• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین پیپلزپارٹی اور امیرِجماعت کے مابین نیب، الیکشن کمیشن، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر، طلبہ تنظیموں اور کراچی کی سیاست جیسے مشترکات پر ملاقات سے ایک روز قبل جب ایک تقریب اپنے شباب پر تھی تو جنرل سیکرٹری پاکستان مسلم ن احسن اقبال اور وزیر ہائر ایجوکیشن پنجاب راجہ یاسر کے قریب کچھ لمحے رُک گیا، احسن اقبال جماعت اسلامی کے ایک رہنما عبدالعزیز عابد کو کہہ رہے تھے کہ جماعت کی حالیہ سیاسی حالات میں کوئی سمجھ نہیں آرہی۔ جماعت اسلامی کی جانب سے کیا جواب آیا میں نہ سن سکا کیونکہ اچانک کے ای میڈیکل یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلرز ڈاکٹر مسعود گوندل اور ڈاکٹر جاوید اکرم کے ساتھ ہیلو ہائے ہونے لگی تاہم مجھے یہ معلوم تھا یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادوں اور جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کے درمیان گیلانی سینٹ الیکشن کے دنوں سے کوئی کھچڑی پک رہی تھی۔ جماعت نے بہرحال پی ڈی ایم امیدوار کو ووٹ دینے سے انکار کردیا تھا مگر روابط تھے جو آخر جنرل سیکرٹری جماعتِ اسلامی امیرالعظیم کی مداخلت سے ملاقات کی دہلیز تک پہنچ گئے۔ اس ملاقات کا ایجنڈا شاید ہنوز واضح نہ تھا یا جماعت اسلامی بتانا نہیں چاہتی تھی مگر زمانہ تو جانتا ہے کہ کوئی اعلیٰ سطحی سیاسی ملاقات ہو یا رومانوی ملاقات‘ ان دونوں کا ایجنڈا ہوتا کیا ہے اور دونوں پارٹیوں کی اَن کہی جو کہی میں بدلنے والی تھی‘ ہمیں یہ معلوم تھا۔

