• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر بات یہ ہے کہ زرداری صاحب نے پی ڈی ایم کو استعمال کیا، اپنا مطلب نکالا اور سائیڈ پر ہوگئے تو یہ کوئی نئی بات ہے، ہماری سیاست کا وطیرہ ہی ایک دوسرے کا استعمال، بےنظیر بھٹو ایک طرف نواز شریف سے میثاقِ جمہوریت کر رہی تھیں جبکہ دوسری طرف صدر مشرف سے دبئی میں خفیہ ملاقاتیں اور این آر او، نواز شریف ایک طرف بے نظیر بھٹو سے مل کر جمہوریت مضبوط کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف وہ اپنے غیرملکی دوستوں کی مدد سے صدر مشرف سے رابطے میں تھے۔

واپس آنے کی ڈیلیں فرمارہے تھے، یہ تو ایک مثال، ورنہ دونوں پارٹیوں نے بیسوؤں بار ایک دوسرے کو استعمال کیا، اگر بات یہ کہ زرداری صاحب ان لمحوں میں جب نوازشریف اشتہاری ہوکر لندن میں تب انہیں چھوڑ کر ایک سائیڈ پر ہو گئے۔

ان مشکل لمحوں میں زرداری صاحب کو نواز شریف کا ساتھ دینا چاہئے تھا، تو یہ کوئی نئی بات ہے، زرداری صاحب نے جب جنرل راحیل شریف کو مخاطب کرکے اینٹ سے اینٹ بجانے والی تقریر کی تب وزیراعظم نواز شریف نے اگلے دن ان سے طے شدہ ناشتہ ملاقات کینسل کرکے سب رابطے منقطع کر لئے اور زرداری صاحب کو 18ماہ باہر رہنا پڑا، بات آگے بڑھانے سے پہلے اک بات واضح کرتا چلوں کہ ابھی تک جو کچھ ہوا یا جو کچھ ہوگا حیران نہیں ہونا، یہی ہونا تھا۔

یہی ہوتا آیا ہے، یہ کوئی اصولی لوگوں کے اصولوں کی جنگ نہیں کہ پریشان ہوا جائے، جب ایک طرف بھٹو کی پیداوار اور دوسری طرف ضیاء کی باقیات مطلب قاتل، مقتول پارٹیوں کا اتحاد ہو، آگ پانی کا ملاپ ہو، ذاتی مفادات کا اکٹھ ہو تو جس کا داؤ لگے گا، وہ لگائے گا، اب اگر زرداری صاحب پی ڈی ایم میں رہ کر یا نکل کر کیسوں سے جان چھڑوانے کے چکر میں، سندھ بچانے کے چکر میں، کسی ڈیل، ڈھیل کے چکر میں، تو یہ کوئی نئی بات، ہماری سیاست میں کون ہے جس نے یہ نہیں کیا۔

کیا مسلم لیگ یہی کچھ نہیں کرتی رہی،ا عتزاز احسن کو کیوں بلاول بھٹو کو یہ نصیحت کرنا پڑی کہ ہاؤس آف شریف سے محتاط رہنا، جب سیٹی بجتی ہے تو یہ غائب ہوجاتے ہیں۔

اگر بات یہ کہ پیپلز پارٹی لانگ مارچ، دھرنے میں دل وجان سے ساتھ نہیں دے رہی، وہ استعفے دینے سے ہچکچا رہی ہے تو یہ کوئی نئی بات ہے، یاد کریں جب طاہر القادری، عمران خان سٹرکوں پر تھے۔

لانگ مارچ، دھرنے، سول نافرمانی، لاک ڈاؤن ہورہے تھے تب نواز حکومت کے ساتھ مولانا صاحب اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سجائے بیٹھے تھے، تب مسلم لیگ، جے یو آئی، پی پی سب عمران خان کو دعوتیں دے رہے تھے۔

