔ خدانخواستہ ہم موجودہ سیاسی سوچ کو آگے بڑھاتے رہے تو اس سے وطن عزیز ترقی و خوشحالی کی منزل سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ ملک وملت کی بھلائی اسی میں ہے کہ ہم مستقبل میں صحت عامہ کے مسائل اور معاشی بحران پر قابو پانے کے لئے ابھی سے منصوبہ بندی کریں ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