میں ان دنوں جنوبی پنجاب میں ہوں، یہاں ایک کہانی زبان زدِ عام ہے، سوچا کیوں نہ آپ کو بھی اس دلچسپ کہانی سے آگاہ کیا جائے۔ بالعموم کہانیاں ’’ایک تھا بادشاہ‘‘ کے عنوان سے شروع ہوتی ہیں مگر اس داستان کا نام ہے ’’ایک تھا شہباز شریف‘‘۔ اس کہانی کا مرکزی کردار جو پنجاب کا وزیراعلیٰ تھا، اس پر ’’شوباز شریف‘‘ کی پھبتی کسی جاتی تھی۔ بعض اوقات تو اسے شیرشاہ سوری بننے کا طعنہ بھی دیا جاتا تھا کیونکہ اسے جرنیلی سڑک بنوانے والے عظیم فرمانروا شیر شاہ سوری کی طرح شاہرائوں کا جال بچھانے کا شوق تھا۔ اس حاکمِ پنجاب کا چینی حکام سے بہت یارانہ تھا اور شاید سڑکیں بنانے کی طرف دلچسپی کا سبب بھی یہی دوستی تھی کیونکہ خوشحالی کے چینی تصور کے مطابق جس علاقے، گائوں یا شہر کو ترقی دینا مقصود ہو، اسے سڑکوں کے ذریعے مربوط کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں پنجاب کی پتھریلی سرزمین سے نمودار ہونے والے ایک عظیم قائد نے شہباز شریف کی حاکمیت کو چیلنج کیا اور لوگوں کو بتایا کہ قومیں سڑکیں بنانے سے ترقی نہیں کرتیں۔ قصہ مختصر یہ کہ جنوبی پنجاب کے منتخب نمائندوں کا ضمیر جاگ اُٹھا۔ سب ارکانِ پارلیمنٹ صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کے پلیٹ فارم پر یکجا ہو گئے۔ عوام میں بھی ایک نیا جوش وجذبہ بیدار ہوتا دکھائی دیا۔ ’’تختِ لاہور‘‘ کی بالادستی قبول نہ کرنے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ یوں کپتان کو پنجاب ہی کیا پورے پاکستان کی زمامِ کار مل گئی۔ اب لوگ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی سے تو پریشان ہیں ہی مگر ان کی اصل پریشانی یہ ہے کہ نہ صرف کپتان بلکہ اس کا بااعتماد کھلاڑی جسے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، دونوں اپنے قول کے پکے ثابت ہوئے ہیں اور پنجاب میں گزشتہ ڈھائی سال کے دوران نہ صرف یہ کہ نئی سڑکیں نہیں بنیں بلکہ پہلے سے تعمیر شدہ شاہرائوں کی سالانہ مرمت کا کام بھی نہیں ہورہا۔ لاہور سکھر موٹروے کی صورت میں متبادل راستہ میسر نہ آیا ہوتا تو جنوبی پنجاب کے لوگ گاڑیوں کی بجائے اونٹوں، گھوڑوں، خچروں اور بیل گاڑیوں میں سفر کرتے کیونکہ لاہور سے ملتان جانے والی نیشنل ہائی وے پر جابجا موجود کھڈے لپک کر گاڑی کو فرشی سلام پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب کی بیشتر سڑکوں کا وہی حال ہے جو سونامی گزر جانے کے بعد کسی علاقے کا ہوا کرتا ہے۔ ملتان سے بہاولپور جانے والی ہائی وے کی حالت تو ناگفتہ بہ ہے ہی مگر ذیلی سڑکوں پر سفر کرنا تو کسی مہم جوئی سے کم نہیں۔ اب جب لوگ ان دشوار گزار راستوں پر سفر کرتے ہیں تو انہیں وہ شہباز شریف یاد آتا ہے جس پر ’شوباز شریف‘ کی پھبتی کسی جاتی تھی۔
