اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور برطانوی اخبار ڈیلی میل کے درمیان باہمی رضا مندی سے معاملہ حل کرنے کی کوشش آخری لمحات میں ناکام ہوگئی۔
لندن میں شہباز شریف اور ڈیلی میل کے وکلا نے خفیہ ملاقات کی، جس کی تفصیلات جیونیوز نے حاصل کرلی ہیں۔
ذرائع کے مطابق اخبار کے وکلا نے مقدمہ کی ابتدائی سماعت کی کارروائی بھی رکوانے کی کوشش کی تھی، جسے رد کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اخبار کے وکلاء کو خدشہ تھا کہ شہباز شریف پاکستان میں جیل میں قید ہیں اگر وہ برطانوی عدالت میں مقدمہ ہار گئے تو اخراجات کون ادا کرے گا؟
ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے اخراجات ادا کرنے کی ضمانت دی اور سماعت روکنے کی تجویز سے انکار کردیا تھا۔
ڈیلی میل کے وکلا نے مقدمے کی ابتدائی سماعت سے قبل ایک بار پھر شہباز شریف کے وکلا کو خط لکھا، جس میں ڈیوڈ روز کے مضمون کی اخبار اور آن لائن وضاحت شائع کرنے کی مشروط پیشکش کی۔
ذرائع کے مطابق شہباز شریف کے وکلا نے اخبار سے معافی مانگنے، ہرجانہ ادا کرنے اور اخبار سے مضمون ہٹانے کی شرائط رکھیں، ساتھ ہی یہ تجویز بھی دی کہ وضاحت ان کی شرائط پر شائع کی جائے گی۔
اخبار کے وکلاء نے خواہش ظاہر کی کہ شہباز شریف کا مقدمہ جب تک پاکستان ہائیکورٹ نہیں جاتا، اس وقت تک یہاں کارروائی روکی جائے، اگر احتساب عدالت شہباز شریف کو بری کردیتی ہے تو ڈیلی میل اخبار انھیں ہرجانہ ادا کردے گا۔
ذرائع کے مطابق وکلاء نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی صورت میں 28 دن کے نوٹس پر اسٹے ختم کیا جاسکتا ہے۔
ابتدائی سماعت سے قبل جسٹس میتھیو نکلین نے اخبار کی تجاویز، شہباز شریف کی رضامندی کو قبول کرنے سے انکار کیا۔
ذرائع کے مطابق جج نے دونوں فریقوں کو تیسرے فریق علی عمران یوسف کو بھی معاملے میں شامل کرنے کو کہا تھا، وضاحت شائع کرنے اور مقدمہ بھی برقرار رکھنے کی تجاویز کو علی عمران یوسف نے مسترد کردیا تھا۔
ابتدائی سماعت میں جج نے شہباز شریف کی ہتک عزت کی شرح ’چیز ون‘ اور علی عمران کی ’چیز ون اینڈ ٹو‘ قرار دی۔
ذرائع کے مطابق ڈیلی میل اخبار کے پاس عدالت میں ثبوت جمع کرانے کیلئے اب 2 ہفتے باقی ہیں۔
دوسری طرف مضمون لکھنے والے صحافی ڈیوڈ روز نے معاملات طے کرنے کی اطلاعات کو غلط قرار دے دیا۔
بیرسٹر راشد اسلم کی رائے ہیں کہ دفاع کرنے والا ایسی تجاویز اس وقت پیش کرتا ہے جب کیس مضبوط نہ ہو۔