سپریم کورٹ نے ڈینئل پرل قتل کیس کے ملزمان کی رہائی کا 28 جنوری کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 28 جنوری کو ملزمان کی رہائی کا فیصلہ دیا تھا، تین رکنی بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس یحیٰی آفریدی بھی شامل تھے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کی تمام کہانی میں شکوک و شبہات تھے، استغاثہ کے ٹھوس شواہد پیش نہ کرنے پر ملزمان کو رہا کیا جاتا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، اور اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق احمد عمر شیخ کے خلاف ڈینئل پرل کے اغوا اور قتل کی سازش کا الزام ثابت نہیں ہوسکا، استغاثہ نے پولیس اہلکار کو ٹیکسی ڈرائیور بناکر پیش کیا، گواہ بنائے گئے ٹیکسی ڈرائیور کو ڈینئل پرل کی شناخت کے لیے تصویر بھی نہیں دکھائی گی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اگر کوئی ہتھکڑی لگا ملزم اعتراف جرم کرے بھی تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، ڈینئل پرل کی اہلیہ نے قتل کی دھمکیوں پر مبنی ای میلز کو پولیس سے چھپائے رکھا، ڈینئل پرل کی جان خطرے میں تھی اور ان کی اہلیہ 12 دن تک خاموش رہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ایف آئی آر میں دھمکی آمیز ای میلز کا ذکر ہے نا ہی ڈینئل پرل کی اہلیہ شامل تفتیش ہوئیں، قتل کی ویڈیو میں بھی ملزمان کی شناخت نہیں ہوسکی۔
فیصلے کے متن میں کہا گیا ہے کہ قتل کی اصل ویڈیو کو پولیس سے بھی جان بوجھ کر چھپایا گیا، اصل ویڈیو کلپ مل جاتا تو اس کا فارنزک کروایا جاسکتا تھا، عدالت فارنزک کے بغیر کسی ویڈیو ثبوت پر انحصار نہیں کر سکتی۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ استغاثہ شواہد کے ساتھ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ ملزم نے ڈینئل پرل کوقتل کیا، ڈینئل پرل کے اہلخانہ کے عدم تعاون کی وجہ سے تفتیش میں کئی خامیاں سامنے آئیں، عدالتوں کا کام تفتیش میں سامنے آنے والی غلطیوں کا جائزہ لے کر ان کو درست کرنا نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کی تمام کہانی میں شکوک وشبہات تھے، استغاثہ کےٹھوس شواہد پیش نہ کرنے پر ملزمان کو رہا کیا جاتا ہے۔