• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت مسلسل نشانے پر ہے کل تک سارا زور اس بات پر تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اسمبلیوںسے مستعفی کیوں نہیں ہوتی ،آج سارا غصہ اس بات پرہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف کیوںبنایا گیا؟ اس حقیقت کو قطعی طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن اراکین میں اکثریت پیپلزپارٹی کو حاصل ہے۔، دوسری اہم بات یہکہ ایوانِ بالا میں قائدِ حزبِ اختلاف کیلئے سینئر پارلیمنٹیرین ضروری ہے ، اسلئے پاکستان پیپلزپارٹی نے سید یوسف رضا گیلانی کا انتخاب کیا ۔غور طلب پہلو یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں جو سیاسی پارٹیاں شامل ہیں، ان کا سیاسی منشور اور نقطہ نظر مختلف ہے لیکن سلیکٹڈ حکومت کے خلاف بیانیہ ایک ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل کچھ پارٹیوں کا نقطہ نظر تھا کہ اپوزیشن اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائے مگر پاکستان پیپلزپارٹی کا نقطہ نظر مختلف تھا اور ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگراپوزیشن اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائے تو آگے کیا ہوگا ؟ اس حوالے سے کسی کے پاس کوئی نقشہ یا حکمت عملی نہیں تھی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ضمنی انتخابات اور سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کی تجویز دی تھی جس پر عمل کیا گیا تو جے یو آئی کو بلوچستان اور مسلم لیگ ن کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کامیابی حاصل ہوئی اوران کا فوری نتیجہ پی ٹی آئی کی شکست کی صورت میں سامنے آیا، پھر سینیٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے پنجاب میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے کی بجائے ڈیل کے ذریعے اپنے حصے کے سینیٹر بنوائے، یہ مسلم لیگ ن کا اختیار تھا تاہم پی ٹی آئی سے اندرونِ خانہ سودے بازی سوالات تو پیدا کر رہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی کامیاب سیاسی حکمت عملی سے ایوان بالا میں حزب اختلاف کی قوت میں اضافہ ہوا ہے اگر سینیٹ میں حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ پی ڈی ایم کی سیاسی فتح ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم سے یہ توقع کیوں کی جا رہی تھی کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کیلئے اعظم نذیر تارڑ کے نام پراتفاق کریں جو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کا وکیل ہے۔ سیاست میں شعلہ بیانی اور جذباتی تقاریر اپنی جگہ مگر سیاسی جنگ میں جوش کے ساتھ ہوش کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ انتخابات کے بائیکاٹ کے نتائج کیا ہوتے ہیں، ہم تو ایل ایف او کو آئین میں نتھی کرنے کے خلاف اکیلے ہی کھڑے تھے۔ اگر ہم پارلیمنٹ کو سلیکٹڈ کے رحم کرم پر چھوڑدیں تو وہ بلا کسی رکاوٹ اور مزاحمت کے آئین کا وہ حشر کریں جس کے انتہائی مضر نتائج نکلیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کا قومی اسمبلی سے سینیٹر منتخب ہونے کو معجزہ سمجھا جائے اس جمہوری عمل نے عمران نیازی کے پاوں اکھیڑ دیئے ہیں اور اس کے بعد سینیٹ میں آزاد گروپ بنانابھی ایک غیر معمولی بات ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی اس کامیاب سیاسی حکمت عملی کا اقرار کیا جاتا مگر الٹا ان پر تنقید کی گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ پنجاب چھیننے کیلئے حمزہ شہباز کو سامنے لانے میں کیا قباحت ہے کہ بزدار تو قبول ہے حمزہ شہباز نہیں۔ اگر عمران نیازی کو صرف اسلام آباد تک محدود کرنا ہے تو ضروری ہے کہ ان سے پنجاب کی حکومت چھینی جائے، یہ جمہوری جنگ ہوگی۔ پنجاب میں حمزہ شہباز کے آنے کے بعد وفاق میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے روشن امکانات ہیں اور سیاست امکانات کا کھیل ہے۔جہاں تک پاکستان پیپلزپارٹی کی اصولی سیاست کا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی اپنے اصولی موقف پر قائم ہے۔ ہم جمہوری لوگ ہیں اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔ ہمارے قائد آصف علی زرداری نے ایک ایسے وقت میں پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کیا جب پاکستان کو شدید خطرہ لاحق تھا۔ آصف علی زرداری نے ماضی کے تمام آمروں کی طرف سے پارلیمنٹ کے ہتھیائے ہوئے اختیارات واپس پارلیمنٹ کو دے کر پارلیمنٹ میں موجود جمہوری پارٹیوں کی مدد سے 1973ء کا آئین بحال کیا۔ صوبوں کو خودمختاری دی اور این ایف سی ایوارڈ بھی دیا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ایک سوچ جس کو جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی قبول نہیں مختلف حیلے بہانوں سے پارلیمنٹ پر حملہ آور ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری لڑائی ملک پر مسلط سلیکٹڈ حکومت سے ہے یا پارلیمنٹ سے؟ اگر مخصوص سوچ پارلیمنٹ کو بے اثر کرنا چاہتی ہے تو کیا ہم پارلیمنٹ کو سلیکٹڈ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں؟ ہمیں میڈیا ٹرائل کی کوئی پروا نہیں کیونکہ ہمارا میڈیا ٹرائل آج سے نہیں 50 سال سے ہو رہا ہے۔ یہ طے ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو جمہوریت سب سے زیادہ عزیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے تحفظات کے باوجود آر او انتخابات کے نتائج کو تسلیم کیا تھا۔

(کالم نگار سیکرٹری اطلاعات پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ہیں)

تازہ ترین