پاکستان کا پہلا منتخب وزیر اعظم و صدر ،پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کا خالق ،پہلی اسلامی ریاست کے ایٹمی پروگرام کا بانی قائد ِعوام ذوالفقار علی بھٹو کٹہرے میں کھڑ ا ریاست اور عوام سے کچھ یوں مخاطب ہوا ـ!
’’ میری روح میراعزم اور میری قوت ارادی ہے میں پھانسی کو ترجیح دوں گا اور پھندے کو قبول کروں گا۔آج جب میں اس تنگ و تاریخ کوٹھڑی کی چار دیواری میں گھرا بیٹھا ہوں تو میرے ذہن پر اس زندگی کا پورا عکس پھیلا ہوا ہے جو میں نے اپنے عوام کی خدمت میں گزاری۔ اس قید تنہائی میں‘ میں نے اپنے تمام ماضی کو دوبارہ گزار لیا ہے۔کسی فرد واحد کو یہ اختیار نہیں کہ وہ مجھے پاکستان کی سیاسی زندگی سے جدا کر سکے۔ سیاست سرکاری مشنری کی غیر قانونی ملکیت نہیں ہے۔ سیاست ایک پھلتے پھولتے معاشرے کو ایک بنجر زمین میں تبدیل کر دینے کا نام نہیں ہے۔ سیاست زندگی کی روح ہے یہ میرا اپنے عوام کے ساتھ ابدی عشق ہے صرف عوام ہی اس ابدی بندھن کو توڑ سکتے ہیں۔ میرے نزدیک سیاست اور عوام ایک ہی لفظ کے دو معنی ہیںیہ ایک مکمل اور منہ بولتا سچ ہے۔کسی کو یہ حق نہیں پہنچا کہ میرے عوام سے میرا روحانی اور لازوال رشتہ توڑ سکے۔ یہ میرے ورثہ کا اٹوٹ حصہ ہے۔ میں اس وطن کے گردوغبار اور خوشبوئوں کا حصہ ہوں۔ یہاں کے عوام کے آنسو میرے آنسو ہیں اور ان کے چہروں کی خوبصورت مسکراہٹ میری اپنی مسکراہٹ ہے۔ ایک دریا اپنا راستہ تبدیل کر سکتا ہے۔ مگر میں اپنا راستہ تبدیل نہیں کر سکتا۔ میری تقدیر عوام کے ہاتھوں میں ہے صرف عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ میرے ساتھ اپنی محبتوں اور وابستگیوں کی پرکھ کریں۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ آیا میرا نام برصغیر کے مجرموں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے یا بہادر رہنمائوں میں۔ پاکستان کے عوام میرے نام اور میرے وقار کے بہترین محافظ ہیں اور میرا نام تاریخ کے دل میں دھڑکتا رہے گا۔ میرا لہو نوجوان نسل کے چہروں پر سرخی بن کر اُبھرے گا۔ میری قبر سے فتح و نصرت کے پھول اُگیں گے۔ خلق خدا میرے بارے میں گیت گائے گی اور میں اس کی کہانیوں کا جاوداں حصہ بن جائوں گا۔‘‘
بھٹو نے عام آدمی کو سوچ اور اظہار کا وہ گُر سکھایا کہ سیاست عوام کی خواہشات کے تابع ہو گئی اور محلوں والے جھونپڑیوں کے سامنے بھکاری بن کر کھڑے ہو گئے۔جب بھٹو نے قرار دیا کہ غریب کا مقدر صرف ٹھوکریں نہیں اصل میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ عوام کا بھٹو قائد ِعوام بن کر عوام کی خدمت میں مصروف ہوگیا۔ مساوات ، آزادی محروم طبقات کے حقوق کی جنگ میں عوام بھٹو بن گئے اور بھٹو خود عوام ہو گیا۔
