• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خارجہ امور میں ایسی کوئی پیشرفت جو بین الاقوامی سطح پر رونما ہورہی ہو اور اس سے کسی بھی طرح وطن عزیزکاتعلق ہو تو اس سے غیرمتعلق نہیں رہا جا سکتا ہے۔ نریندر مودی اور حسینہ واجد نے اگرتلہ، جو بھارتی ریاست تریپورہ کا دارالحکومت ہے، سے ایک پل کا، جو ایک اعشاریہ نو کلومیٹر پر محیط ہے، مشترکہ طور پر افتتاح کیا جس کو انڈیا بنگلہ دیش دوستی پل کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے۔ ان دونوں ممالک کو حق حاصل ہے کہ وہ ایک دوسرے سے مفادات حاصل کریں ایسا کرنے کی صورت میں کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے لیکن پریشانی تب سامنے آتی ہے کہ جب اس تقریب میں بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے 1971کے واقعات کا ذکر کرتی ہے اور اس میں بھارتی قیادت کے کردار کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کرتی ہے کہ ہم آپ کے بغیر اپنی ’’جنگ آزادی‘‘ میں فاتح نہیں ہو سکتے تھے۔ ایسی گفتگو کسی شبہ کے بغیر پاکستانیوں کو چونکنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ یہ صرف بھارت کی اپنے معاشی اہداف کی طرف ایک پیش رفت نہیں بلکہ اس کے اسٹرٹیجک مقاصد بھی ہیں ورنہ حسینہ واجد کو ایسی گفتگو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بھارت اس علاقے میں ریل کے منصوبوں کے ذریعے پہلے ہی خاصہ متحرک ہے اور اب یہ دوستی پل تو اگرتلہ اور بنگلہ دیش کی بندرگاہ چٹوگرام کے درمیانی فاصلے کو سو کلو میٹر سے بھی کم کر دے گا۔ اسی لئے حسینہ واجد نے اس پل کو شمال مشرقی بھارت کی رگ حیات قرار دیا ہے۔ اس سے قبل اگرتلہ سے قریب ترین کلکتہ کی بندرگاہ کا فاصلہ سولہ سو کلومیٹر تھا۔ بنگلہ دیش اس بندرگاہ کے ساتھ ساتھ مونگا کی بندرگاہ سے بھی بھارت کو آمدورفت کی اجازت دے چکا ہے۔ ان اقدامات سے صرف تری پورہ ہی مستفید نہیں ہو گا بلکہ جنوبی آسام میزو رام اور منی پور بھی منسلک ہو جائیں گے۔ خیال رہے کہ انڈیا کی یہ شمال مشرقی ریاستیں لینڈ لاک ہیں۔ بنگلہ دیش سہولت دیکر بھارت کے ذریعے جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان تجارتی گزرگاہ بننا چاہتا ہے اور اسی لئے وہ بھارت کے سیکورٹی مفادات بھی پورے کرنے کے لئے تیار ہے۔ بھارت کولمبو پورٹ سری لنکا پر بھی اپنی اجارہ داری اسی سبب سے قائم کرنا چاہتا ہے۔ میں تجارتی معاملات سے زیادہ سیکورٹی امور کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ ابھی گزشتہ برس کے آخر میں ہی امریکہ اور انڈیا نے خلیج بنگال میں بحری مشقیں کی تھیں جنہیں چین کو پیغام دینے کے لئے ادھر ترتیب دیا گیا تھا۔

یہ مشق چاہے کسی پرانے معاہدے کے تحت ہی ہو مگر ان کے اس وقت اس جگہ پر انعقاد کا مقصد ایک واضح پیغام دینا تھا اور ابھی اس کی گرد نہیں بیٹھی تھی کہ امریکہ نے ایک ورچوئل کانفرنس منعقد کروا دی جس میں امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے سربراہان نے شرکت کی۔ کانفرنس کا مقصد انڈو پیسفک کو اپنے مطابق ڈھالنا تھا اور اسکے لئے free , open and inclusive کی اصطلاحات استعمال کی جا رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ نیٹوکے ایشیائی ورژن کی تشکیل کی طرف قدم ہے اور اس کا ہدف چین ہے۔ اس ورچوئل کانفرنس کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں خاص طور پر ساؤتھ چائنا سی کا ذکر کیا گیا۔ جب کہ چین کے وزیر خارجہ نے بہت محتاط گفتگو کی ہے اور کہا ہے کہ چین اور آسیان ممالک کو جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے پر اختلافات پر قابو پانا چاہئے، مشاورتی عمل کو آگے بڑھانا چاہئے، جنوبی بحیرہ چین میں تمام فریقین کے درمیان طے پانے والے اعلامیے پر عمل کرنا چاہئے، باہمی اعتماد وتعاون کومضبوط بنانا چاہئے، اور جنوبی بحیرہ چین کے استحکام کا مشترکہ طور پر تحفظ کرنا چاہئے۔ بہرحال انڈو پیسفک کے پانیوں میں بھارت کی غیر معمولی اہمیت پاکستان کیلئے کیا معنی رکھتی ہے بالکل واضح ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ نئی امریکی حکومت نے افغانستان کے حوالے سے اپنی ترجیحات کو واضح کرنے کیلئے افغان صدر اشرف غنی کو ایک خط تحریر کیا ہے جس میں افغانستان میں بھارتی کردار کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے کہ یہ کردار ضرور موجود ہوگا۔ بھارت کا کردار ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ایک طرف تو پاکستان انڈو پيسفک میں اسکے سیکورٹی حصار میں چلا جائیگا اور دوسری جانب افغانستان سے ماضی میں جو کارروائیاں ہوتی رہی ہیں اس میں بھارت کا مزید کردار بڑھ جائے گا۔ صدر بائیڈن نے اپنے حلف کے بعد مودی کو جوفون کال کی، اس میں بھی بھارت کے بڑھتے کردار کی بو آتی ہے۔ صورت حال ایسی ہے کہ دو برادر مسلمان ممالک بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم بھارت سے اس کی خواہشات پر معاملات طے کرلیں۔ جب کہ وطن عزیز کی اس وقت سفارتی حیثیت اتنی کمزور ہے کہ امریکی صدر نے اب تک پاکستان میں کسی سے فون پر بات تک نہیں کی۔ امریکی وزیر خارجہ نے آرمی چیف کو فون کیا تھا جس سے اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا پاکستان میں جمہوریت کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے۔ اسکے علاوہ کم و بیش دو برس سے امریکہ نے اسلام آباد میں اپنا باقاعدہ سفیر ہی مقرر نہیں کیا اور نہ ہی اگلے چند ماہ میں اسکا امکان ہے۔ واشنگٹن میں ہمارے سفارت خانے کی بھی نئی انتظامیہ سے ملاقات نہیں ہوئی۔ یہ کیفیت کوئی اچانک قائم نہیں ہوگئی بلکہ پے در پے غلطیاں ہمیں اس سطح تک ہمیں لے آئی ہیں۔ ہمیں حالات کو سنجیدہ لینا چاہئے کیونکہ بھارت انڈو پيسفک سے لیکر افغانستان تک اپنی بالادستی قائم کرنے کی طرف بہت رفتار سے پیش قدمی کر رہا ہے۔

تازہ ترین