• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وعدہ خلافی پر جسٹس سعید اور علی زیدی پرہتک عزت کا دعویٰ کروں گا، موسوی

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) براڈشیٹ ایل ایل سی کے سی ای او کاوے موسوی نے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی وزیر علی زیدی اور جسٹس شیخ عظمت سعید ان کے ساتھ رابطے میں تھے اور انھوں نے یقین دلایا تھا کہ وہ انھیں براڈ شیٹ کمیشن کے سامنے طلب کریں گے لیکن انھوں وعدہ شکنی کی۔ انھوں نے کہا کہ اگر براڈشیٹ کمیشن نے رپورٹ میں ان پر لگائے گئے توہین آمیز الزامات پر معذرت نہ کی تو وہ لندن ہائیکورٹ میں ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیں گے۔ براڈشیٹ کے سی ای او نے کہا کہ جسٹس سعید کو سول توہین اور کرمنل توہین کا فرق معلوم نہیں ہے جبکہ قانون کا پہلے سال کا طالبعلم بھی اس فرق کو جانتا ہے۔ انھوں نے تیل کمپنی Vitol کے مقدمے میں اپنی سزا کو اپنے لئے اعزاز قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت میں نے جو کچھ کیا، اس پر مجھے فخر ہے۔انھوں نے کہا کہ جسٹس سعید کو معلوم نہیں کہ میری اس سزا کی نوعیت یہ تھی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی نے مجھے پبلک لا کی فیکلٹی کا سربراہ بنا دیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ نیب کے خلاف مقدمہ جیت کر پاکستان سے کم وبیش 30 ملین پونڈ حاصل کرنے کے بعد وفاقی وزیر علی زیدی میرے ساتھ رابطے میں تھے اور انھوں نے یقین دلایا تھا کہ براڈشیٹ کمیشن ان کے ساتھ رابطے میں رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں عمران خان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن اب انھیں شدید مایوسی ہوئی ہے کیونکہ علی زیدی نے کبھی اپنی یقین دہانیوں کو پورا نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں عمران خان سے کہوں گا کہ مجھے ان سے بڑی امیدیں تھیں لیکن تمام امیدیں غلط ثابت ہوئیں۔ موسوی نے کہا کہ جسٹس سعید نے ظاہر کیا تھا کہ وہ عدالتی تحقیقات کر رہے ہیں لیکن انھوں نے کلیدی گواہ کو طلب ہی نہیں کیا اور مجھ پر الزام عائد کردیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر جسٹس سعید نے 7 دن کے اندر ان سے معافی نہیں مانگی تو وہ لندن ہائیکورٹ میں ان کے خلاف مقدمہ دائر کردیں گے۔ انھوں نے کہا کہ جسٹس سعید نے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ پر بھی الزام عائد کیا ہے جو مصالحتی عدالت میں براڈشیٹ کی جانب سے پاکستانی ماہر کے طورپر پیش ہوئی تھیں، ڈاکٹر صدیقہ کا نام ماہر کی حیثیت سے آکسفورڈ یونیورسٹی نے تجویز کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ جسٹس سعید نے خود کو مفادات کے تنازعے سے الگ کیا ہے، کیونکہ اثاثوں کی ریکوری کے معاہدے کے وقت وہ نیب کا حصہ تھے۔ انھوں نے کہا کہ جسٹس سعید کو لوگوں کی ساکھ پر حملہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی اپیل پر سر انتھونی نے میری شہادت ڈاکٹر صدیقہ کی گواہی کو تسلیم کیا تھا لیکن نیب کی گواہی قبول نہیں کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم خاں اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ موسوی نے بتایا کہ انھوں نے علی زیدی کوبتایا تھا کہ حکومت پاکستان ان کی مزید رقم کا قرضدار ہے اور وہ پاکستان کے خلاف مزید احکامات حاصل کریں گے، جس سے پاکستان کو مزید زیر بار ہونا پڑے گا لیکن زیدی نے یقین دلایا تھا کہ انکوائری منصفانہ ہوگی کیونکہ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس اثر آفرین شخصیت ہیں، میں سمجھا تھا کہ وہ جو انکوائری کریں گے، اس میں عدالتی گواہوں کو طلب کر کے حلفیہ بیان لئے جائیں گے اور ڈاکومنٹس اور شواہد شیئر کئے جائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ انھوں نے براڈشیٹ کمیشن کی رپورٹ کو ڈھونگ قرار دیا۔ اس شخص کو اس لئے کمیشن کا سربراہ بنایا گیا تھا کہ وہ چند افراد کا نام دے کر دوسروں کوبچالے، انھوں نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ علی زیدی نے اس حوالے سے ان کا موقف جاننے کیلئے ان کے فون پر بھیجے گئے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔

تازہ ترین