بھٹو صاحب نے جابرانہ طاقتوں کا انتہائی دلیری سے مقابلہ کیا تاکہ سچائی ، انصاف اور مساوات کا عکاس ایک پرامن معاشرہ قائم ہو سکے۔ ذوالفقار ِعلی بھٹو نے محروم عوام کے پیروں میں پڑی ہوئی استحصال کی زنجیریں توڑ دیں۔ انتہائی ایذارسانی نفرت انگیز انتقامی کارروائیوں اور موت کی کال کو ٹھری میں قید و بند کی صعوتیوں کے باوجود بھٹو نے اپنی ناقابل شکست قو ت ارادی اور ناقابل تسخیر جذبے سے دشمن کے عزائم کو پامال کر دیا۔ عوام کے لئے بھٹو کے انمول کارناموں نے اسے امر بنا دیا ۔ لہٰذا بھٹو کی مسابقت کسی بھی سیاسی رہنما سے ناممکن ہے۔ بھٹو بننے کا شوق پالا تو جا سکتا ہے مگر جن کے لئے ہمیشہ جان بچانا ترجیح ہو ان کے لیےاسے نبھانا نا ممکن ہے۔
عشق تو سر ہی مانگتا ہے میاں
عشق پر کربلا کا سایہ ہے
انسانی تاریخ میں بہت کم کردار ہیں جنھوں نے موت کو خود پر فتح مند نہ ہونے دیا بلکہ موت کو شکست فاش دے کر امر ہو گئے۔سقراط کا کردار بھٹو صاحب سے بہت مشابہ ہے۔ جرم حق گوئی کا پہلا شہید سقراط اپنے جرم کا اعتراف کچھ یوں کرتا ہے، ’’ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ جس شخص کے دل میں ذرا بھی حق کی تڑپ ہے وہ موت سے ڈر جائے گا تو تم غلط فہمی کا شکار ہو مجھے موت کی پروا نہیں ۔ موت کا خوف مجھے حق بات کہنے سے نہیں روک سکتا۔ موقع پرست لوگ میری موت کو مکافاتِ عمل کا نام دیں گے لیکن دنیا میں کوئی اعلیٰ انسان اصولوں پر زندگی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ یاد رکھو میرے بعد تم آسانی سے میرا نعم البدل نہ پا سکو گے۔ ‘‘
ایتھنز والے سقراط کا نعم البدل نہ پا سکے اور اہل پاکستان بھٹو جیسی کرشماتی قیادت کو ترس رہے ہیں اور بیقدری کی سزاآج تک بھگت رہے ہیں۔ بھٹو کہتے تھے ’’پاکستان کے عوام مجھے اپنی امنگوں کے ساتھ یاد رکھیں گے میں نے انہیں جواں سال قیادت فراہم کی۔ کسان مجھے جوش و جذبہ سے یاد رکھیں گے کہ میں نے جاگیرداری کی زنجیریں توڑ دیں ۔ دانشور میری قدر کریں گے کہ میں نے خود کو ٹیکنالوجی اور جدیدیت سے مخلصانہ طور پر وابستہ رکھا۔ اقلیتیں ہمیشہ مجھے یاد رکھیں گی کہ میں نے ان کے ساتھ سچا سلوک کیا۔ میں نے طبقاتی منافرت نہیں پھیلائی ہاں البتہ مظلوم عوام کا علم یقیناً بلند رکھا ہے اور ان کے حقوق دلانے کی جدوجہد کی اور میں اُس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھوں گا جب تک یہ مقدس مقصد حاصل نہیں کرلیتا۔اگر میری زندگی میں ایسا نہ ہو سکا تو مرتے وقت اپنے بچوں سے وعدہ لوں گا کہ اس مقصد کی تکمیل کریں۔‘‘
ذوالفقار علی بھٹو کے وعدے کو نبھاتے ہوئے ان کے بیٹے ،بے نظیر بیٹی اور ہزاروں جیالے جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور سفر جاری ہے؛
یہ تو کوئی منصور بتائے تو بتائے
سولی پہ تڑپنے میں مزہ ہےکہ نہیں ہے