جنوبی پنجاب کے منتخب عوامی نمائندے جن کا ضمیر باالعموم انتخابات سے پہلے ہی جاگتا ہے، انہوں نے 2018کے عام انتخابات سے قبل یکجا ہو کر تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا تھا اور عوام کو یہ جھانسہ دیا گیا تھا کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنایا جائے گا۔ پہلے تو حکومت پنجاب نے لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ بنانے کا اعلان کیا اور پھر پنجاب کو تقسیم کرنے کے بجائے اس جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ اب اے آئی جی سمیت بعض افسر ملتان میں جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ میں جلوہ افروز ہوتے ہیں جبکہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری بہاولپور میں براجما ن ہوتے ہیں۔ بظاہر 18محکموں کو دو حصوں میںتقسیم کر کےجنوبی پنجاب سیکریٹریٹ منتقل کردیا گیا ہے اور یہاں نہ صرف افسر شاہی کے لئے نئے عہدے اور نئی آسامیاں تخلیق ہوچکی ہیں بلکہ خطیر رقوم بھی مختص کردی گئی ہیں۔ بتایا گیا تھا کہ اب جنوبی پنجاب کے باسیوں کو تخت لاہور کی قدم بوسی کےلئے نہیں آنا پڑے گا اور ان کے مسائل یہیں حل ہو جائیں گے مگر عملاً ان کا راستہ مزید دشوار گزار اور طویل ہو گیا ہے۔ بہاولپور اور آس پاس کے علاقوں میں رہائش پذیر افراد پہلے بہاولپور میں اے سی ایس کے دفتر جاتے ہیں ،وہاں سے ٹھوکریں کھاتے ہوئے ملتان پہنچتے ہیں لیکن بات گھوم پھر کر وہیں آجاتی ہے کہ چیف سیکریٹری صاحب، آئی جی صاحب اور وزیراعلیٰ ہائوس سے متعلقہ تمام ذمہ داران، صوبائی وزرا لاہور میں دستیاب ہیں اور فیصلے کا حتمی اختیار انہی کے پاس ہے، لہٰذا سائل کی فائل سست روی سے چلتی ہوئی وہاں تک جائے گی اور جب تک وہاں سے کوئی رائے نہیں دی جائے گی، کسی قسم کی پیشرفت ممکن نہیں ہوگی جس طرح بعض بنیادی مراکز صحت یا ضلعی مراکز صحت میں تعینات ڈاکٹر صاحبان صرف یہ بتانے کے لئے وہاں موجود رہتے ہیں کہ آپ اپنے مریض کو لاہور لے جائیں، یہاں اس کا علاج نہیں ہو سکتا، اسی طرح پنجاب حکومت نے دو حصوں میں تقسیم جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کا عملہ صرف یہ آگہی فرام کرنے کے لئے تعینات کر رکھا ہے کہ آپ اضافی دھکے کھانا چاہتے ہیں تو جیسے آپ کی مرضی ورنہ آپ کا کام تو لاہور سے ہی ہوگا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جنوبی پنجاب کے منتخب عوامی نمائندے اس صورتحال پر خاموش کیوں ہیں؟ کیا ان کے منہ میں زبان نہیں؟ کیا وہ اندھے، بہرے اور گونگے ہیں، اسمبلیوں میں آواز کیوں نہیں اُٹھاتے؟ جنوبی پنجاب کے منتخب عوامی نمائندے بلاضرورت آواز اُٹھا کر اپنی توانائیاں ضائع نہیں کرتے۔ سینیٹ انتخابات کے موقع پر ڈیرہ غازیخان کے ایک ایم پی اے کا ضمیر وقتی طور پر بیدار ہوا تھا لیکن فوری طور پر اس کے آرام کا بندوبست کردیا گیا۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے منتخب عوامی نمائندوں کا ضمیر تب جاگتا ہے جب ہوائوں کا رُخ بدلتا ہے، جب انتخابات قریب آتے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں باور کرایا گیا تھا کہ قومیں سڑکیں بنانے سے ترقی نہیں کرتیں، اب ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر دھکے کھاتے ہیں، جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ میں جوتیاں چٹخاتے ہیں تو ان کی زبان پر یہ الفاظ مچل جاتے ہیں کہ ’ایک تھا شہباز شریف‘۔