آئیے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر سب مسائل حل کریں، یہاں سب طے کرتے ہیں، پیپلز پارٹی آج بھی وہی کچھ کہہ رہی جو کل کہہ رہی تھی کہ آئیے اپنی سب لڑائیاں پارلیمنٹ میں لڑتے ہیں، آج چونکہ نواز شریف، مولانا پارلیمنٹ میں اسٹیک ہولڈر نہیں، لہٰذا آج وہ دمادم مست قلندر کے حق میں، ورنہ یہی مولانا صاحب تھے جو کہا کرتے تھے کہ دھرنوں، لانگ مارچوں مطلب سٹرکوں پر آکر حکومت کو گھر بھجوانا بغاوت کے مترادف، اگر بات یہ کہ زرداری صاحب عین موقع پر سویلین بالادستی، ووٹ کو عزت دو، جمہوریت کی جنگ سے منہ پھیر گئے تو یہ سراسر غلط، جب بھٹو ضیاء کا اکٹھ ہو، مولانا صاحب، اچکزئی صاحب ایک چھت تلے ہوں، مولانا صاحب اے این پی ایک اتحاد میں ہوں، پی پی، مسلم لیگ ایک ساتھ بیٹھے ہوں تو سمجھ جائیں یہ کوئی نظریاتی، اصولی، اخلاقی کھیل نہیں، سب سرواویل گیم، تاریخ بتائے بی بی، میاں میثاقِ جمہوریت ہو، زرداری صاحب کا رائے ونڈ جاکر 50ڈشز کا کھانا ہو، شہباز شریف کی بلاول ہاؤس پر حاضری ہو، مریم نواز کا لاڑکانہ جانا ہو، مریم، بلاول ملاقاتیں ہوں، سب کچھ عارضی سب کچھ فرضی، سب کچھ وقتی اور سب کا سب کچھ اپنے لئے۔ 

اب آجائیے زرداری صاحب کی اُس تقریر پر، جس کے بعد پی پی، مولانا صاحب کی نظرمیں غیر جمہوری ہوگئی، کیا زرداری صاحب نے غلط کہا کہ نواز شریف صاحب، اسحق ڈار کے ہمراہ آئیں اور انقلاب کو لیڈ کریں، کیا غلط کہا کہ میاں صاحب واپس آئیں ہم استعفے آپ کے پاس جمع کرواتے ہیں۔

میں جنگ کیلئے تیار ہوں، آخری سانس تک جدوجہد کروں گا مگر میاں صاحب آپ تشریف لائیں، اگر اس بار جیل جانا پڑا تو سب ملکر جیل جائیں گے، کیا نوازشریف کو بلانا غلط، کیا اخلاقی، قانونی، سیاسی طور پر نواز شریف کا وطن واپس آنا نہیں بنتا، اخلاقی طور پر دیکھیں تو نوازشریف لندن علاج کروانے گئے تھے، وہ وہاں سیاستیں کرنے نہیں گئے تھے۔

ان کے پاس 8ہفتوں کی مہلت تھی، ڈیڑھ سال ہوگیا، ایک دن اسپتال میں داخل ہوئے نہ باقاعدہ علاج، اخلاقی طور پر اب انہیں واپس آنا چاہیے، قانونی طوپر دیکھیں تو ان کی مدت ضمانت ختم ہوچکی، وہ اشتہار ی ہوچکے، عدالتیں بلارہیں، انہیں واپس آنا چاہئے، سیاسی طورپر دیکھیں تو جب جنگ جمہوریت کی لڑنی، جب معاملہ سویلین بالادستی کا، جب بات ووٹ کو عزت دو کی،جب لانا ا نقلاب ہو، تب لندن میں بیٹھنے کی بجائے واپس آنا بنتا ہے۔

اب ایک طرف مریم نوازکہیں نواز شریف قائد، رہبر، امام خمینی، دوسری طرف واپس آنے کا کہا جائے تو مریم نواز بولیں، نواز شریف کی جان کو نیب سے خطرہ، زرداری صاحب جان کی گارنٹی دیں ۔اصل بات یہ ہر کوئی اپنے چکر میں، کوئی سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی بنا کر میدان میں، کوئی خود کو بچا رہا، کوئی جو کچھ پاس اُسے بچار ہا، کوئی کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے پر تلا ہوا۔

سب کچھ چند ذاتوں کے گرد گھوم رہا، سب لڑائیاں، سب جنگ وجدل چند ذاتوں کی وجہ سے، ان چند ذاتوں کوآج ریلیف مل جائے، یہ آج سکون میں آجائیں، سب ٹھیک ہوجائے، یہ کورونے، یہ ٹڈی دل، یہ اپنی انہی ذاتی لڑائیوں میں تباہ کرگئے پاکستان کو، کچھ باقی نہ رہا، قرضے، مہنگائی، بے روزگاری، غربت، ہر ادارہ زمین بوس، حکومت نہ اپوزیشن، پارلیمنٹ نہ سینیٹ، نظام انصاف تباہ، قوم کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے۔

قوم بجلی، گیس کے بل سامنے رکھے رورہی، اسپتالوں، اسکولوں، تھانوں میں چھتر کھارہی جبکہ یہ بے حس اربوں، کھربوں پتی بونی قیادت ذاتی لڑائیاں لڑرہی، ملک ملک جائیدادیں بناکر، اپنی اولادیں سیٹ کرکے ہمیں یہ جونکیں چمٹی ہوئیں، ہمارا خون چوس رہیں اور دکھ کی بات یہ قوم بڑے مزے سے خون چُسوا رہی۔

تازہ ترین