حسنِ اتفاق دیکھئے، میں جوں ہی اس تقریب کے استقبالیہ پر پہنچا تو نائب امیر جماعت اسلامی فرید پراچہ، امیر العظیم اور میاں مقصود جاتے اور پیپلزپارٹی کے میڈیا سے متعلقین سینئر رہنما نوید چوہدری اور نوجوان بیرسٹر عامر حسن اکٹھے ملے چونکہ یہ 20 مارچ کی شب تھی اور اگلے روز ان دو پارٹیوں کے قائدین کی ون ٹو ون ملاقات تھی چنانچہ ماحولیاتی بذلہ سنجی اور رگِ ظرافت بولی کہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی آج ہی سے اکٹھی بیٹھ جائیں مگر سوائے مسکراہٹ کے ان لوگوں نے کچھ نہ دیا۔ میں کریدنے کے درپے تھا کہ اسی اثناء میں مجھے وی سی آزاد کشمیر یونیورسٹی ڈاکٹر کلیم عباسی، وی سی قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر محمد علی شاہ، وی سی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ڈاکٹر اطہر، وی سی جی سی یو ایف ڈاکٹر شاہد کمال، رئیس جامعہ میانوالی ڈاکٹر اسلام اور سیکرٹری کے ایل ایس آزاد کشمیر گورنمنٹ چوہدری امتیاز کو چشم ما روشن دل ماشاد کہنا ہو گیا۔ قارئین با تمکین! خالص سیاسی گفتگو اور سراج، بلاول ملاقات کی جانب بڑھنے سے قبل بتاتا چلوں کہ سیاسی رہنمائوں اور وائس چانسلرز، رجسٹرارز پروفیسرز اور وکلاء کی گلیکسی کا متذکرہ منظرنامہ جامعہ پنجاب کے سبزہ زار پر میرے دو بیٹوں مغیرہ مسعود اور ایڈووکیٹ ایم مسعود کی تقریبِ ولیمہ کا تھا۔پیپلزپارٹی و جماعت اسلامی کے سربراہان و اعلیٰ سطحی وفود کی ملاقات کی خوشگواری کا عالم قابل ذکر ہے، دونوں رہنماؤں کی سلیقگی اور فہم پر دونوں جانب اعتماد اور فخر کا اظہار کیا گیا۔ مجھے یاد ہے اور اس سیاسی محفل میں اس کا تذکرہ بھی ہوا کہ ماضی میں جب آصف علی زرداری منصورہ آئے (بلاول تعلیم کیلئے باہر تھے) تو سراج الحق نے کہا، ’’زرداری صاحب! آپ سیاست کریں اور بلاول صاحب برائے فہم تنظیمی امور ہمیں دے دیں‘‘۔ پیپلزپارٹی کے رہنما نے قصہ سنایا کہ بی بی ایک اجلاس کی صدارت کر رہی تھیں کہ’’ناقابلِ ہضم‘‘ نظم اور نستعلیق قسم کا منظر تھا اور محترمہ اچانک بولیں،’’کیا میں جماعتِ اسلامی کے اجلاس میں ہوں؟‘‘ ایک واقعہ لیاقت بلوچ نے سنایا کہ’’ایک میٹنگ میں، میں نے محترمہ سے کہا کہ آپ کی پارٹی میں ڈسپلن نہیں، افطاریوں میں لوگ عصر ہی کے وقت روزہ کھول لیتے ہیں۔‘‘ لیاقت بلوچ کو محترمہ نے جواباً کہا،’’بلوچ صاحب! جب آپ کی جماعت میں عوام آجائیں گے تو پھر آپ یہ بات سمجھ پائیں گے‘‘۔ امیرِجماعت نے اس بات کو وسعتِ قلب سے تسلیم کیا کہ پیپلزپارٹی ایک اکیڈمک تشخص، جمہوری نظریے اور عوامی پذیرائی کی حامل پارٹی ہے۔ انہوں نے دورانِ گفت و شنید کے پی کے ایک سرحدی گاؤں کی مثال بھی دی کہ وہاں پر پانچ دہائیوں سے آج تک دو ہی سیاسی مسکن ہیں‘ ایک پیپلزپارٹی اور دوسرا جماعتِ اسلامی۔ مجھے یاد ہے ماضی میں راقم نے اپنے ایک کالم کی جب ’’بلاول بمقابلہ سراج الحق‘‘ سرخی جمائی تو ساتھی تلملائے تھے کہ کہاں امیرِ جماعت اور کہاں بلاول؟ آج بلاول بہرحال زمانے کو اسٹیٹس مین لگتے ہیں۔ کوئی سال بھر پہلے میں نے ایک کالم میں منصورہ میں سراج و بلاول ملاقات کی ضرورت اور ایمیت پر زور دیا، اور کہا تھا کہ مولانا مودودی کی تصنیف ’’تنقیحات‘‘ کا انگریزی ترجمہ بلاول بھٹو کو پیش کریں کہ مولانا، خلافت و ملوکیت، اور الجہاد یا پردہ سے آگے فلسفہ اور سائنس تک بھی وسعت رکھتے ہیں، اُس صریر خامہ کے پیچھے چل کر قیصر شریف میرے غریب خانے تک ضرور آئے تاہم وہ ترجمہ کسی بالا خانے تک ابھی نہیں پہنچا۔ میری تنقیہات والی بات کچھ جیالوں کو بھی اچھی نہیں لگی تھی حالانکہ مولانا نے محض 16برس کی عمر میں دو کتابیں لکھی تھیں۔ پہلی کتاب مہاتما گاندھی اور دوسری پنڈت مدن موہن مالویہ (ہندو مہاسبھا اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے بانی پنڈت) پر ہے جو مکمل سوانح حیات تھیں۔

المختصر، الیکشن کمیشن کی اصلاحات پر دونوں جماعتوں نے ساتھ چلنے کا وعدہ کیا ہے۔ نیب کی جانبداری دونوں کو ایک سی نظر آرہی ہے اور وہ سب کے منصفانہ و غیر متعصبانہ احتساب پر متفق ہیں۔ بلاول نے بارہا کہا پی ڈی ایم میں جماعت اسلامی کی کمی ہے۔ ویسے بیرونِ دریا ہے بھی کیا؟ جانے مجھے کیوں لگتا ہے پی ڈی ایم قائم رہے گی، جماعت بھی رونقِ محفل ہوگی۔ جماعتی اور جیالوی جمال کا سیکرٹ اور اوپن سیکرٹ کراچی کی سیاست و پارلیمانی جمہوری حُسن کو چار چاند لگاتا دکھائی دینے لگا ہے!

تازہ ترین